• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں نئی حکومت کو درپیش معاشی مسائل کے حوالے سے تبصرہ کیا تھا اورمعیشتِ کلاں کی پالیسی کے زمرے میں عالمی سطح پر رونما ہونیوالی تبدیلیوں کی روشنی میں ان مسائل کے حل کیلئے تجاویز دی تھیں۔ میں نے یہ بھی تحریر کیا تھا کہ پاکستان کے پاس بیل آوٴٹ پیکج کے حصول کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں ہے۔ پاکستان کو اس وقت بجٹ خسارے، قرض کی ادائیگیوں، ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈ کی عدم موجودگی اور شرح پیداوار میں ابتری جیسے مسائل کا سامنا ہے اور یورپی ممالک کو بھی اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ محض اصلاحاتی پروگرام یورپ میں کارگر ثابت نہیں ہوا، اس لئے ملک کی نئی حکومت کو چاہئے کہ وہ ترقیاتی ضروریات اور معاشی استحکام کے مابین اپنے اقدامات سے توازن کا راستہ اختیار کرے۔ معیشت ِکلاں کی پالیسیاں مستحکم بناکر اور ساختیاتی مسائل کا تدارک کرکے آئی ایم ایف کے اصلاحاتی ایجنڈے کے لئے راہ ہموار کی جائے تاکہ عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک سے مالی معاونت حاصل ہوسکے۔ وسیع تر معاشی اصلاحاتی ایجنڈے میں ٹیکس اصلاحات،حکومتی اخراجات میں اصلاحات، مالی لامرکزیت کو سنبھالنا، قومی اداروں کے ڈھانچے میں تبدیلیاں اور ان کی نجکاری کرنا، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنا، مرکزی بینک میں اصلاحات کا نفاذ کرنا، سرمایہ کاری کا ماحول ساز گار بنانا، شرح پیداوار کو مستحکم خطوط پر پروان چڑھانا شامل ہیں۔ دوست ممالک سے مالی امداد حاصل کرنے کیلئے ٹیکس اصلاحات ضروری ہیں جس کے بار ے میں وہ پہلے باور کرچکے ہیں۔
پاکستان کو تمام معاشی سرگرمیوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ہوگا جو کہ ٹیکس سے مستثنٰی ہوں یا کم ٹیکس دے رہے ہوں۔ مثال کے طور پر نئی حکوت کو زراعت کے شعبے پر براہ راست ٹیکس کا نفاذ کرنا ہوگا۔ بیوٹی پارلر ، ایک شہر سے دوسرے شہر چلنے والی بس سروس، ڈاکٹروں اور وکیلوں سمیت دیگر شعبوں پر یا تو ٹیکس نہیں ہے یا اس کی شرح بہت کم ہے، ایسے شعبوں اور افراد کو براہ راست ٹیکس کے دائرے میں لانا ہے۔ ودہولڈنگ ٹیکس وصول تو کئے جاتے ہیں لیکن قومی خزانے میں جمع نہیں کئے جاتے اس صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے،جس سے قومی خزانہ میں 3سال کے عرصے میں 250سے300ارب روپے شامل ہوسکیں گے۔ سیاسی مشکلات کے باعث نئی حکومت کو اصلاحی جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) بطور متبادل مالی اقدام کے طور پر نافذ کرنا ہوگا۔ نئے این ایف سی ایوارڈ کی خامیوں پر قابو پانا ٹیکس نظام میں اصلاحات کا لازمی جزو ہونا چاہئے۔ این ایف سی ایوارڈ کی موجودہ حالت میں کسی اقتصادی پالیسی پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتاہے، تین سال وفاقی بجٹ نئے سال کے آغاز والے مہینے جولائی کے بجائے جون میں پیش کیا جارہا ہے، اس سے خامیوں میں کمی آئی اور نہ کوئی فائدہ حاصل ہوگا۔ ایف بی آر سمیت صوبائی ٹیکس محکمے انتہا حد تک کمزور ہوچکے ہیں۔ نئی حکومت کو صوبائی حکومت کے وسائل کے استعمال میں بہتری لانے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ حکومتی اخراجات کے زمرے میں کئی اطراف سے بہتری کی گنجائش ہے جس میں غیرہدف شدہ سبسڈی پر احتیاط کا مظاہرہ کرنا، اشیائے خوردونوش، قومی اداروں اور توانائی کے شعبے میں دی جانے والی سبسڈی ملک کے دفاعی بجٹ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ تین سال کے عرصے میں توانائی کے شعبے پر سبسڈی بہتر انتظامیہ اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے ختم کردی جائے۔ مالی استحکام کیلئے نئی حکومت کے سامنے قومی اداروں کی نجکاری اہم معاملہ ہے، پہلے ان اداروں کی تنظیم نو جائے اور پھر انکی نجکاری کی جائے یا پھر اس امر کے بغیر ہی نجکاری کردی جائے، یہ فیصلہ آئندہ حکومت کوکرنا ہے۔ قومی اداروں کی نجکاری سے کئی سو ارب روپے کا سرمایہ بچے گا جوکہ ملک کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے میں اور صحت اور تعلیم کے شعبوں میں صرف کرنے کے کام آئے گا۔ کڑی مالی اصلاحات انسانیت دشمن اور دردناک ہوسکتی ہیں جو کہ نقصان دہ ہوں گی اور ان پر عملدرآمد مشکل ہوگا۔ اسی طرح زرعی پالیسی کے ضمن میں بھی مشترکہ قرض پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے اسکی سمت پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔ قرضوں کی رسائی نہ ہونا ایشیا پیسفک کے خطّے کے93فیصد ممالک کے کاروباری شعبے کی 5سرفہرست رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ قرضوں کی رسائی درمیانے درجے کے کاروبار اور زراعت کے شعبے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ شعبے بینکوں سے حاصل کردہ قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔ نئی حکومت کو اسٹیٹ بینک کو مستحکم بنانے کے لئے مالیاتی شعبے کے پیشہ ور افراد کو ڈائریکٹر بنانا ہوگا اور فنانس سیکریٹری کو بینک کے ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹانا ہوگا۔ شرح پیداوار میں اضافے کیلئے سرمایہ کاری کیلئے ساز گار ماحول بنانا ہوگا جس کے لئے ملکی انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے اور صحت اور تعلیم کے شعبوں کے لئے فنڈز اضافی فنڈ مختض کرنا ہوں گے۔ ٹیکس پالیسی میں اصلاحات اور حکومتی اور نجی شعبوں میں تسلسل کے ساتھ اشتراک سے بھی ملک میں سرمایہ کاری کی فضاء بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ معاشی دلدل سے ملک کو نکالنے کیلئے میری تجویزکردہ اصلاحات بروئے کار لانا ضروری ہیں۔ اب ان اصلاحات کا نفاذ اور کامیابی کادارومدار معاشی ماہرین اور بہترین سرکاری ملازمین پر مبنی ٹیم بنانے پر ہے۔ اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد اور اسکی نگرانی کیلئے بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس پر مبنی ٹیم کی ضرورت ہوگی۔
تازہ ترین