• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئینی مدت کی تکمیل کرنے والی ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو انتقال اقتدار کا تجربہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے ۔ اس کامیابی پر پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔ اس سے پہلے تمام منتخب حکومتیں غیرجمہوری طریقوں سے رخصت کی جاتی رہی ہیں۔ یہ بات قابل اطمینان ہے کہ پچھلے 5 سال میں پارلیمینٹ میں اہم آئینی ترامیم ، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی اور قومی شعور کی سطح کے بلند ہو جانے کی وجہ سے اب غیرجمہوری طریقوں سے کسی منتخب حکومت کا خاتمہ ممکن نہیں رہا۔ الیکشن کمیشن کی آزادی اور خودمختاری بھی پچھلی پارلیمینٹ کی قانون سازی کا نتیجہ ہے۔اس آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں ایسے شفاف انتخابات کی توقع کی جارہی تھی جس پر کسی کی جانب سے انگلی اٹھانا ممکن نہ ہو لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ اگر ایک طرف بلوچستان میں طلال بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی نے دھاندلی کی بنا پر انتخابی عمل سے دستبرداری اختیار کی اور سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ جو انتخابی نتائج ان کے حق میں ہیں انہیں روک کر تبدیل کیا جارہا ہے اور اس عمل میں وہی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں جو ماضی میں ایسے اقدامات کیلئے بدنام رہی ہیں تو دوسری طرف کراچی اور حیدرآباد میں جیتنے اور ہارنے والی سب جماعتیں انتخابی دھاندلیوں کا گلہ کررہی ہیں۔ ایم کیوایم نے قومی اسمبلی کے حلقہ 248 میں انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا اور تحریک انصاف دھاندلیوں پر احتجاج کرتے ہوئے کم از کم حلقہ250 میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے تو جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، مہاجر قومی موومنٹ، سنی اتحاد کونسل ، عوامی تحریک اور جمعیت وحدت المسلمین نے دونوں شہروں میں انتخابی عمل میں کھلی دھاندلی کی شکایت کرتے ہوئے 11 مئی کو پولنگ کے دوران ہی انتخابی عمل سے باہر آجانے کا فیصلہ کیا۔ جہاں تک ثبوت و شواہد کا تعلق ہے تو مختلف ٹی وی چینلوں پر فوٹیج کی صورت میں اس کے کچھ بظاہر ناقابل تردید ثبوت منظر عام پر آچکے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ سوشل میڈیا پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ان شواہد میں ایک شخص کے بار بار ووٹ ڈالنے، بیلٹ پیپروں کے انباروں پر ٹھپہ لگائے جانے اور اتفاقاً کہیں چھاپہ پڑنے کیوجہ سے مہرشدہ بیلٹ پیپر پولنگ اسٹیشن سے باہر پھینک دیئے جانے کی بنا پر ہوا میں اڑتے دکھائی دینے کے مناظر شامل ہیں۔ ان سے کسی خاص گروہ کا اس دھاندلی میں ملوث ہونا ثابت ہوتا ہو یا نہیں ، یہ بہرحال ثابت ہوتا ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر بھرپور دھاندلی ہوئی ہے۔ کراچی میں اکثر انتخابی حلقوں میں پولنگ کئی کئی گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوئی اور اس کا سبب خود چیف الیکشن کمشنر نے یہ بتایا کہ پولنگ کا سامان عملے سے چھین لیا گیا تھا جس کیوجہ سے مزید سامان کا بندوبست کرنا پڑا ۔ محترم فخرالدین جی ابراہیم نے 11 مئی کی سہ پہر خود تسلیم کیا کہ الیکشن کمیشن کراچی میں شفاف انتخابات کرانے میں ناکام رہا ہے۔ ان کا یہ بیان ٹی وی چینلوں سے نشر ہوا۔ بلوچستان، کراچی اور حیدرآباد میں انتخابی عمل میں تاخیر کی شکایات اور دھاندلی کی خبریں پولنگ کا وقت شروع ہونے کے بعد ہی سے رپورٹر صاحبان، موبائل فون، ایس ایم ایس اور ای میل وغیرہ کے ذریعے ٹی وی چینلوں اور اخبارات کو موصول ہونا شروع ہوگئی تھیں جبکہ پنجاب سے گیارہ مئی کو ایسی شکایات بالعموم سامنے نہیں آئیں تاہم انتخابات کے اگلے دن 12 مئی کی سہ پہر کو تحریک انصاف کی قیادت نے پنجاب میں بھی انتخابی دھاندلی کی شکایت کی اور اس پر احتجاج شروع کردیا۔ انتخابی دھاندلیوں کی شکایات کا یہ سلسلہ آزاد اور خودمختار ہونے کی شہرت رکھنے والے الیکشن کمیشن کیلئے ایک ایسا چیلنج ہے جس سے درست طور پر نمٹے بغیر انتخابی عمل داغدار رہے گا اور الیکشن کمیشن کا اعتبار پوری طرح قائم نہیں ہوسکے گا۔اگر دھاندلی ہوئی ہے تو الیکٹرانک آلات کے استعمال کی وجہ سے اب اسکا پتہ لگانا بآسانی اور یقینی طور پر ممکن ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس ایک استعمال شدہ بیلٹ پیپر محفوظ ہے۔ لازمی ہے کہ ہر بیلٹ کے کاوٴنٹر فائل پر اس شخص کے انگوٹھے کا نشان ہو جس نے اسے استعمال کیا ہے۔ جن پولنگ بوتھوں پر شکایت کی جارہی ہے کہ مہر شدہ بیلٹ پیپر ہزاروں کی تعداد میں بیلٹ بکسوں میں انڈیل دیئے گئے یا ایک ایک شخص نے کسی روک ٹوک کے بغیر درجنوں ووٹ بھگتائے، وہاں نادرا کی جانب سے فراہم کردہ قومی شناختی کارڈوں کے الیکٹرانک ریکارڈ پر موجود انگوٹھے کے نشان اور بیلٹ پیپر کے کاوٴنٹر فائل پر لگائے گئے انگوٹھے کے نشان کی محض رینڈم چیکنگ سے ہی پتہ چل سکتا ہے کہ ووٹ اصل ووٹر نے ڈالا یا یہ کام جعلی طور پر انجام دیا گیا۔ جن حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوجائے، ظاہر ہے کہ جمہوری اصولوں کے علمبردار کسی بھی شخص یا تنظیم کی جانب سے وہاں فراڈ انتخابی نتائج پر اصرار کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔حقیقی مینڈیٹ کو نہ ماننے پر غم و غصہ اور احتجاج اور بات ہے جبکہ جعلی مینڈیٹ پر اصرار بالکل دوسری بات ہے اور کوئی بھی باوقار جمہوری جماعت ایسا نہیں کر سکتی۔ تمام جمہوری جماعتوں کے لئے عزت کا راستہ یہی ہے کہ ان کا مینڈیٹ تمام شکوک و شبہات سے بالاتر ہو۔ اسلئے سب کو انتخابی دھاندلیوں کی شکایات کی فوری تحقیق اور ثابت ہونے کی صورت میں انکے جلد از جلد ازالے کے اقدامات پر متفق ہونا چاہئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان معاملات کو ماضی کی طرح انتخابی عذر داریوں کے طول طویل پراسس میں ڈال دیا گیا تو لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ تاخیری حربے استعمال کرکے معاملے کو ٹھنڈا کیا جارہا ہے ۔ اسلئے انتخابی دھاندلیوں اور بے قاعدگیوں کی تمام شکایات پر خواہ وہ کہیں کے بھی ہوں پر فوری کارروائی کرکے انتخابات کی شفافیت کو محفوظ کرنے کیلئے ہر ضروری اقدام کرنا چاہئے۔ جن حلقوں یا بوتھوں پر دوبارہ پولنگ کی ضرورت ثابت ہو ، وہاں آٹھ دس دن میں یعنی نئی حکومت کی تشکیل سے پہلے ہی دوبارہ پولنگ کرالی جانی چاہئے اور اس کیلئے پوری طرح پُرامن، محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ جمہوری عمل پوری طرح بے داغ رہے ، دھاندلی کی شکایات مختلف عوامی اور سیاسی حلقوں میں جذبات کی تلخی کا سبب نہ بنی رہیں اور پوری قوم حق تلفی اور محرومی کے ہر احساس سے آزاد ہوکر نئے دور میں جمہوریت اور تعمیرو ترقی کی شاہراہ پر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔
تازہ ترین