یورپی بینک کا شرح مقرر کرنے کیلئے سال کا پہلا اجلاس جب ہوگا تو اس میں کووڈ19 لاک ڈاؤن کی توسیع، ویکسینشنز کی رفتار اور معاشی بحالی کے امکانات توجہ کا مرکز ہوں گے۔
یورپی سینٹرل بینک کی صدر کرسٹین لیگارڈے نے اس گفتگو سے کیا توقع کی جاسکتی ہے اس حوالے سے گزشتہ ہفتے یہ کہہ کر اشارہ دیا کہ جیسے ہی وبائی مرض کو قابو کیا جاتا ہے تو متوقع رکے ہوئے واجبات کے اجراء کے ذریعے تحریک سے رواں برس اقتصادی سرگرمیوں میں بہتری کا امکان ہے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ تاہم یہ ای سی بی کی مالیاتی پالیسی کو سخت کرنے کا جواز پیش کرنے کیلئے یہ کافی نہیں ہوگا۔اس وقت کسی بھی قسم کی سختی انتہائی غیر ضروری ہوگی۔
ان کی رائے اس وقت سامنے آئی ہے جب جرمنی کی چانسلر اینگلا میرکل نے متنبہ کیا تھا کہ ان کے ملک میں لاک ڈاؤن آٹھ سے دس ہفتے تک جاری رہ سکتا ہے، جبکہ ہالینڈ نے اس لاک ڈاؤن کو تین ہفتوں تک بڑھادیا ہے۔
اگرچہ کہ مرزکی بینک سے اس کی مرکزی مالیاتی پالیسیوں کو بدستور بررقرار رکھنے کی توقع کی جارہی ہے،کرسٹین لیگارڈ نے پہلے ہی اشارہ دے دیا ہے کہ اگر ویکسینشنز میں تاخیر ہوتی ہے اور توقع سے زیادہ دیر تک لاک ڈاؤم بررقرار رہتا ہے تو وہ بانڈ خریدنے کے اپنے اہم پروگرام کو مزید بڑھاسکتی ہیں۔
مرکزی بینک نے گزشتہ ماہ بانڈ خریدنے کے اپنے ہنگامی پروگرام کو 1.85 ٹریلین یورو تک بڑھادیا تھا اور مارچ 2022 تک توسیع کردیا تھا۔
دریں اثناء ، ای سی بی نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قدر میں حالیہ اضافے پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے،جس سے وہ درآمدات کی قیمت کم کرکے افراط زر کو کم کرنے پر دباؤ ڈالنے کی توقع ہے۔لرسٹین لہاگرڈے نے کہا کہ شرح تبادلہ کے قیمتوں پر پڑنے والے اثرات پر انتہائی توجہ دینا جاری رکھیں گے۔
کیا افراط زر کے اعداد وشمار بینک آف انگلینڈ کو منفی شرحوں میں دھکیل دیں گے؟
برطانیہ کی معیشت کو دہری کساد بازار میں داخل ہونے کا خطرہ ہے،اور افراط زر بینک ااف انگلینڈ کے 2 فیصد ہدف سے بھی کم ہے، اور کچھ سرمایہ کاروں کی رائے کی آزمائش کررہے ہیں کہ منفی شرحیں ایجنڈے میں نہیں ہیں۔
سرمایہ کار اندازے لگارہے ہیں کہ منی مارکیٹ کی قیمت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سود کی شرح صفر سے نیچے دھکیل کر بینک آف انگلینڈ اقتصادی آزردگی کا جواب نہیں دے گا۔جب تک کہ کورونا ویکسین کی آمد سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے بحالی کی توقعات پیدا نہیں ہوئی تھیں، 2020 میں زیادہ تر مارکیٹوں کے لئے آئندہ دو سال کے دوران منفی میں کٹوتی کا اندازہ لگایا جارہا تھا۔
دفتر برائے قومی شماریات کے اعدادوشمار کے چھ ماہ میں پہلی بارنومبر میں سکڑاؤ ظاہر کرنے کے بعداب تصویر کافی دھندلی ہے،دسمبر کیلئے شائع ہونے والے افراط زر کے نمبرز مرکزی بینک کے آئندہ اقدام کے بارے میں سرمایہ کاروں کی توقعات کی تشکیل میں اہم ثابت ہوں گے۔
بینک آف امریکا میں برطانیہ کے ماہر معاشیات رابرٹ ووڈز نے کہا کہ کٹوتی کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔افراط زر اورمستقل اضافی گنجائش کے امکان سے مزید محرک کی ضرورت کا پتہ چلتا ہے۔
آر بی سی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک فروری میں ہونے والے اپنے آئندہ اجلاس میں ریٹس کو 0.1 فیصد سے منفی 0.15 فیصد تک بڑھا سکتا ہے۔
پالیسی ساز یہ اشارے بھی دے رہے ہیں کہ ابھی بھی بینک کے لئے شرح میں کمی ایک آپشن ہے۔ بینک آف یورپ کی مانیٹری کمیٹی کی ایک بیرونی رکن سلونا ٹنریرو نے گزشتہ ہفتے کہا تھاکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ معیشت کو مزید مدد کی ضرورت ہوگی، اس صورت میں ہمارے ٹول باکس میں منفی شرحیں ہونا اہم ہوگا۔
کیا ہانگ کانگ کی اسٹاک مارکیٹ وبائی مرض سے آخرکار بحال ہوسکتی ہے؟
2020 میں ہانگ کانگ اسٹاک اپنے ہمسروں سے بری طرح پیچھے رہا، دنیا بھر سے قبل براستہ چین کووڈ19پھیلنے کی وجہ سے سال کے اوائل میں تیزی سے گرنے کے بعد مکمل طور پر بحال ہونے میں ناکام رہا ہے۔مین لینڈ چین کے بنچ مارک میں 27 فیصد اور امریکی اسٹاک کے لئے 16 فیصد مقامی کرنسی کے منافع کے مقابلے میں ہینگ سینگ انڈیکس میں 3.4 فیصد کی کمی ہوئی۔
جون میں چین کی جانب سے بڑے پیمانے پر قومی سلامتی کا قانون نافذ کرنے کے بعد ہانگ کانگ میں درج حصص زوال پزیر ہوگئے، اور ہانگ کانگ میں درج علی بابا اور ٹینسنٹ جیسے بڑے ٹیک گروپوں پر چین اور امریکا دونوں کی جانب سے ریگولیٹری دباؤ کا تجربہ کیا۔
تاہم 2021 ہینگ سینگ کے لئے ایک بہتر سال کی حیثیت اختیار کررہا ہے، کیونکہ چینی سرمایہ کار شنگھائی اور شینزین کے ساتھ لنک اپ کے زریعے ہانگ کانگ کی فہرست میں درج اسٹاک میں رقم داخل کررہے ہیں۔چینی ٹیک گروپوں کے بڑھتے ہوئے غلبے کی عکاسی کرنے کے لئے اسٹاک انڈیکس میں ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ یہ فیصلہ کن بنچ مارک کو آگے بڑھا سکتا ہے، جو جنوری کے آغاز کے بعد سے 4.9 فیصد بڑھ گیاہے، سال میں پہلی بارواپس 29 ہزار کی سطح سے اوپر آیا ہے۔
اور نام نہاد ’’ایچ شیئرز‘‘( ایسی کمپنیاں جو ہانگ کانگ کے اسٹاک ایسچینج میں تجارت کے ساتھ مین لینڈ چین سے مربوط ہیں) کی چینی طلب کم ہونے کے کوئی آثار ظاہر نہیں ہورہے۔چیونگ کانگ گریجویٹ اسکول آف بزنس کے ایک چوتھے سہ ماہی سروے میں ہانگ کانگ کے بارے میں چینی سرمایہ کاروں کی رائے میں نمایاں بہتری آئی ہے ، 46 فیصد سے زیادہ جواب دہندگان کا کہنا ہے کہ انہیں کافی اعتماد تھا کہ حصص میں اضافہ ہوگا۔