• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی سیاست کے بنتے تشویشناک منظر میں یہ امر قطعی واضح ہے کہ دنیا کے سب سے آباد براعظم ایشیا کا بڑا حصہ عالمی ریشہ دوانیوں سے جنگ و جدل میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ مغربی ایشیا (بشمول مکمل مشرقِ وسطیٰ) جنگ میں مبتلا ہے یا اُس پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ شام، عراق، یمن، لبنان اور لیبیا تک بیرونی مداخلت سے ہونے والی جنگوں اور خانہ جنگی میں تباہ و برباد ہو گئے۔ ایران اور خلیجی ممالک پر بھی کسی بڑی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ایسے ایسے متنازع سیاسی موضوعات ابھر رہے ہیں جن سے اس خطے کے ممالک کی برسوں سے جاری دوری اور مخاصمت عملی دشمنی، جنگوں اور خانہ جنگیوں میں تبدیلی کے خدشات و خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا پر نظر ڈالیں تو افغانستان گیارہ سالہ سوویت جارحیت و قبضے سے نجات پانے کے بعد بیرونی مداخلت سے پہلے تو خانہ جنگی میں مبتلا ہوا ،پھر ایک ایسی دہشت گردی مخالف عالمی جنگ کا میدان بن گیا جس کا افغانستان خود ملزم تھا نہ مجرم۔ اب وہاں کی آبادی امن کی شدید پیاسی ہے جس کے امکانات پیدا ہوئے ہیں تو ہمسایہ ایران ففتھ جنریشن وار کی زد میں آ گیا، ادھر بھارت ہمسایہ پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اپنے نئے دفاعی، علانیہ اور غیر علانیہ اتحادیوں کے ساتھ ففتھ جنریشن وار کی بھی سرتوڑ تیاریوں کا مرتکب ہو رہا ہے جبکہ نئی دہلی پر فاشسٹ مزاج کی ہیوی مینڈیٹ حکومت کے غیرآئینی اقدامات سے اس کی اپنی داخلی سلامتی بھی ڈگمگا گئی ہےاور اس نے ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کے مصداق لداخ میں اپنے اور چین کے درمیان متنازع علاقوں میں جنگی نوعیت کا انفراسٹرکچر ڈویلپ کر کے اپنے دعوے کا یا متنازع علاقے کا بڑا حصہ گنوا دیا۔

مودی کی بنیاد پرست حکومت خود بھارت، پوری دنیا خصوصاً جنوبی ایشیا کے لئے کتنی خطرناک ثابت ہو چکی اور مزید ہو رہی ہے؟ اس کو سب سے زیادہ پاکستانی جانتے ہیں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ نئی دہلی، عالمی و علاقائی سفات کاری اور انٹرنیشنل میڈیا کا بڑا مرکز ہونے کے باوجود، دنیا کو بھارتی خطرےسے آگاہ کرنے کے لئے بھارتی دارالحکومت کے سفارتی حلقوں اور عالمی میڈیا کی پیشہ ورانہ کاوشیں تشویشناک حد تک محدود یا بےاثر ہیں۔ واضح اس سے ہوتا ہے کہ مودی حکومت سے مقبوضہ کشمیر کے بپھرے کشمیری اور اپنی شمال مشرقی سرحدی ریاستیں بغیر ہیوی ملٹری ڈپلائے مینٹ کے تو سنبھل نہیں پا رہیں لیکن مودی حکومت نے سائوتھ چائنہ سی میں پیدا ہونے والی امریکہ، چین کشیدگی میں بھی فریق بن کر بلا جواز ٹانگ اڑا کر اپنے بڑے ہمسائے چین کو بھی شدید ناراض کر دیا جبکہ اس کے ساتھ اس کے گہرے باہمی تجارتی روابط ہیں جو متاثر ہونے سے بھارت میں یکدم بےروزگاری اور افراط زر میں اضافہ ہوا لیکن بھارت کی بنتی تشویشناک صورت پر عالمی توجہ مطلوب سے بہت کم ہے۔ لداخ کے متنازع علاقے کو بھی مقبوضہ کشمیر کی طرح غیرآئینی طور پر (اپنے تئیں) ہڑپ کرنے اور یہاں چین خصوصاً سی پیک کی سلامتی کے خلاف مشکوک انفراسٹرکچر ڈویلپ کرنے کے بعد اپنے اور چین کے متنازع علاقے کا بڑا علاقہ گنوا بیٹھا۔

امر واقع یہ ہے کہ ایک طرف تو بھارت سائوتھ چائنہ سی میں ابھرتے جنگی ماحول کو بڑھانے میں اپنا حصہ بنا چکا۔ دوسری جانب وہ افغانستان میں پاکستان مخالف اپنے دہشت گردی کے اب ثابت شدہ نیٹ ورک کو مکمل آپریٹو رکھنے کے ساتھ ساتھ عالمی حلیفوں اور غیرعلانیہ اور عملی جنگی حلیف اسرائیل کے ساتھ مل کر آزاد کشمیر پر بھی قبضہ کرنے کی جنگی منصوبہ بندی کا سوچ رہا ہے اور اس کے لئے پاکستان کی فروری 2019میں ٹیسٹ ہونے والی ایئر ڈیفنس صلاحیت کے بعد زمینی پہاڑی جنگ میں ہمارے مورال اور صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لئے مسلسل لائن آف کنٹرول پر جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ آگ کے اس کھیل میں مودی کی جنگجویانہ پالیسی اور عمل میں ڈھلتے جارحانہ ارادے پورے جنوبی ایشیا کے امن کو مزید بڑے خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔

اس سارے پس منظر میں ایشیا کے تین بڑے خطوں مشرقی ایشیا (بحوالہ سائوتھ چائنہ ایشو) جنوبی ایشیا اور جنگ زدہ مشرق وسطیٰ کے تشویشناک حالات نے، پورے اور سب سے آباد براعظم کی اقتصادی ترقی کی نکلتی واضح راہوں میں رکاوٹیں تو ڈالی ہیں اور ڈالی جا رہی ہیں ان میں سی پیک کا پُرامن اور اقتصادی خوشحالی کا عظیم منصوبہ سب سے زیادہ ثمرات کے واضح ہونے کے اعتبار سے واضح ہے جسے فری انٹرپرائز (آزاد تجارت) کے علمبردار امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نے چین کی بڑھتی غیرمعمولی عالمی تجارتی میدان کی کامیابیوں سے حسد اور فکر میں مبتلا ہو کر بغیر کسی جواز کے چین کے ساتھ ’’تجارتی جنگ‘‘ کا آغاز کیا حالانکہ چین کے بڑھتے عالمی تجارتی دائرے کی بینی فشری امریکہ سمیت دنیا بھر کی غریب آبادی بن چکی تھی۔ سی پیک چینی صدر شی پنگ کے عالمی اقتصادی فلسفے ون بیلٹ ون روڈ (بذریعہ مغربی یورپ جیسی سافٹ بارڈرز کی Connectivity) کا مظہر ہے جس کی بلا رکاوٹ تکمیل پہلے ہی مرحلے میں سب سے پہلے پورے جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا کے کم آمدنی والے ممالک اور مشرقی افریقہ تک کے لئے بے حد ثمر آور ہو گی۔ پاکستان، ایران اور افغانستان کی طرح سی پیک کا بڑا بینی فشری ہونا بھارت کے لئے بھی بالکل واضح تھا لیکن وہ کسی اور راہ پر نکل کر کروڑہا عوام سے بے پروا اورگمراہ ہو گیا۔ یہ اب چین، پاکستان، ایران و افغانستان کی بڑی ذمہ داری تھی کہ وہ سی پیک جیسے پرامن اور واضح ثمر آور منصوبے کے واضح امکانی فوائد سے ان ملکوں کو آگاہ کرتے جن کے کروڑوں پریشان حال اور جنگوں اور جنگی خطرات میں مبتلا عوام اس کے بینی فشری بنتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کی حکومتوں اور ان تک یہ سوال پہنچانا اور مطلوب فری کوئنسی پر پہنچانا چین اور پاکستان کے لئے سی پیک کی سلامتی اور ہر حال میں تکمیل کے عزم کا لازمہ بن گیا ہے۔ سی پیک کے حاسدوں اور دشمنوں کے پاس اس سادہ لیکن طاقتور سوال کا کوئی جواب نہیں کہ آخر سی پیک کی مخالفت کیوں؟ ان کی لاجوابی سی پیک کے پرامن، عوام دوست اور اقتصادی استحکام کے پہلوئوں کو جنگی تیاریوں کے مقابل بالکل واضح کر دے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین