• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں اور پاکستان میں امت مسلمہ کے ان جذبات میں شدت آتی جارہی ہے کہ وہ حکمرانوں کے انتخاب اور قانون کے اختیار کو صرف اور صرف اسلام کے دائرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ عہد جدید کی سیاست ہو یا ایک پائیدار حکومت کا قیام مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کی ضرورتوں کو اسلام کے سوا کوئی اور نظام یا تہذیب پورا نہیں کرسکتی ۔ موجودہ دور میں جہاں ایک طرف امریکہ اور مغرب اسلام کے خلاف نفرت کا طوفان کھڑا کرنے اور اسلام سے جنگ کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف عالم اسلام میں یہ فکر تمامیت میں ڈھل گئی ہے کہ یہ اسلام ہی ہے جو مسلمانوں کو سنبھال سکتا ہے۔اسلام مسلمانوں کے وجود کا مرکز اور ضامن بھی ہے اور جدوجہد کا محرک بھی۔ہلاکو خان کی خونریزیاں ہوں یا امریکہ کے کروز میزائل، ڈیزی کٹر اور کلسٹر بموں کی وحشیانہ بمباری، ہر چیز سے بڑھ کر یہ اسلام کی محکم عمارت ہے جو مسلمانوں کو پناہ دینے سے کبھی انکار نہیں کرتی۔
الیکشن 2013ء کے نتائج سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے حوالے سے یہ تبدیلی کی عوامی آرزوؤں کا آئینہ نہیں ہیں۔ الیکشن کے ہنگام یہ واضح تھا کہ اسلام تینوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے منشور میں ہے، نہ ان کی ساخت میں اور نہ تنظیم میں۔ الیکشن میں کامیابی کے لئے انہوں نے انتخابی اہلیت کے حامل ان افراد Electableپر انحصار کیا جنہیں انہوں نے اپنی ہی تردید کرکے اپنے گرد جمع کیا ہے لیکن شاندار اور مہذب مستقبل میں انہوں نے اسلام کو اپنی انتخابی مہم سے جلاوطن کئے رکھا۔ عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ متاثر کن اور ان کی طاقت کا ذریعہ ہے۔ وہ پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنانے کی بات بھی کرتے ہیں لیکن ان کے اراکین جماعت اور جدوجہد میں ان امور کا سراغ لگایا جائے جو اس منزل کے حصول کے لئے ضروری ہیں تو ان کا دامن بھی خالی نظر آتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد اسلام کے نفاذ کیلئے دینی سیاسی جماعتوں کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا سکتا لیکن اس جدوجہد میں ان جماعتوں سے یہ پہاڑجیسی غلطی ہوئی کہ انہوں نے اس سسٹم کے اندر رہتے ہوئے دین کے نفاذ کی کوششیں کیں۔اس طریق کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ جماعتیں اسلام کے نفاذ کیلئے کوئی بنیادی اور بلند کام نہیں کرسکیں، دوسرے نمک کی کان میں خود نمک بن جانے کے مصداق اسلام کے اس رقیب نظام کا حصہ بن گئیں۔ بنیادی اور بلند کام کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان جماعتوں کی عشروں پر پھیلی جدوجہد کا پھل وہ چند غیر موثر آئینی شقیں ہیں جنہیں یہ جماعتیں اسلام کی خدمت کے حوالے سے اپنا عظیم کارنامہ قراردیتی ہیں لیکن جو معاشرے کی تبدیلی میں کوئی کردار ادا کرسکیں اور نہ کسی کو متاثر کرسکیں۔آئین کا آرٹیکل62/اور63/ایسی ہی ایک کامیابی ہے پچھلے دنوں میڈیا اور عدلیہ نے جس کے بخیئے ادھیڑ کررکھ دیئے۔ متحدہ مجلس عمل کا قیام پاکستان میں دینی جماعتوں کی کامیابی کا ایک اہم سنگ میل سمجھا جاتا ہے جس کے بعد صوبہ سرحد حالیہ خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت تشکیل پائی لیکن اس عظیم کامیابی کے باوجود ایم ایم اے موجودہ سسٹم کو تو تبدیل نہ کر سکی لیکن خود اس کا حصہ بن گئی۔ وزیرخزانہ کی حیثیت سے ایم ایم اے کے صوبائی وزیر ہر مہینے اسٹیٹ بینک کو سود کی مد میں لاکھوں روپے ادا کرتے رہے حالانکہ اسلام میں سود کا لین دین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے مترادف ہے۔ 2002ء کے الیکشن میں ایم ایم اے کی بھاری کامیابی کے بعد محترم قاضی حسین احمد مرحوم اور مولانا فضل الرحمٰن نے پشاور میں مغربی سفارت کاروں کا ایک اجتماع منعقد کیااور انہیں یقین دلایا کہ ان ممالک کے مفادات کو خطے میں ایم ایم اے کی حکومت سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ حالانکہ اس وقت ان میں سے بیشتر ممالک امریکہ کی سربراہی میں افغانستان میں اندھادھند بمباری کرکے ہر چیز ملیا میٹ کررہے تھے۔جس نے لاکھوں افغان مسلمانوں کو شہید، معذور، اپاہج، لاچار اور بے کس کرکے رکھ دیا تھا۔ یہی صورتحال نیٹو سپلائی کے معاملے میں رہی۔ نیٹو سپلائی روکنا تو درکنار ایم ایم اے کی حکومت نے اس معاملے میں ہونٹ کھولنے کی جرأت بھی نہیں کی۔یہاں مقصود دینی سیاسی جماعتوں کی خامیاں گنوانا نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ اس سسٹم کا حصہ بننے کے بعد اسلام کے نفاذ کیلئے کوئی قابل ذکر کام انجام نہیں دیا جاسکتا، الٹا اس سسٹم کا حصہ بن کر آپ اس سسٹم کے ممدومعاون بن جاتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے امریکہ اور مغرب کے فوجی، معاشی اور سیاسی ظلم و ستم نے دنیا کو مسلمانوں کیلئے جہنم بنا دیا ہے۔ دنیا کے گوشے گوشے میں ایک خونی غسل ہے مسلمان جس کا ہدف ہیں۔ فکری اور نظری غلبہ اور میڈیاوار اس کے علاوہ ہے۔ اس کے باجود دنیائے اسلام نے امریکہ کے غلبے اور تمدن کو قبول نہیں کیالیکن خیال رہے کہ اس کی وجہ امریکہ اور مغرب مخالف ردعمل نہیں بلکہ اس عرصہ میں دنیائے اسلام میں فکری اور نظری مباحث میں بہت ترقی ہوئی ہے جس کے بعد آج کے مسلمان کو یہ قطعی یقین ہے کہ اسلام زندگی کے ہر معاملے میں مغرب سے کہیں اعلیٰ اور برتر فکر اورنظام کا حامل ہے۔برٹش کونسل کا سروے ہو یا پیو ریسرچ سینٹر کا دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے عوام کی ایک ہی آواز ہے کہ وہ خود پر مسلط کردہ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام سے آزاد ہوکر مستقبل اسلام کے شرعی نظام کے تابع گزارنا چاہتے ہیں۔
تازہ ترین