• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان انتخابات کے بعد ایک نئی سمت کی طرف جا رہا ہے اور انتخابات میں کامیاب ہونے والی اکثریتی پارٹی پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کرنے اور ان کی مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ میاں نواز شریف کے اس اعلان کے بعد بہت سارے سوالات پیدا ہو رہے ہیں اور ان میں سے سرفہرست یہ ہے کہ کیا وزیرستان اور قبائل میں موجود تمام مسلح گروپ ان مذاکرات کا حصہ ہوں گے یا یہ صرف کسی ایک گروپ تک محدود ہوں گے۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق وزیرستان اور قبائل میں تقریباً 32 گروپ موجود ہیں اور اسی طرح بعض گروپوں کا وجود افغانستان کے پاکستان سے متصل سرحدی علاقوں میں بھی ہے ۔ کیا وہ سب ان مذاکرات کو مانیں گے اور ان کی شرائط کیا ہوں گی ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنگوں کے بعد بھی مذاکرات ہی آخری حل ہوا کرتے ہیں لیکن پاکستان کے قبائل اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود مسلح گروپوں کی کوئی ایک قیادت اب تک سامنے نہیں آئی ہے۔ اگر تمام گروپ حکیم اللہ محسود کی قیادت میں سامنے آ جاتے ہیں تو مذاکرات کا راستہ آسان ہو جائے گا اور پھر سوال پیدا ہو گا کہ کیا القاعدہ اور تحریک اسلامی ازبکستان بھی ان مذاکرات کو اور اس کے نتیجے میں کئے جانے والے فیصلوں کو قبول کرے گی؟ فی الوقت تو ایسا نظر نہیں آتا۔ الیکشن سے کچھ عرصہ قبل پہلے اے این پی نے اور پھر مولانا فضل الرحمن نے آل پارٹیز کانفرنس کی تھی ۔ اس آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نواز شریف سمیت تمام قومی قیادت شریک تھی اور مولانا فضل الرحمن کی آل پارٹیز کانفرنس میں قبائلی جرگے کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرے لیکن ہم نے الیکشن کے دوران ان مذاکرات کی کوئی مثبت پیشرفت نہیں دیکھی۔ اب تک تحریک طالبان پاکستان اپنے جو مطالبات سامنے لائی ہے اس میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ اور امریکہ سے تعلقات کا خاتمہ ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ راقم الحروف کو تو یہ نظر نہیں آتا ۔
سوال تو یہ بھی پیدا ہو گا کہ ان مذاکرات کا ضامن کون ہو گا؟ کیونکہ اس سے قبل مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد پر بھی حملے ہو چکے ہیں۔ اگر پاکستان کی سیاسی اور مذہبی قیادت پاکستان کی حکومت کی ضامن ہو گی تو تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروپوں کا ضامن کون ہو گا؟ کیا مولانا سمیع الحق یا مولانا فضل الرحمن اتنی قوت اور طاقت رکھتے ہیں کہ وہ کسی معاہدے کی صورت میں فریقین کو منحرف نہ ہونے دیں اور مذاکرات کا آغاز کہاں سے ہو گا؟ میاں نواز شریف کی مذاکرات کی سوچ تمام قومی قیادت کی سوچ کی عکاسی ہے لیکن اس میں پیشرفت کے لئے بہت غوروفکر کی ضرورت ہے اور سب سے اہم بات تو عسکری قیادت سے مشاورت کی ہے کہ وہ کہاں پر کھڑے ہیں اور اگر عسکری قیادت بھی سیاسی قیادت کی ہمنوا ہے تو پھر یکسوئی کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے سے پہلے اپنے پڑوسی ممالک میں بھی نظر ڈالنی ہو گی اور اگر ہم گزشتہ سال کے بڑے واقعات دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ کامرہ بیس پر حملہ ہو یا پشاور ایئرپورٹ پر حملہ ہو یا سرحد پار سے آ کر پاک فوج کے جوانوں کے سر قلم کر کے لے جانے کا سانحہ ہو تو ان سب واقعات میں تو وہ لوگ نظر آتے ہیں جو پاکستان سے باہر افغانستان کے علاقوں نورستان اور کُنڑ میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ یہ ایسا عمل نہیں ہے کہ جس کی سمت اور جس کا راستہ متعین ہو اور منزل سامنے ہو ۔ ماضی میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے ہیں اور ان مذاکرات کی ناکامی کے اسباب میں سب سے اہم وہ بیرونی مداخلت ہے جس کا حل تلاش کیا جانا ضروری ہے۔ نیک محمد سے لے کر بیت اللہ محسود تک مذاکرات کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا لیکن بالآخر نتیجہ وہ نکلا جس کا کسی کو تصور بھی نہیں تھا۔ کمانڈر نیک محمد نے اس وقت کے کور کمانڈر پشاور کو ہار پہناتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ ان کو پیسہ اور اسلحہ کون دینے کو تیار ہے لیکن وہ مذاکرات کی میز پر آ گئے ہیں اور پھر انہی قوتوں نے چند روز بعد ہی کمانڈر نیک محمد کو ڈرون کا نشانہ بنا دیا ۔ بیرونی قوتوں کا موقف یہ ہے کہ وزیرستان میں اور افغانستان کے پاکستان سے متصل سرحدی علاقوں میں جو ٹریننگ کیمپ ہیں وہاں سے ان کے ممالک کے لوگ تربیت لے کر جاتے ہیں اور ان کے ملکوں میں تخریب کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا مذاکرات کے دوران یا اس سے قبل عالمی دنیا کو ہم یہ ضمانت دے سکتے ہیں کہ اب ایسا نہیں ہو گا۔ اگر نہیں تو پھر ان مذاکرات کا آغاز ہمارے لئے مشکل ہو گا اور اس کے نتیجے میں جو مصائب و مشکلات آئیں گی ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم تیار ہوں گے ۔یہ نعرہ تو بہت دلکش اور دلنشین ہے کہ ہم عالم کفر کو الوداع کرنے کا نعرہ لگائیں لیکن کیا یہ حقیقت میں بدل سکتا ہے؟
اس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے اور عالم کفر کو الوداع کرنے کے بعد کیا عالم اسلام ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا یہ ایک غور طلب سوال ہے۔ اگرچہ میاں نواز شریف کے مراسم عالم اسلام میں آصف علی زرداری سے کہیں بہتر ہیں لیکن کیا طالبان مذاکرات کے معاملے پر بھی یہ بہتری باقی رہے گی؟ اگر ہم انتخابات کے بعد کے تناظر میں دیکھیں تو صرف سعودی عرب ہی واحد ملک نظر آتا ہے جس کے سفیر نے یہ واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کی دوستی پاکستانی قوم کے ساتھ ہے اور حالات کیسے بھی ہوں وہ اس دوستی کو برقرار رکھیں گے اور یہ بات بھی درست ہے کہ حالیہ الیکشن میں سعودی عرب نے کسی جماعت کی حمایت نہیں کی تھی۔ سعودی عرب کا موقف یہی تھا کہ ہم پاکستانی قوم کے ساتھ ہیں اور جو بھی آئے گا ہم اس کی حمایت کریں گے۔ راقم الحروف کی رائے کے مطابق پاکستان طالبان سے مذاکرات سے پہلے میاں نواز شریف کو ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہئے جس میں ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں اور عسکری قیادت شریک ہو اور اس میں مذاکرات کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کیا جائے اور ایک متفقہ لائحہ عمل بنایا جائے اور مذاکرات کی کیا شرائط ہوں گی، اس کی مثبت اور منفی کیا نتائج ہوں گے، اس پر حقیقت پسندانہ غور کیا جائے ایسا نہ ہو کہ جلد بازی میں کوئی ایسا فیصلہ کر لیا جائے جس کے نتائج ماضی کی طرح ہمیں بھگتنے پڑیں۔ تحریک طالبان پاکستان کو بھی اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ اگر مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے تو وہ کتنی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں اور کتنی نہیں۔ اگر 2014ء کے بعد کا منظر آج کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی شدید لپیٹ میں ہو گا اور اس وقت افغان طالبان کو پاکستان کے عسکری گروپوں کی زیادہ ضرورت ہو گی کیا ان مذاکرات کے آغاز سے قبل اس پر بھی کچھ غور کیا جائے گا اور اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان کا مسئلہ حل کرنا ہے اور ہمارا افغانستان کے معاملات سے کوئی واسطہ نہیں ہے تو کیا کابل میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا بھی یہی رویہ ہو گا؟ مذاکرات ہی آخری حل ہوا کرتے ہیں لیکن مذاکرات سے قبل مثبت اور منفی نتائج کے بارے میں غور وفکر قومی قیادت کی ذمہ داری ہے ۔ میاں نواز شریف نے قومی قیادت کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس میں کئے جانے والے فیصلے کی تائید کی ہے اور اس کا اعلان کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل کتنا ممکن ہو پاتا ہے اور تحریک طالبان پاکستان ، تحریک اسلامی ازبکستان ، القاعدہ ، دیگر عرب اور پاکستان عسکری گروپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے ۔
تازہ ترین