• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا بدر الدین اجمل بھارتی مسلمانوں کے ایک نہایت ہی قابل اور معتمد رہنما ہیں جو اِن دنوں بی جے پی کے نشانے پر ہیں۔ آپ جنوب مشرقی ریاست آسام کے صنعتکار، مذہبی اور سماجی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب سیاستدان بھی ہیں۔ 1950میں پیدا ہونے والے مولانا اجمل دنیا بھر کے قدرتی عطریات کا کاروبار کرنے والے بڑے تاجروں میں سے ایک ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے اپنے آبائی علاقے میں عود کے درختوں کا سب سے بڑا نجی جنگل بھی موجود ہے جہاں کروڑوں روپے مالیت کے درخت پروان چڑھ رہے ہیں۔ مولانا اجمل دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے علاوہ جمعیت علمائے ہند آسام کے صدر بھی ہیں۔ آپ نے 2005میں اپنی سیاسی جماعت بنائی جو اب آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ آپ پچھلے پندرہ سالوں سے لگاتار تیسری مرتبہ پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہوئے۔ 2011میں آپ کی جماعت اٹھارہ ممبران اسمبلی کے ساتھ حکمران کانگریس کو چھوڑ کر آسام کی پرانی اور بڑی سیاسی جماعتوں اشوم گونہ پریشد اور بوڈو لینڈ پیپلزفرنٹ کے مقابلے پر آگئی۔ 2016 کے اسمبلی الیکشن میں اگرچہ بی جے پی نے میدان مار لیا مگر اس کے باوجود آپ کی جماعت نے چودہ نشستیں حاصل کرکے اپنی شناخت کو برقرار رکھا۔ مولانا اجمل کے بقول اگرچہ کئی حلقے انکو 'اسلامی شخصیت قرار دیکر انکی سیاست کو بھی اسی طرز پر دیکھنا چاہتے ہیں مگر آپکی پارٹی نہ صرف سیکولرازم کی دعویدار ہے بلکہ غیر مسلموں کو بھی پارٹی کا ٹکٹ دیکر انکے ساتھ اشتراک کرکے ایک جامع سیاسی کلچر کو بڑھاوا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کے مطابق کانگریس پارٹی نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا اور اس وجہ سے وہ ایک الگ پارٹی بنانے پر مجبور ہو گئے۔ مولانا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دیگر بھارتی مسلم رہنماؤں کے برعکس آپ نے کبھی شور شرابے کی اور جذباتی سیاست نہیں کی اور نہ ہی اپنے آپ کو ملکی سطح کا لیڈر بنا کرپیش کرنے کی غیر حقیقت پسندانہ روش اپنائی۔ موجودہ حالات میں جب بی جے پی بھارتی سیاست میں مسلمانوں کا مکمل خاتمہ کرکے انہیں ہر طرح سے بے یار و مدد گار بنانا چاہتی ہے، مولانا اجمل کی جماعت انہیں ایک مؤثر آواز فراہم کرکے ناموافق حالات کے باوجود مستقبل کیلئے ایک امید فراہم کرتی ہے۔ مگر وہ یہ امید صرف خالی خولی جذباتی نعروں یا اساطیری اور مذہبی بیانیوں اور آخرت کے وعدوں سے پیدا نہیں کرتے۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق مولانا اجمل ایشیا کی امیر ترین فلاحی این جی او مرکز المعارف چلانے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑے پانچ سو بیڈز پر مشتملفلاحی دیہی اسپتال حاجی عبدالمجید میموریل اسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر بھی چلاتے ہیں۔ مرکز المعارف ہندوستان کے مختلف علاقوں میں متعدد اسکول، کالجز، اسپتال اور یتیم خانے بنانے کے ساتھ ساتھ کم قیمت والے مکانات بنواکر غریبوں کیلئے سر چھپانے کا انتظام بھی کرتی ہے۔ ان کا ایک بہت بڑا پروجیکٹ علماء کو انگریزی اور کمپیوٹر کی تربیت دینا ہے تاکہ وہ موجودہ دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں مرکز المعارف نے لگ بھگ پانچ سو علماء کو دو سالہ کورس کے ذریعے تربیت دی جو آج ملکی اور بین الاقوامی سطح پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تنظیم المعارف خواتین کیلئے دو کالج بھی چلاتی ہے جہاں سینکڑوں لڑکیاں وسائل کی کمی کے باوجود تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ اس کےعلاوہ آپ کے زیر انتظام کوچنگ سنٹرز میں قابل مسلمان طلباء کو سول سروسز کیلئے تیارکیا جاتا ہے جس میں ان کو خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔

2016 میں آسام میں بی جے پی کی حکومت کے بعد مسلمانوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو 2019میں نریندرمودی کی دوسری مدت کے بعد مزیدبڑھ گئیں کیونکہ اس کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دیکر ان کی آبادی کا تناسب کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان مسائل کی وجہ سے اب مولانا اجمل اگلے سال کے ریاستی انتخابات میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے بی جے پی سے خلاصی چاہتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ انہیں کامیابی بھی حاصل ہو۔ اس صورتحال سے گھبراکر ہندو شدت پسند مرکز المعارف پر برطانیہ اور ترکی میں قائم فلاحی اداروں، جن سے اُن کو مالی امداد ملتی ہے ،کا القاعدہ سے تعلق کا الزام لگا رہے ہیں۔ مولانا اجمل سے وابستہ حلقے اسے بی جے پی کی جانب سے انکو ہراساں کرکے انکے اور مسلمانوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی ایک اور کوشش سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سے پہلے بی جے پی کے سینئر عہدیدار انہیں غیر ملکی اور بنگلہ دیشی بھی قرار دے چکے ہیں اوراب 2021کے انتخابات کو دو تہذیبوں کے مابین مخاصمانہ جنگ قرار دے رہے ہیں۔

تازہ ترین