لندن (مرتضیٰ علی شاہ) حکومت پاکستان نے براڈشیٹ ایل ایل سی کو لندن ہائیکورٹ کے ایک حکم کے تحت تقریباً 29 ملین ڈالر کی ادائیگی کر دی ہے لیکن اصل قانونی چارہ جوئی بہت دور ہے، کیونکہ اسیسٹ ریکوری فرم قومی احتساب بیورو سے تین ملین ڈالر سود کی مد میں جبکہ 5000 ڈالر یومیہ کی شرح سے اخراجات کی مد میں مزید لاکھوں ڈالر کی رقم وصول کرنے کی خواہش مند ہے۔ براڈشیٹ ایل ایل سی کے ایک ایجنٹ نے اس رپورٹر کو بتایا ہے کہ نیب کو اب تین ملین ڈالر جبکہ مجموعی رقم پر سود کی مد میں 5000 ڈالر یومیہ کی شرح سے مزید لاکھوں ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ میں اس بات کی تصدیق کرسکتا ہوں کہ عدالت کے حکم پر براڈشیٹ ایل ایل سی لیکویڈیٹر کے اکاؤنٹ میں 28,706,533.34 امریکی ڈالر ادا کئے جا چکے ہیں، جس میں سے 22 ملین ڈالر فیصلے او ر 6 ملین ڈالر ابتدائی قانونی اخراجات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب بھی 3 ملین ڈالراداکئے جانے ہیں اور پاکستان کی حکومت کو 150000 ڈالر ماہانہ یعنی 5000 ڈالر یومیہ کی شرح سے سود کی ادائیگی کرنی ہے جوکہ بڑھ رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ ہمارے پاس لاگت پر عدالت کا قابل نفاذ آرڈر موجود ہے۔ 5000 ڈالریومیہ قانونی سود کی رقم ہے، یہ تعزیری رقم نہیں۔نیب اس رقم کی ادائیگی سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سود کی رقم ہر روز بڑھ رہی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کےسابق ماہر کاوش موسوی اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کے لئے دستیاب نہیں تھے لیکن براڈشیٹ کے ایک ایجنٹ، جو اس لیکویڈیشن میں ہے،نے اس نمائندے کو بتایا کہ نیب اور اس کی قانونی ٹیم لندن میں پاکستانی ٹیکس دہندگان کے لاکھوں ڈالر کے نقصان کا ذمہ دار ہے۔ ایجنٹ نے بتایا کہ ایلن اینڈ اووری پر نیب کے وکلاء نے 14 ماہ کے دوران ہمارے 18 خطوط کا جواب نہیں دیا یہاں تک کہ ہمیں ان کے اس رویہ پر سالیسیٹرز ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس جانے کی دھمکی دینا پڑی۔ وہ خط وکتابت ریکارڈ میں تھی اور ان کا جواب دینا ایک ذمہ داری تھی۔ براڈشیٹ ایجنٹ نے دعوی ٰکیا کہ پاکستان نے تقریباً 20 ملین ڈالر کے مجموعی قانونی اخراجات برداشت کیے ہیں، اس نے اپنی قانونی ٹیم کیلئے پہلے کینڈل فری مین، اس کے بعد ایسیکس کورٹ کے معروف کونسل اور آخر کار ایلن اینڈ اووری کی خدمات حاصل کیں۔ براڈشیٹ ایجنٹ نے کہا کہ پرویز مشرف نے حکومت میں آنے کے فوراً بعد 1999 میں کاویہ موسوی سے ایک معاہدے پر دستخط کیے اور 2003 میں اچانک اسے منسوخ کردیا۔ اس ایجنٹ نے بتایا کہ موسوی کی ملاقات 2003 میں جنرل (ریٹائرڈ) حفیظ سے ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے اس عزم کا اظہارکیا تھا کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو اس کی خلاف ورزی پر وہ قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ موسوی پاکستان کی بدنامی نہیں چاہتے تھے لیکن کسی نے ان کی بات نہیں مانی۔ براڈشیٹ 2003 میں عدالت گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 2009 میں بھی ثالثی کی کارروائی جاری رکھی۔ براڈشیٹ کے سابق اونر موسوی نے گذشتہ سال وزیراعظم عمران خان کے مشیر شہزاد اکبر کے ساتھ لندن میں دو ملاقاتیں کیں اور معاملات طے کرنے کی پیش کش کی لیکن اکبر نےکچھ نہیں کیا۔ شہزاد اکبر اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کے لئے دستیاب نہیں تھے لیکن شہزاد اکبر کی حکومت میں شمولیت سے بہت پہلے ہی پاکستان یہ کیس کھوچکا تھا۔ براڈشیٹ ایجنٹ نے کہا کہ پاکستان برسوں پہلے معاملات طے کر کے بہت سی رقم بچاسکتا تھا لیکن انھیں اس امید پر قانونی لڑائی کی غلط مشاورت فراہم کی گئی کہ کوئی ادائیگی نہیں ہوگی۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں ادائیگی کی عدم تعمیل نوٹ کی جائے گی۔ پاکستانی عوام اس صورت حال کے مستحق نہیں ہیں۔ جنگ نے فیصلے کی ایک نقل حاصل کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ لندن میں پاکستان کے سرکاری اکاؤنٹ عبوری آرڈر کے ذریعے منجمد کردیئے گئے تھے اور براڈشیٹ کو دی جانے والی رقم منجمد اکاؤنٹس سے ادا کی گئی۔ لندن ہائی کورٹ کے کمرشل ڈویژن میں ڈسٹرکٹ جج ماسٹر کے کیو سی نے دعویدار براڈشیٹ ایل ایل سی اور مدعا علیہان اسلامی جمہوریہ پاکستان (نیب کی طرف سے) اور یونائیٹڈ نیشنل بینک لمیٹڈ کے درمیان تیسری پارٹی کی حیثیت سے حتمی فیصلہ دیا۔ جج نے 23 جون 2020 کو عبوری تیسری پارٹی کے آرڈر کو حتمی شکل دی، جس کے تحت پاکستان کو اپیل کیلئے بدھ 23دسمبر 2020 کی شام 4.30بجے تک کا وقت دیا گیا لیکن پاکستان نے اپیل نہیں کی۔ عدالت نےبعد ازاں حکم دیا کہ دعویدار کو 31 دسمبر 2020سے پہلے 28،706،533.34 امریکی ڈالر ادا کیے جائیں۔ عدالتی حکم نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان کے سرکاری اکاؤنٹ منجمد کردیئے گئے ہیں۔ اگر مدعا علیہ پیراگراف 2 کے مطابق اپیل کرتا ہے تو تیسری پارٹی کے ذریعہ عبوری آرڈر کے تحت رکھے گئے فنڈز عدالت میں ادا کیے جائیں گے۔ پاکستان حکومت نے ویانا کنونشن کے تحت استثنیٰ کا دعوی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن عدالت نے فیصلہ سنایا کہ یونائیٹڈ بینک میں موجود پاکستان حکومت کے اکاؤنٹ کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے، کیونکہ اسے تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے، جس کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان کیلئے اب وقت ختم ہوگیا ہے اور اب وہ اپیل نہیں کرسکتا۔ ادھر نیب نے کہا ہے کہ اس کی موجودہ قیادت کا اصل معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، کیونکہ نیب کے خلاف بڑا فیصلہ موجودہ چیئرمین کے عہدہ سنبھالنے سے بہت پہلے سن 2016 میں کیا گیا تھا۔ پاکستان ہائی کمیشن کے ایک ذرائع نے بتایا کہ نیب براڈشیٹ کو مزید رقم کی ادائیگی کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔