• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی والوں کیلئے لگتا ہے خوشخبریوں کا موسم آگیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ پر ریکارڈ ٹوٹ رہا ہے، جیسے مارکیٹ کے جو چند کرتا دھرتا ہیں انہیں کوئی سونے کی کان مل گئی ہے اور اب پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں اور باقی جسم یا تو اسپتال میں یا کسی قبر میں ہوگا۔ ممی ڈیڈی کے ہجوم نے بھی ڈیفنس کلفٹن میں معرکہ مار لیا ہے اور عارف علوی اب ان کے باضابطہ اور مستند لیڈر منتخب ہوگئے ہیں۔ گو محترمہ خوش بخت شجاعت بھی کوئی اتنی بری نہیں تھیں، صرف ایک ایسی رابطہ کمیٹی کے تحت کام کر رہی تھیں جس کو الطاف بھائی نے بیک جنبش فون تحلیل کر دیا جیسے ایک بڑے جرائم پیشہ گروہ کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہو۔ کراچی کیلئے متحدہ کی رابطہ کمیٹی اور ساری تنظیم کا ٹوٹ جانا بھی بڑی خوشخبری ہے۔ بقول الطاف بھائی اب کوئی نہ تو کسی سے چندہ وصول کر سکے گا نہ کوئی قبضہ مافیا کسی پلاٹ یا فلیٹ پر دھاوا بولے گا اور نہ کوئی چینی قسم کا کام ہو سکے گا۔ الطاف بھائی نے جو سب کو منع کر دیا تو پھر کراچی والوں کے تو مزے ہی ہو گئے۔ اب کیماڑی سے بندر روڈ تک جب گھوڑا گاڑی چلے گی تو کسی کو ڈر نہیں ہو گا کہ کوئی ان کا موبائل فون اچک لے گا یا پرس میں سے چند روپے کی آئس کریم کھانے کیلئے زہرہ حسین صاحبہ کی طرح ٹی ٹی سے گولی چلا دے گا۔ اب کراچی والے اپنے شہر کو روشنیاں بھی دوبارہ دے سکیں گے کیونکہ سعودی عرب 15/ارب ڈالر حکومت کو دے رہا ہے اور جیسے ہی بینک میں یہ رقم آتی ہے سارے بجلی کے کارخانے جو ایک عجیب و غریب قسم کے قرض کے چکری چکر کی وجہ سے بند کر دیئے گئے تھے فوراً کھول دیئے جائیں گے۔ بینک والوں کیلئے بھی خوشخبری ہے کہ 15/ارب ڈالر لوٹنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا کیونکہ الطاف بھائی نے ان سب غلط کام کرنے والوں سے کہہ دیا ہے کہ اب اس قسم کی گھٹیا حرکتیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ آخر کراچی والوں کو بھی چین سے رہنے کیلئے چین کی مدد چاہئے اور ایک خوشخبری یہ بھی ہے کہ نئی حکومت کے نئے وزیراعظم آئیں نہ آئیں چین کے وزیراعظم کا آنا ضروری تھا کیونکہ پچھلے پانچ سالوں میں ہمارے مقبول صدر جو 50 سے زیادہ مفاہمت کے سمجھوتے کر کے آئے ہیں اپنے سرکاری اور نجی چین کے دوروں میں ان میں کوئی خلل نہ ڈال پائے اور نئی حکومت کے آنے سے پہلے ہی ٹی وی کے سامنے ہنستے مسکراتے ان معاہدوں پر دستخط کرا دیئے جائیں۔ سو یہ خوشخبری بھی سنا دی گئی اور چین کے وزیراعظم کی وجہ سے ہمارے آنے والے اور جانے والے وزیراعظم کی بھی جناب صدر سے ملاقات ہوگئی تاکہ دوبارہ چارٹر آف ڈیموکریسی کی گلی سڑی لاش کو قبر سے نکال کر خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔ اس دفن شدہ چارٹر کی میاں نواز شریف کو بھی ابھی کچھ مہینے کیلئے تو ضرورت ہے کیونکہ صدر زرداری نے ابھی بہت سے دستخط کرنے ہیں اور اپنے باقی بچے ہوئے چار مہینوں میں وہ ساری قیمت وصول کرنی ہے جو ایوان صدارت سے نکلنے کے بعد شاید نہ مل سکے۔ ان کو ایک محفوظ راستہ بھی چاہئے اور وہ پرائیویٹ جیٹ بھی جو ان کو بوقت ایمرجنسی ایک گھنٹے میں بلاول ہاؤس سے دبئی کے کسی اسپتال فوراً پہنچا دے۔ میاں صاحب کو بھی صدر صاحب سے حلف اٹھانا ہے اور ابھی سندھ کارڈ کے کچھ بچے کھچے ٹکڑے بھی تو باقی ہیں۔ اویس مظفر صاحب کو وزیراعلیٰ بھی تو بنوانا ہے اور بھلے الطاف بھائی نے ساری غلط حرکتوں پر پابندی لگا دی ہو، قبضہ مافیا کو تو خوشخبری مل ہی گئی ہے کیونکہ اویس مظفر اور فیصل رضا عابدی (آج کل موصوف ہیں کہاں) تو یہ مان ہی چکے ہیں کہ ہزاروں افراد کو یہ لوگ مل کر زمینیں الاٹ کروا چکے ہیں۔ اب اویس صاحب وزیراعلیٰ بن گئے تو پھر سندھ اور کراچی والے جشن منانے کے تو حقدار ہیں۔
مجھے یہ ساری خوشخبریاں سن کر بھی سکتے سے باہر نکلنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ اس لئے کہ الطاف بھائی کے اقدامات کا مطلب جو دکھائی دے رہا ہے اس سے بہت گہرا ہے یعنی دال کالی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کراچی اور حیدرآباد میں ایک آدھ سیٹ چھوڑ کر دوبارہ ساری سیٹوں سے انتخاب جیتنے کے باوجود الطاف بھائی اتنے غصے میں کیوں ہیں۔ یہ تو صحیح ہے کہ اب ان کو ایک سیاسی جماعت کی طرف سے نیا چیلنج ضرور آیا ہے مگر ایسی بھی کیا پریشانی ہے۔ عمران خان کی تحریک اب الطاف بھائی کی تحریک کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے اور خان صاحب کے جنونیوں نے بغیر کسی رابطہ کمیٹی کے اور بغیر کسی چندہ اور پلاٹ یا فلیٹ پر قبضہ کئے اتنے ووٹ لے لئے ہیں کہ وہ کراچی والوں کیلئے ایک خوشخبری کا پیام بن گئی ہے۔ اب کراچی والے خوش ہیں کہ اگرخدانخواستہ الطاف بھائی کی تحریک کو کچھ ہوگیا یعنی اگر لندن والے زیادہ ہی ہڑبڑاگئے یا بقول ان کے سفیر کے مجبور ہوگئے کہ کوئی ایف آئی آر وغیرہ کاٹ دیں تو کراچی والوں کے پاس ایک اور تحریک سہارا دینے کیلئے موجود تو ہوگی۔ آخر سالہا سال سے وہ تحریک کے زیر سایہ زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں اور اب اگر ایک تحریک لندن سے اچانک تحلیل کر دی جاتی ہے تو کراچی والے تو یتیم ہو جائیں گے۔ سو انہوں نے فوراً ہی دوسری تحریک کا دامن تھام لیا ہے۔ مجھے پریشانی یہ ہے کہ لاکھوں ووٹ عمران خان کو کراچی میں ضرور ملے مگر سیٹ صرف ایک ہی مل سکی مگر اب جو بلدیاتی انتخابات ہونا ہیں ان میں تحریک انصاف کو زیادہ سیٹیں لینے سے کون روکے گا۔ اب تو الطاف بھائی نے وہ سارے غلط کام جو سالوں سے ہو رہے تھے رکوا دیئے ہیں اور خبر یہ ہے کہ جن عہدیداروں کو رابطہ کمیٹی سے باہر نکالا گیا ہے وہ فوراً ملک چھوڑ گئے ہیں کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ کہیں نئی طلوع ہونے والی تحریک انصاف انہیں بھرتی کی دعوت نہ دے دے اور وہ سارے گر اور علم و دانش کے ذخیرے جو انہوں نے سالوں میں جمع کئے ہیں کہیں دوسروں کے ہاتھ نہ لگ جائیں، ویسے تو ہمارے ملک کی روایت ہی یہ ہے کہ جو اقتدار سے اترتا ہے سیدھا دبئی کا رخ ضرور کرتا ہے، چاہے علاج کرانے یا سیر کرنے یا اپنے بینک کے مینجر کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے۔ آخر دبئی ہے اورکس مرض کی دوا۔ یاد ہی ہوگا سب کو جب عراق کی جنگ چھڑی اور ابھی حال ہی میں عرب ممالک میں بہار کی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں تو ارب ہا ارب ڈالر دبئی ہی تو آ گئے تھے۔ خود ہمارے انمول لیڈر جنرل مشرف یا بے نظیر یا اسحاق ڈار یا زرداری صاحب یا صدرالدین ہاشوانی یا کوئی اور بشمول ہمارے سندھ کے گورنر عشرت العباد صاحب فوراً دبئی ہی تو روانہ ہوتے ہیں۔ میاں صاحب ذرا آگے سعودیہ چلے جاتے ہیں مگر اب ان کے دوست 15/ارب کے انمول تحفے کے ساتھ ان کی حکومت کو خوشخبری دے رہے ہیں۔دبئی والوں نے بھی بہت مدد کی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ وہاں اربوں ڈالر صرف جاتے ہیں وہاں سے واپس نہیں آتے۔ اب اوگرا کے جناب توقیر صادق بھی تو کوئی 80/ارب لے کر وہاں بیٹھ گئے ہیں اور واپسی کا کوئی ارادہ نہیں۔ لہٰذا کراچی والوں کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے۔ اگر الطاف بھائی نے جلدی سے نئی رابطہ کمیٹی بنا کر حالات کو معمول پر واپس نہیں آنے دیا تو پھر کراچی والے گھرگھر اور محلہ محلہ بھتہ خوروں اور چندہ جمع کرنے والوں کی آپس میں جنگ و جدل دیکھیں گے اور تحریک انصاف والے انتظار کریں گے کہ کب یہ جنگ ختم ہو اورکون ہارے یا جیتے اور پھرکون بندوق پھینک کر ان کی تحریک میں شامل ہو، جنہیں دبئی جانا ہے وہ تو جائیں گے۔
تازہ ترین