برسلز: جم برنسڈن،
مائیکل پیل اور سیم فلیمنگ
سات سال کے طویل مذاکرات کے بعد یورپی یونین نے چین کے ساتھ تعلقات میں اولین ترجیح ات میں سے ایک سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا کیا ہے، جس کے بارے میں یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یہ یورپی کمپنیوں کو درپیش دیرینہ مسائل کا حل نکالے گا۔
تاہم چین میں ہونے والی زیادتیوں کے الزامات کے پیش نظر انسانی حقوق کے حامیوں کے ساتھ یہ معاہدہ متنازع ہونے کا امکان ہے۔اس سے جو بائیڈن کی آنے والی امریکی انتظامیہ سے بھی اختلافات ہوسکتے ہیں، جس نے واضح کیا ہے کہ چین کے جارحانہ طریقہ تجارت کے خلاف مشترکہ دباؤ ڈالنے کیلئے وہ یورپی یونین کے ساتھ اتحاد چاہتے ہیں۔
کاروبار بھی اب معاہدے کے زریعہ پیدا کردہ نئے حقوق کی خفیہ غیرمفید شرائط کا مطالعہ کرنا چاہیں گے، اور ان کو کس طرح نافذ کیا جائے گا یہ جاننا چاہیں گے۔
1- معاہدے سے یورپی یونین کو کیا فائدہ پہنچے گا؟
اس معاہدے سے یورپی یونین کی متعدد شکایات کا ازالہ ہوتا ہے۔
ان میں دیرینہ خدشات بھی شامل ہیں کہ چین کے سرکاری ملکیتی کاروبار کی غیرمنصفانہ حد تک طرف داری کی جاتی ہے اور یہ کہ چین کا ریاستی سبسڈی کا نظام مبہم ہونے کے خدشے کے ساتھ یورپی بلاک کی کمپنیوں کو چینی مارکیٹ میں مسابقت کی اجازت دینے کے بدلے میں قابل قدر تکنیکی مہارت یا معلومات بتانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
یورپی یونین نے ایک بیان میں کہا کہ اس معاہدے سے یورپی یونین کے سرمایہ کاروں کو یکساں مواقع ملیں گے، جن میں ٹیکنالوجی کی جبری منتقلی اور دیگر مسخ شدہ طریقوں پر پابندی بھی شامل ہے۔
معاہدے کے دیگر حصوں میں ہر شعبے میں مارکیٹ تک رسائی کے حقوق،مشترکہ منصوبوں میں مقامی کاروباری اداروں کے ساتھ لازمی شراکت داری جیسے تقاضوں کی رکاوٹوں کو دور کرنا اور سرمایہ کاری کی سطح پر پابندیوں کے خاتمے کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
ایسے شعبوں میں جہاں یورپی یونین کی کمپنیاں رسائی کے بہتر حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گی، ان میں ااٹو موٹو سیکتر، ٹیلی کام کا سامان، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، نجی صحت کی دیکھ بھال اور فضائی نقل و حمل کے لئے معاون خدمات شامل ہیں۔جب بات چینی مالیاتی خدمات کی منڈی میں کام کرنے کی آتی ہے تو یہ معاہدہ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بھی امریکا کے جیسے ہی ہوں گے۔
2- کیا یہ معاہدہ چین اور یورپی یونین کے مابین تجارتی مسائل حل کرتا ہے؟
یورپی یونین کے ٹریڈ کمشنر والدس ڈومبروسکس نے فنانشل ٹائمز سے بات چیت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ چین سےمتعلق تمام چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے یہ معاہدہ کوئی اکسیر اعظم نہیں ہے، تاہم یہ متعدد خوش آئند اصلاحات لایا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ یورپی یونین نے کینیڈا، جاپان اور حال ہی میں برطانیہ کے ساتھ جن آزادانہ تجارت کے وسیع معاہدوں کے بارے میں بات چیت کی ہے، ان کے مقابلے میں سرمایہ کاری کے معاہدے کا دائرہ کار کافی محدود ہے۔یہ بنیادی طور پر کاروبار اور سرمایہ کاری کیلئے ٹیرف وصول کیے بغیر محدود درآمدات کا احاطہ کرتا ہے۔
والدس ڈومبروسکس نے یورپی یونین اور چین کے تجارتی تعلقات میں اسٹیل کی پیداوار میں ذیادہ گنجائش،عوامی فراہمی کے معاہدوں میں غیرمساوی رسائی اور جعلی اشیا میں تجارت جیسے مسائل کی نشاندہی کی،جنہیں معاہدہ حل نہیں کرسکا۔
یورپی یونین عالمی تجارتی تنظیم میں اصلاحات کے ذریعے چین کے سبسڈی کے استعمال جیسے وسیع تر امور سے نمٹنے کے لئے کوشاں ہے۔
والدس ڈومبروسکس نے کہا کہ یہ معاہدہ صرف ایک عنصر ہے،یورپی یونین اور چین کے تعلقات کی پیچیدہ بنت میں محض ایک دھاگہ، اور یقیناََ یہ بات واضح ہے کہ ابھی بھی بہت سارے پیچیدہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
3- چین کو اس معاہدے سے کیا حاصل ہوتا ہے؟
چین کے لئے یہ معاہدہ ایک اچھی سفارتکاری ہے، امریکا میں جو بائیڈن کی آنے والی انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے ریکارڈ اور جارحانہ تجارت کامعمول، دونوں معاملات کے حوالے سے چین پردباؤ ڈالنے کیلئے جمہوری ممالک کا اتحاد بنانا چاہتے ہیں۔سرمایہ کاری کاری کے معاہدے سے متعلق سودے بازی ایک اہم موقع پر یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرتی ہے۔
چین نے یورپی یونین کے مقابلے میں چند مارکیٹ تک رسائی کے اہداف کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا، جن کے بارے میں اس نے استدلال اختیار کیا کہ وہ غیرمساوی مواقع کا شکار ہے۔
پھر بھی،اس معاہدے نے یورپی یونین کی مارکیٹ میں موجود چینی کمپنیوں کے موجودہ حقوق کو محفوظ کیا ہے جب یورپی یونین غیرمنصفانہ غیرملکی مقابلے کے خلاف اپنے قانونی ہتھیاروں میں توسیع کا خواہاں ہے۔
یہ قابل تجدید توانائی کے لئے چین کو مینوفیکچرنگ اور یورپی یونین کی ترقی کرتی ہوئی مارکیٹ میں نئی راہیں بھی پیش کرتا ہے۔
یورپی یونین کے حکام نے اس پر زور دیا ہے کہ قابل تجدید ذرائع پر محدودمارکیٹ کھولی گئی ہے(ہر یورپی یونین کے رکن ملک کی منڈی کے لئے 5 فیصد کی حد) اور چین کی جانب سے متوازی کشادگی پر انحصار ہے۔
4- یہ معاہدہ امریکا کی نئی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو کس طرح متاثر کرے گا؟
خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران شدید تناؤ کے بعد ٹرانس اٹلانٹک تعلقات کو بحال کرنے کی متوازی کوشش میں یورپی یونین نے اس پیش رفت سے خطرہ مول لیا ہے۔
محض چار ہفتوں قبل ہی ایک عوامی اجتماع میں انہوں نے امریکا پر زور دیا تھا کہ وہ آمرانہ طاقتوں کے خلاف جمہوری دنیا کے مفادات کی توثیق کے لئے اور چین کے اسٹرٹیجک چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد میں شامل ہو۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ شراکت داری کے مطالبے کو یورپی یونین کا معاہدہ سبوتاژ کرتا ہے، یورپی یونین کا اصرار ہے کہ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے چین کے ساتھ طے کیے جانے والے نام نہاد فیزون تجارتی معاہدے کے مساوی تجارتی فوائد حاصل کررہا ہے۔
یورپی یونین کا یہ بھی استدلال ہے کہ اس معاہدے سے چین کے ساتھ وعدوں کی شرائط میں نیا حوالہ نقطہ قائم ہونے سے دیگر ممالک کو چین کے ساتھ اپنے معاملات میں مزید ثابت قدم رہنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ولادس ڈومبروسک نے کہا کہ ہم امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔میں فیز 1 معاہدہ یا سرمایہ کاری سے متعلق ہمارے جامع معاہدے کو کسی بھی طرح سے اس تعاون میں رکاوٹ بننے کی حیثیت سے نہیں دیکھ رہا ہوں۔
5- کیا یہ معاہدہ انسانی حقوق سے متعلق یورپی یونین کے اہداف کے مطابق ہے؟
یورپی یونین کا دعویٰ ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا مرکز عالمی، غیر منقسم اور باہمی انحصار انسانی حقوق ہیں۔تاہم اس معاہدے نے انسانی حقوق کے کارکنوں میں ان الزامات کی وجہ سے تشویش پیدا کردی ہے، جن کی چین تردید کرتا ہے کہ سنکیانگ کے مغربی علاقے میں نظر بند ایغور مسلمان بطورجبری مشقت کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔
بلاک کا کہنا ہے کہ اس نے چین کی حکومت سے جبری مشقت کے خلاف بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے دو کنونشنوں کی توثیق کے لئے مستقل کوشش جاری رکھنے سمیت غیرمعمولی وعدے حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔تاہم انسانی حقوق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ضمانت کی حد سے زیادہ نہیں ہیں۔
چین کے ساتھ تعلقات کے لئے یورپی پارلیمنٹ کے وفد کے سربراہ رین ہارڈ باٹیکوفر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یورپی یونین کے لئے اسے کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرنا مضحکہ خیز ہے۔
یورپی یونین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس معاہدے میں ایک مستحکم عمل درآمد اور نفاذ کا طریقہ کار شامل ہے، جس میں مزدوروں کے حقوق سے وابستگیوں کے ساتھ ساتھ تنازعات کے تصفیے کے دیگر انتظامات بھی شامل ہیں۔
ولادس ڈومبروسک نے کہا کہ اس سال ایشیائی اور بحرالکاہل کے ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ پائیدار ترقیاتی وعدوں کے حوالے سے نہ تو امریکا کے ساتھ فیز ون کا معاہدہ اور نہ ہی علاقائی جامع اقتصادی شراکت یورپی یونین چین معاہدے کے قریب ہیں۔
یورپی یونین کے معاہدے کی توثیق پر کام کے دوران تناؤ نمایاں ہونا یقینی ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق کی ضرورت ہوگی۔