• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم آزادکشمیر جماعتوں کو اعتماد میں لیں

فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
 وزیراعظم عمران خان کے مخالفین بھی ان کے لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ لینے والے ’’سحر‘‘ کے معترف ہیں اور یہ مخالفین تاحال اس جذباتی تعلق کو نہیں توڑ سکے ہیں اور پریشان ہیں۔ کرپشن کے خلاف ایک مضبوط آواز اور اس حوالہ سے اپنے موقف پر ڈٹے رہنا، بدعنوانی کے پہاڑوں سے ٹکرانے کی صفت اور سچی بات کرکے لوگوں کے دل موہ لینے سحر کے علاوہ چند وہ صفات ہیں جنکے سہارے پی ٹی آئی چل رہی ہے اور دن بدن بہترین کی طرف جارہی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر کم اکثریت کے باعث زیادہ قانون سازی بھی نہیں ہوسکی اور ناتجربہ کاری کی بنا پر چھوٹی پارلیمانی اور انتظامی مشکلات بھی ایسی بڑی مصیبت بن رہی ہیں کہ بعض اوقات حکومت کی مضبوطی پر خدشات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ گیارہ جماعتی حکومت مخالف اتحاد نصف درجن جلسے کرنے کے بعد تاحال بھی لوگوں کو ’’فیصلہ کن‘‘ احتجاج کیلئے تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ کامیاب لاہور جلسہ ہونے سے بھی حالات زیادہ نہیں بدلیں گے۔ اپوزیشن احتجاج کے درمیان میں گلگت بلتستان میں اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے تمام مرکزی جماعتوں نے حصہ لیا اور اپنے حصہ کی نشستیں لے کر دعائے خیری کہہ دی۔ اچھی جمہوری روایت قائم ہوئی کہ انتخابی دن کے اردگرد ہر طرح کے گھیرائو جلائو اور حکومتی اعلانات بھی سننے کو ملے اور جب آزاد امیدواروں کی شکل میں کئی لوگ ممبران اسمبلی منتخب ہوگئے تو ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کی اپنی شناخت ہے اور لوگ اس پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس لئے صوبہ بنانے پر احتیاط کی ضرورت ہے۔ تمام اپوزیشن حکومت پر کشمیر پر پسپائی اختیار کرنے کا الزام لگاتی ہے کہ بین الاقوامی دبائو یا داخلی وجوہات کی بنا پر موجودہ کنٹرول لائن کو ہی اس حکومت کے دورانیہ میں بھارت کے ساتھ حتمی بارڈر تسلیم کرلیا جائے گا اور ان حالیہ اسمبلی انتخابات میں ہر جماعت ریاست کے اس حصہ کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا اعلان کرچکی ہے۔ پاکستانی سیاسی قیادت کے ایسے موقف سے کشمیریوں کی بھاری اکثریت کو اختلاف ہے جس کا ثبوت آزاد کشمیر کے اندر تمام سیاسی جماعتوں (ماسوائے تحریک انصاف کے) کا کشمیر کے کسی فیصلہ سے پہلے جی بی کو صوبہ بنانے کے فیصلہ سے اختلاف ہے اور مقبوضہ کشمیر کے اندر حریت کانفرنس بھی ایسے پاکستانی فیصلہ سے اختلاف رکھتی ہے۔ صوبہ بنانے کا یہ منصوبہ گھوڑے کو لکڑ گاڑی کے آگے باندھنے کے مترادف ہے۔ روزنامہ جنگ لندن میں آئے دن چھپنے والے صورتحال پر اکثر تبصرے بھی یہی آواز اٹھا رہے ہیں کہ اس اہم قومی معاملہ پر جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔ ایک طرف آپ اہم بین الاقوامی اداروں سے ہم کلام ہورہے ہیں کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت ملنا چاہئے اور دوسری طرف حکومت ریاست کے ایک حصہ کو صوبہ بنانے کی باتیں کررہی ہے (بلکہ اعلانات کررہی ہے) تو ایسے حکومتی فیصلے جہاں ایک غیر واضح صورتحال سامنے لاتے ہیں۔ وہاں یہی فیصلے حکومتی کشمیر پالیسی کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جس سے اپوزیشن موقف کو تقویت ملتی ہے کہ عمران خان حکومت تقسیم کشمیر پر سمجھوتہ کرچکی ہے۔ بین الاقوامی سطح کے اس ایشو جو پاکستان کا اپرموسٹ قومی ایشو ہے پر وزیراعظم اور وزیرخارجہ کی خاموشی کئی پاکستانی اور کشمیری طبقات کیلئے پریشان کن ہے۔ آزاد کشمیر میں اسمبلی انتخابات بھی صرف چھ ماہ دور ہیں۔ وہاں اس طرح کنفیوژن کا ماحول پیدا کرنا نہ اچھی جمہوریت کی مثال ہوسکتی ہے اور نہ ہی ایسا ماحول وہ پیغام مہیا کرسکے گا جس کی حق خودارادیت سلوگن کو قوت دینے کیلئے ضرورت ہے۔ وزیر اعظم بننے سے قبل کی زندگی میں عمران خان نے سیکڑوں بار آئوٹ باکس فیصلے کئے جنکے نتیجہ میں معاملات زیادہ الجھنے سے رک گئے اور فاٹا، شمالی وزیرستان اور ایسے کئی دیگر ایشوز پر ان کے اصولی موقف زیادہ واضح ہوئے اور اس طرح عوام الناس کو شفافیت حاصل ہوئی مانا کہ حکومت میں ہوتے ہوئے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور کشمیر پر دیرینہ موقف سے ہٹ کر بات کرنا ضرور مشکل ہے۔ مگر کچھ نہ کہنا بھی آپشن نہیں ہے بہتر یہی رہے گا کہ حساس معاملات پر شفافیت کا دام ہاتھ سے نہ چھوٹ پائے۔ آزاد کشمیری سیاسی قیادت کی اس مرحلہ پر ’’صوبہ‘‘ مخالفت اصولی ہے، جس کا احترام کیا جانا چاہئے کیونکہ یو این قرار دادیں جو ہمارے کیس کی بنیاد ہیں ان میں بھی ایک سے زیادہ بار یہ مطالبہ دہرایا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان ریاست کے اپنے زیر کنٹرول علاقہ میں نہ ہی آبادی کے حوالہ سے کوئی ردوبدل کریں۔ صوبہ بنانے کی شکل میں ہم بھی ان قراردادوں کی توڑ پھوڑ کا حصہ بنیں گے۔ بھارت نے جو کرنا تھا اس نے ڈیڑھ سال قبل 5 اگست 2019ء کو کردیا ہے۔ زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے غالباً بھارت بھی یہی چاہتا ہے کہ پاکستان بھی اسی طرح کا فیصلہ کرے تاکہ موجودہ کنٹرول لائن بنیاد پر ہی معاملہ طے ہوجائے۔ دوسری طرف وہ آزاد کشمیر اور جی بی دونوں کو اپنے ملک کا حصہ کہتا ہے اور ریاست کشمیر سے جڑے اس ملک کے جارحانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے ہیں، یقیناً ایک دن آزاد کشمیر اور جی بی دونوں نے آئینی طور پر پاکستان کا حصہ بننا ہے کیونکہ دونوں کی اکثریت عوام ایسا چاہتی ہے۔ مگر کسی حتمی فیصلہ چاہے وہ حق خودارادیت کی بنیاد پر ہو یا بین الاقوامی دبائو کے تحت دونوں ملک کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں (اور لوگ ایسے فیصلہ کو قبول کرلیں) کو ایک خوش اسلوب انداز میں نمٹانے سے ہی خطہ پرامن رہ سکے گا۔ آزاد کشمیر انتخابت سے قبل وزیراعظم ریاستی سیاستدانوں کو اعتماد میں لینے کیلئے کشمیر پر مختلف آپشنز زیر بحث لانے کی خاطر سیمینار اور فوکس گروپ ڈسکشنز کا اہتمام کروائیں تاکہ انتخابات میں جانے سے قبل کشمیری ووٹر کو علم ہو کہ کشمیر حوالہ سے انتخابات کے بعد حالات کس جانب بڑھ سکتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرے۔ حکومت کو چاہے یا نہ چاہے ایسے سوالات کہ کیا آزاد کشمیر کو بھی انتخابات کے بعد صوبہ بنا دیا جائے گا اور کیا واقعی اسی لائن آف کنٹرول پر ہی دعا خیر کہہ کر مسئلہ کشمیر حل کردیا جائے گا، تحریک آزادی کو ایک بار پھر 1965ء کی طرح بھارتی سیکورٹی فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا، آنےوالے انتخابات میں مرکز بحث رہیں گے۔ کنٹرول لائن کے اس طرف کے پرامن ماحول کو قائم رکھنے کیلئے لازم ہے کہ ان اہم امور پر واضع آپشنز کشمیری قوم کے سامنے ہوں اور انہیں علم ہو کہ کون سی جماعت کہاں کھڑی ہے۔ ایسا ماحول مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
تازہ ترین