• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیٹو کی قیادت اور امریکی پالیسی سازوں کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بڑی عجلت ہے امریکی سفارت کار اور مذاکرات کار تقریباً ڈیڑھ سال سے زیادہ سے مختلف فورمز پر مذاکرات کرتے رہے ہیں قطر میں یہ سلسلہ جاری تھا اور اب بھی کچھ نہ کچھ اس سلسلے میں ہو رہا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی بے نتیجہ جنگ امریکی افواج اور سول سوسائٹی کو بری طرح سیاسی و اخلاقی پستی میں گراتی جا رہی ہے اور اب صدر اوباما یہ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد امریکی افغانستان سے نکل آئیں۔افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج تقریباً بارہ سال سے لڑ رہی ہیں لیکن ان کے مقاصد نہ مکمل ہوئے ہیں اور نہ ہونے کی امید ہے۔ افغانستان میں طالبان بجائے کمزور ہونے کے مزید اس پوزیشن میں آگئے ہیں کہ وہ جہاں چاہیں اورجس وقت چاہیں کارروائی کر دیں۔ ایک بات جو میں اب نہیں، کئی سال سے کہہ رہا ہوں کہ افغانستان سے امریکا کے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں اور ان میں کامیابی کا انحصار پاکستان کی حکومت کے تعاون پر ہے لیکن اب اس میں ایک فیکٹر پاکستان کے طالبان کا بھی شامل ہوگیا ہے اور اب پاکستان کی حکومت تنہا کچھ نہیں کر سکتی اب یہ پاکستان کے طالبان پر منحصر ہے کہ وہ کیا اسٹرٹیجی اختیار کرتے ہیں۔ امریکا کے پالیسی سازوں نے پہلے تو ایک فوجی حکمت عملی کے تحت افغانستان کی جنگ کو پاکستان کے علاقوں میں پہنچایا تاکہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج پر افغان طالبان کا پریشر اور دباؤ کم ہو اس حکمت عملی کے تحت جنوبی وزیرستان میں پاکستانی افواج نے آپریشن کیا سوات میں آپریشن ہوا وقتی طورپر تو یہ ہوا کہ وہاں پاکستانی فوج کا آپریشن کامیاب ہوا لیکن اس کو مکمل کامیابی نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے کہ طالبان وہاں ابھی تک سرگرم ہیں اور حکومت کی رٹ پوری طرح وہاں نظر نہیں آتی۔اب جو حکومت برسر اقتدار آنے والی ہے اسے جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے اور پاکستانی طالبان سے مذاکرات بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ میاں نواز شریف اگر مذاکرات کیلئے مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق پر بھروسہ کر رہے ہیں یا اگر انہیں بیچ میں ڈال رہے ہیں تو یہ ایک حکمت عملی کا بلینڈر ہے۔ ان حضرات کا طالبان پر ایسا اثر نہیں ہے یا یہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ طالبان کے موقف میں تبدیلی لا سکیں۔ کم سے کم ہر وہ شخص جو طالبان کے Mindset کو سمجھتا ہے طالبان قیادت ان علماء حضرات کی تعظیم و عزت تو کرتی ہے لیکن وہ ان کی بات نہیں مانیں گے انہیں اپنی قوت کا اندازہ ہے اور ان کے قائدین کے ذہنوں میں خواہ وہ حکیم اللہ محسود ہوں یا کوئی او یہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ وہ بلا واسطہ کسی کا مشورہ مانے بغیر حکومت سے مذاکرات کریں گے کسی کو بیج میں ڈال کر نہیں۔ کئی سال پہلے بھی طالبان سے مطالبات ہوئے تھے اور یہ کہا گیا تھا کہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں لیکن مذاکرات کے نتیجے میں جو معاہدہ ہوا تھا وہ ٹوٹ گیا اور نافذ نہیں ہوسکا۔ اگر وہ معاہدہ ناکام نہ ہوتا تو سوات اور وزیرستان میں فوجی آپریشن کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
کیا یہ سمجھا جا رہا ہے کہ طالبان ہتھیار پھینک کر امن کا معاہدہ کریں گے یا وہ اپنے اس مطالبے سے پیچھے ہٹ جائیں گے کہ خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں شریعت کا نفاذ کیا جائے یا وہ بغیر جنگی تاوان لئے امریکی اور نیٹو افواج کو محفوظ راستہ دے دیں گے تو یہ خام خیالی ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ ذہنی ہم آہنگی کے اعتبار سے افغانستان کے طالبان اور پاکستان کے طالبان الگ الگ نہیں ہیں دونوں کی سوچ کم و بیش ایک جیسی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے لئے جتنی جلدی کا مظاہرہ کیاجا رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے اب جو اقتدار میں آنے والے ہیں وہ بھی مسئلے کی نوعیت سے پوری طرح واقف نہیں ہیں یہ مذاکرات ایک دو مہینے میں کامیاب نہیں ہوں گے اس کیلئے ایک طویل مذاکرات کاری کی ضرورت ہوگی امریکا اور نیٹو کے پالیسی سازوں کیلئے عجلت ایک بڑا فیکٹر ہے کیونکہ انہیں 2014ء میں افغانستان کو چھوڑنا ہے اس لئے وہ پاکستان کی حکومت پر مذاکرات کے لئے دباؤ بڑھاتے جائیں گے۔امریکی حلقوں میں پاکستانی طالبان اور پاکستانی حکومت و فوج کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی اہمیت ہے کہ ان کی واپسی کا راستہ چمن سے گزرتا ہے جو پاکستانی علاقہ ہے۔”آپ مذاکرات کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ مذاکرات کے عمل کیلئے مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ تو وہ ہے جس میں مسئلے کی صحیح صورت حال فریقین کے سامنے ہو ابھی تو طالبان نے اپنی شرائط ہی پیش نہیں کی ہیں جب ان کی پوری شرائط سامنے آئیں گی تو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کچھ لو اورکچھ دوکا عمل جاری رہ سکتا ہے یا نہیں اس لئے کہ مذاکرات کبھی یکطرفہ نہیں ہوتے۔ طالبان کی قیادت اپنی برتر پوزیشن کو سمجھ رہی ہے۔ حکیم اللہ محسود خود ایک ماہر مذاکرات کار ہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی حکمت عملی کا ماہر ہے۔پاکستان کی طرف سے مذاکرات کار اگر طالبان کی قیادت کو سمجھتے ہیں تو وہ مذاکرات کاری میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور یہ کچھ دو اور کچھ لوکے فارمولے پر چلے بغیر ممکن نہیں ہے۔
تازہ ترین