سال 2022 پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بہت ہنگامہ خیز اور کئی حوالوں سے بہت یادگار سال رہا۔ اس برس سیاست کے میدان میں بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملا ساتھ ہی اکھاڑ پچھاڑ کے پرانے طورطریقے بھی گاہے بہ گاہے اپنی چھب دکھلاتے رہے۔سال کاآغازحزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان 2021 سے جاری سیاسی کش مکش سے ہوا جو پورا سال جاری رہی اور تادمِ تحریر جاری ہے۔ البتہ اس دوران یہ ہوا کہ سال کے آغاز میں جو سیاسی جماعت (پی ٹی آئی) اور دیگر سیاسی لوگ حزبِ اقتدار میں تھے وہ حزبِ اختلاف میں آگئے اور جو سیاسی جماعتیں(پی پی پی، مسلم لیگ نون ،جے یو آئی، وغیرہ)حزبِ اختلاف میں تھیں وہ اقتدار میں آگئیں۔
لیکن اس ضمن میں دل چسپ صورت حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی تادمِ تحریر مرکز اور دو صوبوں میں حزبِ اختلاف میں ہے اور پنجاب، خیبرپختون خوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں حزبِ اقتدار میں ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ نون کے پاس کوئی صوبائی حکومت نہیں، مگر مرکز میں اس کا وزیر اعظم ہے اور وفاقی کابینہ میں اس کے پاس اہم وزارتیں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی مرکز ی حکومت میں شامل ہے، وفاقی کابینہ میں چند وزارتیں اس کے حصّے میں آئی ہیں جن میں سب سے اہم وزارتِ خارجہ ہےاور سندھ میں اس کی حکومت ہے۔پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے پاس صوبوں میں کچھ خاص نہیں،البتہ وفاقی کابینہ میں انہیں نمائندگی حاصل ہے۔
اس ہنگامہ خیزسال میں بہت سے سیاسی تنازعات نے جنم لیا،بہت سے سیاسی واقعات رونما ہوئےاور سیاسی حوالوں سے بعض افسوس ناک عمل بھی ہوئے،لیکن اگر عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری کو سال کی سب سے بڑی سیاسی خبر کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔اس برس اہم سیاسی خبریں کچھ اس طرح سامنے آتی رہیں:
گورنر پنجاب چوہدری محمد سروربرطرف،عمر سرفراز چیمہ نئے گورنربنے۔پی پی پی نےپی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا آغاز کردیا۔عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوگئی۔ پنجاب کے وزیرِ اعلی عثمان بزدار نے اپنےعہدے سے استعفی دے دیا۔ سیاسی جوتوڑ اور بیان بازی عروج پر پہنچی۔ عمران خان نے امریکی سازش کا بیانیہ اپنالیا، ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ تحریک عدم اعتماد کوقومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے آئینی طورپر غلط قرار دے کر مسترد کر دیا۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا اور عدالت کے حکم پر تحریک دوبارہ پیش کی گئی اور عمران خان قائدِ ایوان کے منصب سے ہٹادیے گئے۔
پی ٹی آئی کے اراکین نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔شہباز شریف وزیرِ اعظم بن گئے۔ پنجاب میں نیا گورنر تعینات ہوا اور وہاں جوڑ توڑ کے نتیجے میں حمزہ شہباز وزیرِ اعلی منتخب ہوگئے ،لیکن چند ہی یوم میں عدالت نے ان کے انتخاب کے عمل میں فلور کراسنگ کی آئینی شق کی خلاف ورزی پر ان کا انتخاب کالعدم قرار دے دیا۔ اس دوران ق لیگ میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی،چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی کے سیاسی راستے جدا ہوگئے۔
چوہدری پرویز الہی پی ٹی آئی کی مدد سے وزیر اعلی پنجاب منتخب ہونے میں کام یاب ہوگئے۔ عمران خان نے ملک کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلسے کرنا شروع کردیے، امریکی سازش کا کھلے عام ذکر کرنے لگے، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کا رویّہ ،لہجہ اور الفاظ وقت کے ساتھ شدید تر ہوتے گئے۔ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف آیا۔توشہ خانہ کیس کے فیصلے میں عمران خان پر الزامات کو درست تسلیم کیا گیا اور انہیں پانچ برس کے لیے نااہل قرار دے دیاگیا۔ دونوں فیصلے عدالتوں میں چیلنج کردیے گئے۔
عمران خان نئے انتخابات کی تاریخ جلد حاصل کرنے کے لیے وفاقی حکومت پر دباو بڑھانے لگے،لانگ مارچ شروع کیا۔ان کے خفیہ مذاکرات کی بھی خبریں آتی رہیں۔ وقتا فوقتا حزبِ اختلاف اور جزبِ اقتدار کے اہم لوگوں کی خفیہ آڈیو ریکارڈنگز منظرِ عام پر آتی رہیں۔ الیکشن کمیشن کے خلاف عمران خان کے الزامات میں شدّت آتی گئی۔ فوج کے خلاف عمران خان کاموقف اتنا سخت ہوا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کو پریس کانفرنس کرکے الزامات کا جواب دینا پڑا۔ عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران فیصل ووڈانے پی ٹی آئی کے موقف کے خلاف آواز بلند کی۔
فوج کے سربراہ کی تقرری کو پی ٹی آئی نے عوامی جلسوں کا موضوع بناکر اسے سیاسی تنازعے کی شکل دینے کی کوشش کی۔ اسی دوران کینیا سے یہ بہت دل خراش خبر آئی کہ وہاں پاکستان کے ممتاز صحافی ،ارشد شریف قتل ہوگئے ہیں۔ اس مسئلے کو عمران خان نے اپنے بیانات کے ذریعے سیاسی رنگ دینے کی بھرپور کوشش کی۔ لانگ مارچ کے دوران عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں وہ اور پی ٹی آئی کے چند دیگر راہ نمازخمی ہوگئے۔اس واقعے کی ایف آئی آر عمران خان کی جانب سے نام زد کیے گئے تین افراد کے خلاف درج کیے جانےکے اصرار اور نہ کیے جانےکے معاملے پر بھی بہت کچھ ہوا۔
لانگ مارچ میں اس واقعے کے بعد کچھ وقفہ آیا ،لیکن پھر یہ سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے جڑ گیا۔ لانگ مارچ کے شرکا کو اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت دینے یا نہ دینے کے سوال پر بہت کشیدگی ہوئی۔اسی دوران فوج کے نئے سربراہ کا تقرر ہوگیا۔ لانگ مارچ اسلام آباد کے دروازے پر پہنچ کر پُر امن انداز میں اختتام پذیر ہوگیا ، لیکن اس موقعے پر عمران خان نے اپنے خطاب کے ذریعے ایک نئی سیاسی ہلچل پیداکردی۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر جلد انتخابات کی تاریخ نہیں دی جاتی تو وہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیز تحلیل کردیں گے۔
یہاں تک پہنچتےپہنچتے عمران خان امریکی سازش کا بیانیہ بھلاچکے تھے،ان کی توپوں کا رخ جنرل باجوہ اور حسّاس اداروں کی جانب ہوچکا تھا اورارشد شریف کے قتل کا معاملہ ان کی گفتگو کا حصہ نہیں رہا تھا۔ تاہم اس سفر کے دوران ان کی سیاسی مقبولیت میں پہلے بہت اضافہ ہوا،لیکن وقتا فوقتا پیش آنے والے بعض واقعات کی وجہ سے اس میں کچھ کمی بھی آتی نظر آئی،جس کا ثبوت ان کے لانگ مارچ میں پہلے کی نسبت شرکا کی تعداد تھی۔
اس سیاسی کھینچا تانی کے ماحول میں پی ٹی آئی نے پنجاب میں صوبائی نشستوں پر ہونے والے تقریبا تمام ضمنی انتخابات میں کام یابی حاصل کی۔اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے اراکین کی جانب سے خالی کی گئیں قومی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں عمران خان خود امیدوار بنے اور چھ نشستوں پر کام یابی حاصل کرکے ملک کی انتخابی تاریخ میں نیا ریکارڈ قایم کیا۔
سال بھر سیاسی اکھاڑے میں جاری رہنے والے دنگل کے دوران بعض ایسے واقعات بھی پیش آئے جو نسبتا کم اہمیت کے حامل تھے لیکن ان کی گونج پورے ملک میں سنائی دی،مثلا پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے شہباز گل اور سینیٹر اعظم سواتی کی گرفتاری اور ان پر مبیّنہ تشدد ، عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمات ،توشہ خانے سے گھڑی کی خریداری اور اس کی فروخت کے ضمن میں مبیّنہ بے قاعدگیوں کا انکشاف،اس پر پی ٹی آئی کی جانب سے صفائیاں پیش کرنے کی کوشش، اس بارے میں تفصیلات بتانے اور ثبوت پیش کرنے پر عمران خان کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار اور جیو نیوز اور شاہ زیب خان زادہ کے خلاف لندن اور دبئی میں مقدمات کرنے کا اعلان۔ برطانیہ کے صفِ اول کے معتبر اخبارفنانشل ٹائمز کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کو برطانیہ سے ممنوعہ فنڈنگ کی وصولی کے انکشاف نے پاکستان کی سیاست میں طوفان برپاکیا، عمران خان نے اس کے خلاف بھی عدالت جانے کا اعلان کیا تھا۔
ابھی یہ سیاسی دھینگا مشتی جاری تھی کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فیصل ووڈا نااہلی کیس کا فیصلہ آگیا اور نون لیگ والوں کو نواز شریف کی سزا ختم کیے جانے اور ان کی واپسی کی راہیں کھلتی نظر آنے لگیں۔
سیاسی برف پگھلنے سے شروع ہونے والی کہانی
فروری کے پہلے ہفتے میں حزبِ اختلاف کی دو بڑی جماعتوں، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اچانک برف پگھلنا اتفاق نہیں تھا۔ لاہور میں ہونے والی شریف فیملی اور زرداری خاندان کی ملاقات بہرحال اپنی جگہ نہایت اہمیت کی حامل سمجھی جا رہی تھی۔ اس ملاقات کے بعدذرایع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کا معاملہ چند دن میں ن لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی سے مشاورت کے بعد پی ڈی ایم میں لے کر جائیں گے۔ اس موقعے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام کا اعتماد اٹھ چکا، اب پارلیمان کا اعتماد بھی اٹھنا چاہیے۔
بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت ستّائیس فروری کو کراچی سے حکومت مخالف عوامی مارچ کا آغاز کیا گیا تھا۔ بلاول بھٹو کےپارٹی قیادت سنبھالنے کے بعد یہ ان کی پہلی سیاسی مہم تھی۔ اس سے قبل وہ جلسے جلوسوں سے خطاب کرتے رہے ،لیکن ملکی سطح پر ان کا یہ پہلا مارچ تھاجس میں ان کے ساتھ ان کی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو زرداری بھی شریک تھیں۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں عوامی مارچ صوبہ پنجاب پہنچ چکا تھا۔ادہر پاکستان پیپلز پارٹی کے عوامی مارچ کے اعلان کے بعد تحریک انصاف نے حقوق سندھ مارچ کا اعلان کیاتھا، جس کا آغاز گھوٹکی سے کیا گیا۔ اس مارچ کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیر علی زیدی کر رہے تھے۔
مارچ کا سرپرائز
مارچ کے مہینے میں سیاسی درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھا۔اس ماہ کے آغاز سے ہی دونوں جانب سے سیاسی لوگوں، قایدین اوراسمبلی کے اراکین سے ملاقاتوں اور سیاسی جوڑ توڑ کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا۔اسی دوران آٹھ مارچ کوپیپلز پارٹی کا عوامی لانگ مارچ ڈی چوک،اسلام آباد پہنچ کر اختتام پذیر ہوگیا، منتظمین نے مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا، جس کے بعد شرکاء گھروں کو روانہ ہو گئے تھے۔ اسی روزحزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نےقومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد اوراسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرائی۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کےتحت متحد حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم پر خراب حکم رانی اور معیشت کی بدانتظامی کا الزام لگایا تھا۔
حکومت نے جواب میں حزب اختلاف کی جماعتوں پر بین الاقوامی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا تھا۔ اس سے قبل چھ مارچ کواس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے صوبہ پنجاب کے علاقے میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے حزبِ اختلاف سے سوال کیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت میں ، میں ان کے ساتھ جو کروں گا کیا وہ اس کے لیے تیار ہیں؟
پریڈ گراؤنڈ، اسلام آباد میں مارچ 2022کی ستّائیس تاریخ کو پی ٹی آئی کے کارکنان کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا تاکہ تحریک عدم اعتماد کے اُبھار کو ایک بڑے اجتماع کے تاثر سے کم زور کیا جا سکے۔ عمران خان نے اپنی طویل تقریر کے دوران جیب سے ایک خط نکالا اور اپنے چاہنے والوں کو مخاطب کر کے کہا 'بیرون ملک سے یہ خط لکھا گیا ہے اور اس میں دھمکی دی گئی ہے، خط کے ذریعے حکومت گرانے کی سازش کی گئی ہے۔ یہ سنتے ہی کارکنان کی جانب سے نعروں کی صورت میں ہم دردی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پھرجب نواپریل کی رات کو حکومت بچانے کی آخری کوششوں کے طورپر خط کا بار بار ذکر ہوتاہے، اُدہر پارلیمان میں گھنٹیاں بج اُٹھتی ہیں اورگنتی172سے آگے بڑھ جاتی ہے تو پی ٹی آئی کے کارکنان کا سازشی خط پرایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔
تاہم سابق وزیرِ اعظم اپنےستّائیس مارچ کے جلسے میں سیاسی نظام میں خط کے ذریعے مداخلت کس نے کی؟ یہ نہیں بتاتے۔ بعد ازاں اِکتّیس مارچ کی شام قوم سے خطاب کے دوران جب وہ اپنے خلاف بیرون ملک تیار کی گئی سازش کا ذکر کرتے ہیں تو ساتھ ہی امریکا کا نام لے لیتے ہیں۔یاد رہے کہ مارچ کے مہینے کے پہلے ہی ہفتے میں علیم خان کا گروپ جہاں گیر ترین گروپ میں شامل ہوگیا تھا اور دونوں گروپس نےاس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب، عثمان بزدار سے اپنے راستے باضابطہ الگ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
یکم اپریل کو پنجاب کے اس وقت کے گورنر چوہدری سرور نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کر لیاا ورنئےقایدِ ایوان کے انتخاب کے لیے دو اپریل کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا تھا۔ اس سے قبل حزبِ اختلاف نے سردار عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی، لیکن اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو مستعفی ہونےکاکہہ دیا تھا اور وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے چوہدری پرویز الہی کو نام زد کر دیا تھا۔
دو اپریل کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے قوم سےیہ راہ راست خطاب کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دیا اور کہا کہ ووٹنگ میں جو بھی فیصلہ آئے گا میں اس کے بعد اور زیادہ تگڑا ہو کر سامنے آؤں گا۔ انہوں نے بیرون ملک سے آنے والے مبیّنہ دھمکی آمیز مراسلے پر بھی بات کی تھی۔ اس خطاب کے اگلے روز ،یعنی تین اپریل کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل پانچ کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔
لیکن سات اپریل کو قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور عدم اعتماد کا ووٹ روکنے کی کوشش کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے مسترد کر دیااور حکم دیا کہ نو اپریل کو صبح ساڑھے دس بجے قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہونے پرتحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ کرائی جائے۔ لیکن اس روز بھی قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتمادپر ووٹنگ نہیں کرائی گئی اور آدھی رات سے چند منٹ پہلے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا۔پھرآدھی رات سےچند لمحے قبل، ایاز صادق نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی اور اسمبلی کا اجلاس دس اپریل تک کےلیے ملتوی کردیا گیا ۔ اگلے روز قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد 174ووٹوں سے منظورکرلی گئ۔ یوں عمران خان ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے۔
نئے قایدِ ایوان کے انتخاب کے لیے اگلے روز قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔سابق حکم راں جماعت ،پی ٹی آئی نے ابتدائی طور پر سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس عہدے کے لیے نام زد کیا تھا۔ تاہم، ووٹنگ سے چند لمحے قبل، پارٹی نے اسمبلی سے بڑے پیمانے پر واک آؤٹ کیا اورشاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا کہ یہ درآمد شدہ حکومت ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کا بھی اعلان کیا۔بعد ازاں شہباز شریف، بلا مقابلہ قایدِِ ایوان منتخب ہوئے اورانہوں نے وزارتِ عظمی کا حلف اٹھایا۔
عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کا عمل ملک کی عدالتِ عظمیٰ کی ہدایات کے بعد ہی مکمل ہو سکا ۔ یاد رہے کہ تین اپریل کو قومی اسمبلی کے اس وقت کےڈپٹی اسپیکرکے اقدام کے بعد صدرِ پاکستان عارف علوی نے وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ بعد میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کا اقدام آئین سے متصادم قرار دے کر اسمبلی بحال کرنے اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کےلیے قومی اسمبلی کا اجلاس نو اپریل کو طلب کرنے کا فیصلہ سُنایا تھا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں ملک میں یہ بحث شروع ہوئی کہ کیا پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت وہ پہلی سول حکومت تھی جس کے اقدامات کو آئین شکنی کے زمرے میں یاد رکھا جائے گا؟
سازش کا بیانیہ اور اہم فیصلے
عمران خان کی حکومت ختم ہو جاتی ہے، لیکن اس عرصے میں وہ مبینہ دھمکی آمیز خط اور غیر ملکی سازش کابیانیہ اپنے کارکنوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم کے مذکورہ بیانیے کے ضمن میں نئی بحث کا آغاز اُس وقت ہوتا ہے جب چودہ اپریل کو ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس کر کے یہ کہتے ہیں 'کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے۔
دو اگست کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے اپنے فیصلے میں کہا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف پر بیرونِ ملک سے ممنوعہ فنڈزلینےکے الزامات ثابت ہوگئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے پی ٹی آئی کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا کہ کیوں نہ یہ فنڈز ضبط کر لیے جائیں اور ساتھ ہی یہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجنے کا اعلان کیا۔ تحریکِ انصاف نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ۔ممنوعہ فنڈنگ کا یہ کیس 2014 سے الیکشن کمیشن میں زیر سماعت تھا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ فیصلہ اِکّیس جون کو محفوظ کیا گیا تھا۔
اسی اثنا میں برطانیہ کے صفِ اول کے معتبر اخبارات میں شمار ہونے والے فنانشل ٹائمزنے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں پی ٹی آئی کو برطانیہ سے ممنوعہ فنڈنگ کی وصولی کے انکشافات کیےجس سےپاکستان کی سیاست میں نیا طوفان برپاہوا۔ برطانوی اخبار نے انکشاف کیا تھاکہ 2013ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا بڑا حصہ غیر ملکی ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی نے فراہم کیا تھا اور یہ رقم فلاحی مقاصد کے لیے مختلف ذرایع سے غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی گئی تھی جو عارف نقوی کے ابراج گروپ نے پی ٹی آئی کو منتقل کی۔
اُدہرالیکشن کمیشن اِکّیس اکتوبر کو توشہ خانہ کیس میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کو نااہل قرار دے دیتا ہے ۔ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے کہا کہ عمران خان کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان کی قومی اسمبلی کی نشست خالی قرار دی جاتی ہے۔ بعد میں عمران خان نے یہ فیصلہ عدالت میں چیلنج کردیا تھا۔
اہم پیش رفت
اکتوبر کی چار تاریخ کو پی ٹی آئی کے راہ نما فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ اس دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ تاحیات نااہلی کا آرٹیکل 62 ون ایف ڈریکونین(ظالمانہ) قانون ہے۔ موجودہ کیس کو محتاط ہو کر سنیں گے۔ان ریمارکس کےبعدبعض سیاسی مبصرین اور ماہرینِ آئین و قانون کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا کہ نوازشریف کے لیے قانونی رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں اور اب یہ فیصلہ نواز شریف کو کرنا ہے کہ وطن کب واپس آنا ہے۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر سیاسی امور ایاز صادق نے نواز شریف کی جنوری میں وطن واپسی کی خبر دی ۔ان کا کہنا تھاکہ پارٹی آرگنائز کرنے اور امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا کام نواز شریف ہی کریں گے۔
تحریک انصاف کی حکومت گرائے جانے کی مبینہ بیرونی سازش کو فوج کی جانب سے اکتوبر کے آخری ہفتے میں کھوکھلی اور من گھڑت کہانی قرار دیے جانے کے بعد پاکستان کی سیاست میں بیانیے کی جنگ حتمی مراحل میں داخل ہوگئی۔ ستّائیس اکتوبر کو غیر معمولی طور پر آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل ندیم انجم نے فوج کے ترجمان لیفٹینینٹ جنرل بابر افتخار کےساتھ ایک پریس کانفرنس کی اورسائفر کے معاملے، اس پر تحریک انصاف کی جانب سے’’گم راہ کن‘‘ سیاسی بیانیہ ترتیب دینے اور ارشد شریف کی ہلاکت سے متعلق واقعات پر تفصیلی گفتگو کی۔
آزادی مارچ کا آغاز و اختتام
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نےاٹھائیس اکتوبر کو لاہور کے لبرٹی چوک سے حقیقی آزادی کی تحریک کے سفر کا آغاز کیا،ان کی منزل اسلام آباد تھی۔لیکن ٹھیک چھ روز بعد حقیقی آزادی مارچ کو رکاوٹ کا سامناکرنا پڑا جب پنجاب کے شہر وزیرآباد کے قریب تین نومبر کو عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا اور دیگر افراد کے ساتھ عمران خان بھی زخمی ہوگئے۔اس واقعے کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اور عمران خان نے خود پر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وزیراعظم شہباز شریف اور حساس ادارے کے ایک افسر پر عاید کیااور ان کے استعفوں کا مطالبہ کیا۔
اس کے جواب میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا:’’ چیئرمین تحریک انصاف، عمران خان کے ایک اعلی فوجی افسر اور ادارے کے خلاف عاید کردہ الزامات بے بنیاد،افسوس ناک، غیر ذمّے دارانہ اور قابلِ مذمّت ہیں۔۔۔ کسی کو ادارے یا اس کے اہل کاروں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکومت پاکستان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیق کرکےان بے بنیاد الزامات عاید کرنے والے ذمّے داروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرے‘‘۔
زخمی عمران خان کو لاہور میں اپنی پرانی رہائش گاہ زمان پارک میں کچھ روز آرام کےلیے رکنا پڑا جہاں سے انہوں نے اسلام آباد جانے کا ارادہ تو ترک کردیا، تاہم چھبّیس نومبر کو راول پنڈی میں ایک پاور شو کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اس دوران ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ پچّیس نومبر کو جنرل عاصم منیر کی بہ حیثیت آرمی چیف تقرری کا نوٹی فیکیشن جاری کردیا گیا۔چھبّیس تاریخ کو پنڈی میں لانگ مارچ کے بجائے جلسہ ہوا اور لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ اس موقعے پر تقریر میں عمران خان نے تمام اسمبلیزچھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اسلام آباد نہیں جائیں گے۔
انہوں نےسترہ دسمبر کو اعلان کیا کہ وہ تیئس دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیز تحلیل کردیں گے ۔ اس کے بعدبیس تاریخ کو ایک طرف گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ کو اِکّیس تاریخ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تو دوسری جانب اس کے ایک گھنٹے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادئی گئی تاکہ اسمبلی توڑی نہ جاسکے۔لیکن اسپیکرنےگورنرکے حکم پر اجلاس نہیں بلایا جس پرگورنر نے رات گئے وزیر اعلیٰ کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کردیا تھا۔
اس کے خلاف پرویز الہیٰ نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ادہرحزبِ اختلاف نے وزیر اعلیٰ کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد واپس لے لی، لیکن اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرپنجاب اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ عدالت نے چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے تک اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا بیانِ حلفی جمع کرانے پر گورنر پنجاب کا نوٹی فکیشن معطل کر کے پرویز الہٰی کو وزارتِ اعلٰی پر بحال کردیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے مختصر فیصلے کے بعد پنجاب کابینہ بھی بحال ہو گئی۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں مزید کہا کہ جب تک یہ پٹیشن زیرِ سماعت ہے اس وقت تک پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی۔ مقدمے کی اگلی سماعت گیا رہ جنوری کو ہوگی۔ اس دوران پنجاب میں زبردست سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں اور دونوں صوبائی اسمبلیزتادمِ تحریر موجود ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفے بھی تا دمِ تحریر منظور نہیں ہوسکے ہیں۔