• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں راقم کو کینیڈا اور امریکہ میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ اس دوران بعض فورمز میں جانا ہوا اور ایسے لوگوں سے ملاقات بھی رہی، جو پاک، بھارت تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین دوستی نہیں تو ورکنگ ریلیشن شپ کے حامی ضرور ہیں، اور ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ تمام تر عصبیت اور جذباتیت کے باوجود، فریقین ہی نہیں، پورے خطے کی فلاح اسی میں ہے۔ یہ ہرگز نہ سمجھئے گا کہ خدانخواستہ میری حب الوطنی مشکوک ہوگئی ہے، یا بھارتی لابی نے شیشے میں اتار لیا ہے۔ ممکن ہے یہ سوچ نئی بھی نہ ہو، مگر فوڈ فارتھاٹ ضرور ہے، اور پاک بھارت تعلقات کے روایتی بیانیے سے ذرا مختلف بھی۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان کانگریس حکومتوں کے ساتھ معاملات کرنے میں آسانی محسوس کرتا آیا ہے۔ (یہ الگ بات کہ نتیجہ اس کا بھی کچھ نہیں نکلا)۔ جبکہ بی جے پی اور اس کی قیادت سے اسلام آباد نے ہمیشہ خوف محسوس کیا، اور اسے پاکستان دشمن سمجھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو تو ایک خاص زاویے اور مخصوص پس منظر میں دیکھا گیا۔ جس کے ہاتھ گجراتی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے اور جو خاکم بدہن پاکستان کو نابود کرنے کا عزم لے کر وزارت عظمٰی کے سنگھاسن پر بیٹھا ہے۔ جب کسی کا منفی امیج بن جائے تو اس کی سیدھی بات بھی الٹی لگتی ہے۔ یہی مودی صاحب کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ حالانکہ قرائن بتاتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات اس کی پالیسی بریف کا حصہ ہے۔ وہ پاکستان کو بھوٹان اور نیپال کے ساتھ بریکٹ نہیں کرتا۔ ایک مہربان نے تو موصوف کی اس سوچ کا اعادہ بھی کیا کہ بھارت پاکستان کو نگل سکتا ہے اور نہ پاکستان بھارت کو۔ یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کے حوالے سے اگر کسی قسم کے بریک تھرو کی توقع کی جاسکتی ہے، تو اس کا سر بندھ بی جے پی سرکار ہی کر پائے گی۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کانگریس سرکار کے حددرجہ محتاط بلکہ منفی رویے کا ذکر بھی ہوا کہ بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ شیام سرن نے دسمبر 2012ء میں ایک فورم پر کہا تھا کہ ’’ماضی کو بہرصورت یاد رکھنا ہوگا۔ دونوں ملکوں کے مابین مسائل ہیں اور وہ تصادم کی راہ پر رہے ہیں۔ ٹریک ٹو سمیت ماضی کی کاوشیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائیں، لہٰذا قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا‘‘۔ کانگریس سرکار کے ایک حلیم اور وضع دار وزیر خارجہ سلمان خورشید کے 2013ء کے اس انٹرویو کا بھی ذکر ہوا۔ جس میں دو طرفہ تعلقات کو بڑھاوا دینے کے حوالے سے موصوف نے کہا تھا کہ ’’غلطیوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ پیش قدمی احتیاط سے کی جائے۔ پیس پراسس کی رفتار پر خاص توجہ دینا ہوگی۔ جسے قابو سے باہر نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ کانگریس کی اینٹی پاکستان پالیسی کے ضمن میں 1971ء کے پرآشوب حالات اور سقوط ڈھاکا کے موقع پر اندرا گاندھی کی دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبونے کی بات ہوئی، تو اسے کائونٹر کرنے کے لئے ایک صاحب نے مودی صاحب کے بنگلہ دیش کے دورے کے فرمودات کا حوالہ دیا کہ ان سے خیر کی توقع رکھنا بھی تو عبث ہے۔ وہ اپنی سیکورٹی اور ڈیفنس پالیسی کو نہایت مہارت کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں اور پاکستان کو دبائو میں رکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
بایں ہمہ زیادہ تر احباب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ نریندر مودی اور ان کی جماعت کانگریس کی نسبت کہیں زیادہ پرو پاکستان واقع ہوئی ہے اور اپنی اس تھیوری کی حمایت میں مودی کی تقریب حلف برداری میں نواز شریف کی شرکت سے لے کر دسمبر 2015ء کے لاہور کے طوفانی دورے کا حوالہ دیتے ہیں۔ جہاں ان کی گھریلو قسم کی مصروفیات نے بہتوں کو حیران بلکہ پریشان کردیا تھا اور پہلی سرزنش ان کے پیشرو من موہن سنگھ جی کی طرف سے آئی تھی کہ بلاوجہ لاہور بھاگے جانے اور اس قدر جذباتی ہونے کی کیا تک تھی؟ ان کی اس حرکت سے بھارت کی سبکی ہوئی ہے۔ من موہن سنگھ نے بجا فرمایا، ’’کیونکہ اس معاملے میں ان کا رویہ حددرجہ غیرجذباتی رہا۔ چکوال سے تعلق رکھنے کے باوجود نہ تو کبھی انہیں جنم بھومی کی یاد آئی اور نہ کبھی ادھر کا رخ کیا۔ ایک صاحب کا اصرار تھا کہ پاکستان کے ساتھ بامعنی مذاکرات اور باہمی تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دینے کے حوالے سے بھارت کے اندر ایک نئی سوچ ابھر رہی ہے۔ جسے مودی سرکار کی اشیرباد بھی حاصل ہے۔ جو فی الحقیقت علاقائی بکھیڑوں سے نکل کر عالمی منظرنامہ پر نقوش ثبت کرنے کی فکر میں ہے۔ لہٰذا مقامی مسائل و تنازعات سے نمٹنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے اور اس حوالے سے راہ میں حائل رکاوٹ کو ہٹانے کے لئے قابل عمل حکمت عملی کی بات ہورہی ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں یہ جملہ متعدد بار گونجا ہے کہ پاکستان اتنا اہم ضرور ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور بھارت کے قدر کاٹھ سے صرف نظر پاکستان کے لئے بھی ممکن نہیں۔
انڈین فارن پالیسی کے معروف تجزیہ نگار اور کارینگی انڈیا کے ڈائریکٹر سی راجہ موہن کے ایک آرٹیکل "How Prime Minister Modi can sustain India's Pakistan dialogue? پر سیر حاصل گفتگو بھی ہوئی۔ جس میں موصوف نے پاک۔ بھارت مذاکرات کے حوالے سے اچھوتی قسم کی تجاویز دی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اسے بیورو کریسی کے چنگل سے نکال کر اہل سیاست کے حوالے کرنا ہوگا۔ اسے میڈیا کی نظروں سے اوجھل بھی رکھنا ہوگا۔ تاکہ تعمیر سے پہلے ہی تخریب کا عمل شروع نہ ہوجائے۔ اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کے عمل میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیڈروں کے سرحد پار دوروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پاکستان کے ساتھ مشترک بارڈر والی ریاستوں، جموں کشمیر، پنجاب، راجستھان اور گجرات کے چیف منسٹرز کو بھی اس عمل کا حصہ بنایا جائے اور انہیں بھی پاکستان کے دوروں پر بھیجا جائے۔ عام شہریوں کے لئے ویزا پالیسی کو نرم بنایا جائے۔ کشمیر پر بات چیت کے لئے دونوں طرف سے خصوصی ایلچیوں کا اہتمام کیا جائے۔ جیسا کہ من موہن سنگھ اور پرویز مشرف نے 2005-7ء کے زمانے میں کیا تھا۔ ماضی میں یونائیٹڈ پراگریسو الائنس (UPA) نئی دہلی میں برسر اقتدار تھا تو بعض معاملات میں دونوں ملک معاہدوں کے قریب پہنچ گئے تھے۔ ان فائلوں کو پھر سے کھنگالنے اور ان لائنوں پر نئے سرے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس سے بعض معاملات میں پیش رفت کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ غرض ڈاکٹر سی راجہ موہن کی یہ اسٹڈی اس موضوع پر روایتی نگارشات سے ہٹ کر ہے اور اپنے اندر معنی لئے ہوئے ہے۔ اس قسم کی اسٹڈیز ہمارے ہاں بھی ہونا چاہئیں۔ بلکہ مشترکہ اسٹیڈی گروپس کی مساعی شاید زیادہ سودمند ہو۔
مودی صاحب کی لاہور یاترا سے چند ہفتے پیشتر دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ اور سیکورٹی ایڈوائزروں کی ملاقاتوں میں دو طرفہ مذاکرات کے احیاء کی نوید سنائی دی تھی۔ جسے ماضی کے کمپوزٹ ڈائیلاگ کی بجائے کمپرہنسو ڈائیلاگ کا نام دیا گیا تھا۔ مگر بیل منڈھے چڑھی نہ تھی کہ پٹھان کوٹ بیچ میں آگیا۔ ڈائیلاگ کے آغاز کے لئے 2016ء کے موسم بہار اور گرما کا ذکر سنا تھا۔ بہار تو بیت گئی، گرمیاں شروع ہیں اور امید رکھنا چاہئے کہ سلسلہ جنبانی کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اسی برس پاکستان سارک سربراہی کانفرنس ہوسٹ کرنے جارہا ہے۔ جس میں مودی صاحب کی آمد بھی متوقع ہے۔ سارک سمٹ اور وزیر اعظم ہند کے وزٹ کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ڈائیلاگ میں مزید دیر نہ کی جائے۔ مذکورہ وزٹ دونوں ملکوں کے تعلقات اور ڈائیلاگ کے حوالے سے مودی صاحب کی بدلی ہوئی سوچ کا ٹیسٹ ہوگا۔ اور اس سے بھی بڑا ٹیسٹ یہ ہماری سفارت کاری کا بھی ہے۔
تازہ ترین