• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
12 مئی 2013ء کو سید ضمیرجعفری کو ہم سے رخصت ہوئے چودہ سال بیت گئے۔صبح اہل خانہ سمیت مندرہ، گوجر خان کے قریب اپنے والدین کے مزار پر حاضری دی اور ان کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ پڑھی۔والد کی وفات 1999ءء میں ہوئی اور والدہ 2001 ء ئمیں ہم سے بچھڑ کر والد محترم کے پہلو میں آرام فرما ہوئیں۔ مزے کی بات یہ دونوں زندگی میں تو اس قدر قریب نہ تھے جتنے کہ اب ہیں!والد محترم نے غالباً یہ شعر اسی موقع کے لیے لکھا تھا:
میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے +میں بھی ہوں آرام سے اور وہ بھی ہے آرام سے
قارئین کرام! پدرانہ شفقت سے محروم ،میں خاموش کھڑا قبر پر انہی کا لکھا ہوا یہ کتبہ پڑھتا رہا:
قبر میں غم نہ کوئی سختی ہے +شہر اجڑ جائے تو یہ بستی ہے
کیسی آسائش بے رختی ہے+ یہ میری آخری خوش بختی ہے
کتبہ پڑھنے کے بعد مجھے ان کے یہ شعر بہت یاد آئے:
یا رب مجھے کرم سے اپنے
سورج کی طرح طلوع رکھنا
سورج کی طرح غروب کرنا
کچھ انساں یوں مر جاتے ہیں+ جیسے اپنے گھر جاتے ہیں
قبر پہ رونق رہ جاتی ہے+ کثر کے رنگ اتر جاتے ہیں
کیسا وقت ضمیر یہ آیا + منہ پہ لوگ مکر جاتے ہیں
اس بار کسی ادبی تقریب کا اہتمام اس لیے نہ کیا کیونکہ برسی سے ایک روز پہلے ملک میں الیکشن ہونا تھے۔ اچھا ہی کیا ورنہ اگلے روز برسی دھرنے میں دھر لی جاتی۔ اللہ سیدضمیرجعفری جیسے اللہ لوگوں کی خوب سنتا ہے کیونکہ برسی سے دو ہفتے قبل جناب جاوید اقبال اعوان ،سیکرٹری منسٹری آف پوسٹل سروس کا ٹیلیفون آیا جن سے پہلی مرتبہ گفتگو کاشرف حاصل ہوا اور انہوں نے یہ خوش خبری سنائی کہ حکومت پاکستان سیدضمیرجعفری کی برسی پر یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کر رہی ہے۔ یہ خبر سن کر مجھے اپنے والد کے ساتھ ساتھ حکومت کے ان باشعورلوگوں جو اپنے قومی دانشوروں کو یاد رکھتے ہیں،پر فخر ہوا۔29مئی یعنی آج کے روز جناب مسعودمفتی کی زیرصدارت اسلام آباد میں اکادمی آف لیٹرز کے ہال میں ساڑھے چاربجے ڈاک ٹکٹ کے اجراء کی تقریب منعقد کی جا رہی ہے جس میں ان کے عقیدت مند شریک ہونگے۔
قارئین کرام! سیدضمیرجعفری کی وفات کے بعدانکی شخصیت کے متعلق بہت سے دانشوروں نے تفصیل سے لکھا لیکن آج توانائی اور کالمی قلت کے باعث چند اقتسابات پیش خدمت ہیں۔مشتاق احمد یوسفی فرماتے ہیں”ایک ایسا بھی خداکابندہ دیکھا جسے اس کی زندگی میں اور اس کے رخصت ہونے کے بعد بھی کسی نے برانہیں کہا۔یہ فوزِعظیم اوررتبہ بلند جسے ملا،اسے سب کچھ مل گیا۔سیدضمیرجعفری مرحوم ومغفور کو سب نے اچھااس لیے کہا کہ وہ واقعی اچھے تھے۔انہوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا۔کسی کو برا نہیں کہا۔کسی کے برے میں نہ تھے اورایسا کسی مصلحت ،عافیت بینی یا صلح جوئی کی پالیسی کے تحت نہیں کیا بلکہ انہوں نے سب سے محبت کی ۔جوبے لاگ،بے غرض اورغیرمشروط تھی“۔عطاء الحق قاسمی کے بقول ”پاکستان میں ضمیرصاحب کے بارے میں میراتاثر یہ تھا کہ وہ پبلک ریلیشنگ کے آدمی ہیں اور ہرشخص کی تعریف کرنا اوراس کو گرم جوشی سے ملنا ان کی”پیشہ ورانہ“مجبوری ہے لیکن بھارت میں ان کے ساتھ جو وقت گزرامیں ان پندرہ دنوں میں ادیبوں اورشاعروں کی غیبت کے لیے ترس گیا۔میں جس کی غیبت کرتا،ضمیرصاحب اس کی شخصیت کا کوئی ایسا روشن پہلوبیان کرنے لگتے جو واقعی اس میں موجود ہوتاتھا۔تب میں جان گیا کہ صوفیوں کے خاندان کا یہ ”دنیا دار“خود بھی اندر سے پوری طرح صوفی ہے جو انسانوں سے محبت کے علاوہ کوئی رشتہ استوار ہی نہیں کرسکتا۔چنانچہ میں نے ان کے سامنے کسی کی برائی بیان کرنے میں اپنا وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا،جس کے نتیجے میں میرے منہ کو ”اُلّی“(پھپھوندی)سی لگ گئی جس سے پاکستان واپسی پرنجات ملی“۔ آخرمیں جناب اشفاق احمد نے کیا خوب لکھا ”ضمیرجعفری قسم کے لوگ عجیب وغریب مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں۔ہرملک میں انکی تعداد دس پندرہ دانوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔لیکن یہ ہرملک میں ہوتے ضرورہیں۔اگر یہ نہ ہوں تو اس ملک کی آبادی،بے کاری اوربدکاری کے درمیان سے گزر کر تباہ کاری کے ڈھنڈار ویرانے میں جا کر ختم ہو جائے اور ساری بستیاں بھنبھور سی بن کر رہ جائیں“۔
قارئین کرام!بلاشک وشبہ میں خود کوبحیثیتِ فرزند خوش قسمت سمجھتا ہوں جسے ایسا والد نصیب ہوا۔ایک مشفّق باپ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی محب الوطنی ،خوش اسلوبی،نیک نیتی،اعلیٰ ظرفی اور اپنے ادبی مقام کی بنیاد پر بلند پایہ دانشوروں کے علاوہ اہل وطن میں بھی نیک نام اور اعلیٰ رتبہ پایا۔ اس خوشی کو امریکہ میں مقیم اپنے اکلوتے بھائی امتنان ضمیر کے ساتھ بانٹنے کی غرض سے اس تقریب کے دعوت نامے کی سکین شدہ کاپی ای میل کی اور کچھ ہی دیربعداس کی بھرائی ہوئی آواز میں ٹیلیفون کال موصول ہوئی جو اس کے آبدیدہ ہونے کے باعث کچھ مختصر واقع ہوئی ۔کال کے منقطع ہونے پر میں اسے یہSMS ہی کر سکا !
"We are proud of our father indeed"
تازہ ترین