• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں چوتھی اور آخری دو روزہ نیوکلیئر سیکورٹی کانفرنس امریکہ کے شہر واشنگٹن میں منعقد ہوئی جس میں چین، جنوبی کوریا، جاپان، ترکی سمیت 50 سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت اور حکام نے شرکت کی جبکہ روس اور ایران نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ وزیراعظم نواز شریف سانحہ گلشن اقبال پارک لاہور کے باعث کانفرنس میں شرکت نہ کرسکے اور پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے کی۔ یاد رہے کہ پہلی نیوکلیئر کانفرنس 2010ء میں واشنگٹن (امریکہ)، دوسری 2012ء میں سیول (کوریا) اور تیسری کانفرنس 2013ء میں ہیگ (جرمنی) میں ہوئی تھی جس کا مقصد جوہری دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے، یورینیم کی پیداوار میں کمی، جوہری اسمگلنگ اور دہشت گردی کی روک تھام کیلئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا تھا۔
قارئین! پاکستان ایٹمی طاقت رکھنے والا امت مسلمہ کا واحد ملک ہے، مغرب کو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کسی صورت برداشت نہیں، اسی وجہ سے وقتاً فوقتاً مغربی ممالک پاکستان کی جوہری صلاحیتوں پر تحفظات اور تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے مغربی میڈیا میں اس طرح کی ویڈیو دکھائی گئی تھیں کہ مرگلہ کی پہاڑیوں سے طالبان دہشت گرد اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کا ارادہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر قبضہ کرنا ہے۔ ان افواہوں کو پھیلانے کا مقصد پاکستان کےایٹمی ہتھیاروں کو غیر محفوظ قرار دے کر انہیں اپنے کنٹرول میں لینا تھا۔ امریکہ پاکستان سے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کو محدود کرنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے اور ایک سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان پر دبائو تھا کہ وہ چوتھی اور آخری ایٹمی سیکورٹی کانفرنس میں اس کا اعلان کرے لیکن نیشنل کمانڈ اتھارٹی (NCA) کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی نے واضح کردیا کہ پاکستان اپنے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام نہ تو بند کرے گا اور نہ ہی کوئی پابندی قبول کرے گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے حالیہ ملاقات میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ملکی سلامتی سے مشروط قرار دیا ہے۔ پاکستان کیلئے یہ خوش آئند بات ہے کہ حال ہی میں وائٹ ہائوس کے ترجمان نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو محفوظ ترین قرار دیا ہے جبکہ امریکی تھنک ٹینک نے بھارتی ایٹمی پروگرام کے پھیلائو کو غیر محفوظ قرار دے کر اس کی اطمینان بخش عالمی نگرانی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس وقت بھارت کے پاس تین ایٹمی پروگر ام ہیں جس میں دو سویلین اور ایک فوجی مقاصد کیلئے ہے۔ بیلفر سینٹر تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے سویلین پروگرام میں ایسے سیف گارڈ نہیں کہ اسکے ایٹمی مواد فوجی پروگرام کیلئے استعمال نہ کئے جاسکیں جو پاکستان کی ایک جائز تشویش ہے۔ پاکستان اور بھارت کی جوہری سیکورٹی پر مغرب کے یوٹرن نے مجھے مجبور کیا کہ میں اپنے قارئین کو اس حساس قومی نوعیت کے معاملے کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کروں۔
اِس وقت دنیا میں 9ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں جن میں امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین نے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے معاہدے NPT پر دستخط کئے ہیں جبکہ پاکستان، بھارت اور شمالی کوریا نے NPT پر دستخط نہیں کئے ہیں جبکہ اسرائیل نے باضابطہ طور پر خود کو ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک قرار نہیں دیا ہے۔ دنیا کے 10بڑے فوجی اخراجات کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر امریکہ ہے جس کا دفاعی بجٹ 711 ارب ڈالر ہے، دوسرے نمبر پر چین (143 ارب ڈالر)، تیسرے نمبر پر روس (71.9 ارب ڈالر)، چوتھے نمبر پر برطانیہ (62.7 ارب ڈالر)، پانچویں نمبر پر فرانس (62.5 ارب ڈالر)، چھٹے نمبر پر جاپان (59.3 ارب ڈالر)، ساتویں نمبر پر بھارت (48.9 ارب ڈالر)، آٹھویں نمبر پر سعودی عرب (48.5ارب ڈالر)، نویں نمبر پر جرمنی (46.7 ارب ڈالر) اور دسویں نمبر پر برازیل (35.4 ارب ڈالر) ہے جبکہ پاکستان کا موجودہ دفاعی بجٹ پر صرف 7.8 ارب ڈالر (780 ارب روپے) ہے۔ دنیا میں بڑی فوج رکھنے والے 10 سرفہرست ممالک میں چین 16 لاکھ فوج کیساتھ پہلے نمبر پر، دوسرے نمبر پر بھارت (11لاکھ)، تیسرے نمبر پر شمالی کوریا (ساڑھے 9 لاکھ)، چوتھے نمبر پر جنوبی کوریا (5.6 لاکھ)، پانچویں نمبر پر پاکستان (5.5 لاکھ)، چھٹے نمبر پر امریکہ (4.7 لاکھ)، ساتویں نمبر پر ویت نام (4.1 لاکھ)، آٹھویں نمبر پر ترکی (4لاکھ)، نویں نمبر پر عراق(3.7لاکھ) اور دسویں نمبر پر روس (3.2لاکھ) ہے جبکہ دنیا میں 10 ایسے ممالک بھی ہیں جن کی اپنی کوئی فوج نہیں۔ ان اعداد و شمار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا حریف ملک بھارت جو دو جنگیں لڑچکا ہے، ہمارے مقابلے میں دگنی فوج اور 7گنا زیادہ دفاعی بجٹ رکھتا ہے۔ پاکستان اپنے محدود مالی وسائل کی وجہ سے بھارت کے دفاعی بجٹ کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، اس لئے پاکستان کا ایٹمی پروگرام دفاع (Deterrence) کیلئے ہے۔ کریڈٹ سوئز بینک کی گلوبلائزیشن رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی گیارہویں طاقتور اور مضبوط فوج رکھتا ہے جبکہ دیگر سرفہرست ممالک میں امریکہ، روس، چین، جاپان اور بھارت شامل ہیں۔
قارئین! داعش جیسے گروپوں اور غیر ریاستی عناصر کی ایٹمی مواد و ہتھیاروں تک رسائی روکنے اور عالمی سیکورٹی کو یقینی بنانے کیلئے ایٹمی دہشت گردی اہم چیلنجز میں سے ایک بڑا خطرہ ہے۔ نیوکلیئر سیکورٹی کانفرنس میں ایٹمی صلاحیت کے حامل ہر ملک کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کیلئے عالمی معیار کے مطابق موثر اور فول پروف اقدامات کرے تاکہ ایٹمی دہشت گردی کے خطرے کو کم کیا جاسکے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کیساتھ طے پانے والے ایٹمی معاہدے کو کامیاب قرار دیا ہے۔ عالمی نیوکلیئر کانفرنس میں ماہرین نے بھارتی جوہری مواد کی سیکورٹی پر سخت تشویش جبکہ پاکستان کے ایٹمی مواد کی سیکورٹی کی تعریف کی ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ بھارت میں گزشتہ دو دہائیوں میں جوہری مواد کی چوری کے 5 واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں 2013ء میں گوریلا جنگجوئوں کا عالمی کمپلیکس سے یورینیم چوری کرنے کا واقعہ بھی شامل ہے جس کی بھارتی فوج کو خبر تک نہیں ہوئی تھی جبکہ پاکستان میں اب تک ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ پاکستان کے اس اطمینان بخش ٹریک ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن نے پہلی بار اپنے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ پاکستان میں 14مارچ سے 18مارچ تک جوہری سلامتی کی تربیت کی پانچ روزہ کانفرنس اسلام آباد میں منعقد کی جس میں امریکہ، چین، برطانیہ، روس، جاپان، برازیل، افغانستان، بلغاریہ، چلی، جبوتی، ایکواڈور، گھانا، انڈونیشیاء، جنوبی افریقہ، سوڈان، تھائی لینڈ، اردن، قازقستان، کینیا،کوریا، لبنان، یوکرین اور ویتنام سمیت 29ممالک کے 56اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ کانفرنس میں ورلڈ انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سیکورٹی اور عالمی ایٹمی ایجنسی کے نمائندگان بھی شریک تھے۔ اس کانفرنس میں عالمی نیٹ ورک آف نیوکلیئر سیکورٹی ٹریننگ سپورٹ سینٹرز کا سالانہ اجلاس بھی ہوا۔ یہ ادارہ دنیا میں ایٹمی سیکورٹی بڑھانے کیلئے عالمی اقدامات کرتاہے ۔اس طرح پاکستان انٹرنیشنل اٹامک انرجی کے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ تربیتی کانفرنس کرانے والا پہلا ملک بن گیا جو ہمارے لئے ایک فخر کی بات ہے۔ کانفرنس کے شرکاء نے جوہری تحفظ اور پاکستان کے سینٹر آف ایکسی لینس آف نیوکلیئر سیکورٹی کے تربیتی معیار کو سراہا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے۔ جوہری دہشت گردی اور تابکاری مواد کی چوری عالمی امن و سلامتی کیلئے بڑے چیلنجز ہیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جوہری ہتھیاروں اور تابکاری مواد کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے روکنے کیلئے ایٹمی صلاحیت کے حامل تمام ممالک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں تاکہ جوہری ہتھیاروں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جاسکے۔
تازہ ترین