• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوالیس دنوں کی خون آشام جنگ کے بعد مقامی وقت کے مطابق رات کے لگ بھگ ایک بجے آرمینیا اور آذربائیجان نے روس کی کمان میں جنگ بندی کردی۔ اسکا اعلان اسوقت ہوا جب آذری فوج نےقاراباغ کا دل کہلانے والے شوشا پر قبضہ کرلیا جو تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے آذری زبان اور قومیت کیلئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے آرمینیا کے قبضے میں رہنے کی وجہ سے شوشا کی یاد آذری قوم کے سینے پر ایک گہرے گھاؤ کی مانند تھی۔ مگر آذری اکثر ایک دوسرے سے مستقبل میں شوشا میں ملنے کا وعدہ کرکے اسکی یاد کو تازہ کرتے تھے۔ جنگ کی ابتدا سے ہی آذری صدر الہام علیوف نے شوشا کو آزاد کرانے کا اعادہ کرتے ہوئے اسکے بغیر آذری ریاست اور کلچر کو نامکمل قرار دیا۔ اسکے جواب میں آرمینیائی فوج اور سیاسی قیادت اورقاراباغ میں انکی طفیلی لیڈرشپ نے سینہ ٹھوک کر اعلان کیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت شوشا پر قبضہ نہیں ہونے دیں گے۔ ویسے بھی اس شہر پر قبضہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اول تو یہ ایک عمودی پہاڑی علاقے میں واقع ہے جہاں قدرتی حفاظتی حصار موجود تھا۔ اسکے علاوہ تنگ ترین راستوں کیوجہ سے کوئی بھی ممکنہ فوجی نقل و حمل انتہائی جان لیوا ہے۔ اس پر آرمینیائی قیادت نے ہزاروں فوجیوں کی معیت میں شہر کے اطراف میں ٹینک، توپخانے اور بھاری اسلحہ پھیلاکر کسی بھی قسم کی دراندازی کو تقریباً ناممکن بنادیا تھا۔ مگر پھر اچانک آرمینیا کی جانب سے بقول انکے ناقابلِ تسخیر شہر کے آزاد ہونےکی خبریں آئیں اور ساتھ ہی چند میل دور دارالحکومت خان کندی پر تابڑتوڑ حملوں کی رپورٹیں آنے لگیں۔ اس غیر متوقع جھٹکے کے فوراً بعد آرمینیائی فوج اور سیاسی قیادت کے حوصلے ٹوٹ گئے اور انھوں نے روس سے جنگ بندی کروانے کی بھیک مانگنی شروع کی۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت آذری افواج مزید علاقے خالی کریں گی مگر خطے کے غیر تسلیم شدہ دارالحکومت خان کندی کے مستقبل کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔

آذربائیجان کی غیر یقینی فتح نے جنوبی قفقاز میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد قائم طاقت کے توازن کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ اب روس کے بالمقابل ترکی خطے میں ایک اہم مدمقابل بن کر سامنے آیا ہے۔ ترک صدر ایردوان نے جنگ کے دوران علی الاعلان آذربائیجان کی حمایت کرتے ہوئے خطے میں اپنے ملک کیلئے ایک بڑے رول کا عندیہ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ روس کی زیر نگرانی جنگ بندی کے بعد اب ترکی اور روس میں ایک نیا معاہدہ ہوا ہے جسکی رو سے علاقے میں ترک فوج کے کردار کا تعین ہورہا ہے۔ ماضی میں آرمینیا کے ہاتھوں پے در پے شکست کھانے کی وجہ سے آذری فوج نے تقریباًملک کا بیس فیصد حصہ گنوایا تھا جسکی وجہ سے انکا مورال اور پیشہ ورانہ صلاحیت نہایت ہی کمزور ہونے کے ساتھ انکا وجود بے جان سا دکھائی دیتا تھا۔ مگر ترک فوج کی سخت ٹریننگ اور سپورٹ سے انکو ملنے والی تاریخ ساز کامیابی کی وجہ سے انکا جوش اور جذبہ ایک نئی ابتدا کی شروعات ہے جس سے مستقبل میں اس علاقے میں رہنے والی دیگر ترک نژاد ہمسایہ مملکتوں میں بھی کافی اعتماد پیدا ہوگا۔ اس سے یقیناً ترکی کی طاقت اور وقار میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ مسلمانوں کی گزشتہ ایک سو سال کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے جب انھوں نے کسی غیر مسلم طاقت کیخلاف فیصلہ کن فوجی فتح حاصل کی ہو اور دونوں بار یہ کام ترکوں کے ہاتھوں ہوا۔ سب سے پہلے مصطفیٰ کمال اتاترک کے ہاتھوں یورپی اتحادی افواج کیخلاف اور اب الہام علیوف کی کمان میں قاراباغ میں۔

جس طرح اتاترک کی زیرِکمان افواج نے میدانِ جنگ میں بےپناہ شجاعت کی داستانیں رقم کیں بالکل اسی طرح آذری افواج نے بھی میدان مار لیا۔ عسکری ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ آذری افواج پہاڑوں میں واقع شوشا کیسے پہنچیں جبکہ تمام راستوں پر آرمینیا کی افواج کا قبضہ اور پہرہ تھا۔ ابھی تک جو اطلاعات آئی ہیں، انکے مطابق آذری فوج کے خصوصی دستے پہاڑوں پر بیسیوں کلومیٹر پیدل چل کر بھاری اسلحہ اٹھائے انتہائی رازداری سے دشمن کی کمین گاہ کے اندر پہنچ گئے اور بڑی بے جگری سے لڑے۔ صرف ایک حملے میں پینتیس آذری فوجیوں نے ہلکے ہتھیاروں کی مدد سے ٹینکوں بشمول بھاری ہتھیاروں سے لیس دشمن فوج کی پوری کمپنی کو تباہ کردیا۔ انھوں نے صرف چند گھنٹوں میں ایسے کئی حملے کرکے دشمن پر ایسی ہیبت طاری کی کہ وہ اسلحہ چھوڑ کر شہر سے جان بچاکر بھاگ گئےجس کا اعتراف آرمینیائی فوجی کمانڈر نے بھی کیا۔ انھوں نے قدرے تاسف سے بتایا کہ ان کے فوجی لڑنے کیلئے تیار نہیں تھے اور ان میں نظم و ضبط کا فقدان تھا جسکی وجہ سے ان کیلئے میدان چھوڑنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔

تازہ ترین