لاہور (صابر شاہ )چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی دو سابق وزرأ اعظم میاں محمد نواز شریف اور سید یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں وزیراعظم سیکرٹریٹ کے شکایات سیل کے سربراہ رہ چکے ہیں ۔ دوسری جانب کیا آج ہونے والے سینیٹ الیکشن میں دھوکہ دہی اور غداری ایک بار پھر سینیٹ کو دغدار کردے گی ؟ کیونکہ 1947ء سے راتوں رات انحراف کرجانے کے واقعے تاریخ میں ایک آزمائش رہے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی کو پچھلی مختلف حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے لیکن اب دوبارہ چیئرمین سینیٹ کیلئے انہیں ان دو بڑی پارٹیوں نواز شریف کی مسلم لیگ ن اور آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل نہیں ہوگی جو ماضی میں انہیں اہم ذمہ داریاں دیتی رہی ہیں۔
مارچ 2018ء میں وہ چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے تو انہیں مسلم لیگ ن کے راجہ ظفر الحق کے46؍ کے مقابلے میں 57؍ ووٹ ملے تھے۔ انہیں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے نامزد کیا تھا اور پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ان کی پشت پر تھیں۔
میر صادق سنجرانی کو 1998ء میں نواز شریف نے وزیراعظم سیکرٹریٹ کے شکایات سیل کا کوآرڈنیٹر بنایا تھا نواز حکومت کا تختہ الٹے جانے تک وہ اس عہدے پر رہے۔ یوسف رضا گیلانی نے بھی 2008ء میں وزارت عظمیٰ ملتے ہی سنجرانی ہی کو وزیراعظم سیکرٹریٹ کے شکایات سیل کا سربراہ بنادیا۔وہ پانچ سال اس عہدے پر رہے۔ سنجرانی14؍ اپریل کو 43؍ سال کے ہوں گے۔ ان کے والد خان محمد آصف سنجرانی قبائلی سردار ہیں اور چاغی ضلع کونسل کے ممبر رہے۔ صادق سنجرانی پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔
ایک بھائی اعجاز سنجرانی وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مشیر رہے۔ ایک اور بھائی سینیٹر محمد رازق سنجرانی سینڈک کاپر گولڈ پراجیکٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن نے ایوان بالا میں تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی جس پر یکم اگست 2019 کو رائے شماری ہوئی تو یہ 3 ووٹوں سے مسترد ہوگئی تھی۔
اگر صادق سنجرانی جمعہ کو اپنے حریف یوسف رضا گیلانی کو شکست دے کر ایک مرتبہ پھر چیئرمین سینٹ بن جاتے ہیں تو انہیں اپوزیشن کی سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اپوزیشن والے تیار بیٹھے ہیں کہ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں پر راتوں رات وفاداریاں تبدیل کرانے، دھوکا دہی کی حوصلہ افزائی، ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی انجینئرنگ کا الزام عائد کر سکیں۔
میڈیا گزشتہ ایک ہفتے سے رپورٹ کر رہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے پاس 51 سینیٹرز کی حمایت ہے جبکہ سنجرانی کے پاس 47 کی حمایت ہے، لہٰذا چیئرمین کے انتخاب کے معاملے میں حکومت کی کامیابی کے نتیجے میں ملک کے سیاسی اکھاڑے میں بڑی ہلچل مچا سکتی ہے، ملکی تاریخ میں 1947 سے لیکر سیاست پہلے ہی داغ دار ہے اور راتوں رات ارکان پارلیمنٹ کے وفاداریاں تبدیل کرنے کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔
جمعرات کو حکومت نے ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے سندھ اسمبلی سے تعلق رکھنے والے اپنی پارٹی کے دو ارکان کو نکال دیا کیونکہ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی اپنی پارٹی سے مزید ارکان پارلیمنٹ کو نکال سکتی ہے کیونکہ انہوں نے پارٹی پالیسی کے مطابق عمل نہیں کیا تھا۔
تاہم، ایسا ہونا مشکل ہے۔ اگر ملک کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ 2019 میں جب کثیر الجماعتی اپوزیشن اتحاد نے ووٹ کے ذریعے چیئرمین صادق سنجرانی کو ہٹانے کی ناکام کوشش کی تھی، اس وقت نون لیگ نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے باغی ارکان کیخلاف کارروائی سے گریز کیا تھا۔ آصف زرداری کی زیر قیادت پیپلز پارٹی نے اُس وقت صادق سنجرانی کی حمایت کی تھی۔
اس سے تھوڑا پہلے کا واقعہ دیکھیں تو 3؍ مارچ 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں نون لیگ والوں نے ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عائد کیے اور صحافی برادری کی اکثریت کو بھی ہارس ٹریڈنگ کی باز گشت سنائی دی، جس کے بعد سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن گئے۔ اس الیکشن سے قبل، نون لیگ کے امیدواروں کو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آزاد ارکان قرار دیا، اس کے بعد سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ اپوزیشن کو مل گیا جس میں سنجرانی اور سلیم مانڈوی والا نے بالترتیب یہ عہدے سنبھالے۔
28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیا تھا۔ اس کے بعد الیکشن ایکٹ 2017ء منظور کیا گیا جس میں نواز شریف کو اجازت دی گئی کہ وہ نا اہل قرار دیے جانے کے باوجود پارٹی کے سربراہ رہ سکتے ہیں۔
تاہم، بعد میں سپریم کورٹ نے 21؍ فروری 2018ء کو نواز شریف کو پارٹی صدر کا عہدہ رکھنے کیلئے بھی نا اہل قرار دیدیا، بحیثیت پارٹی صدر ان کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دیا گیا جس میں ان کی طرف سے جاری کردہ سینیٹ الیکشن کے ٹکٹس بھی کالعدم قرار پائے۔ اُس وقت عمران خان اپوزیشن میں تھے اور انہوں نے بھی ہارس ٹریڈنگ کیخلاف آواز بلند کی تھی جبکہ انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے 7؍ مارچ 2018ء کو اعلان کیا کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کی تحقیقات کرے گا۔
عمران خان نے جن ارکان کا نام ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے لیا تھا ان میں نرگس علی، دینا ناز، فوزیہ بی بی، نسیم حیات، نگینہ خان، سردار ادریس، عبید، زاہد درانی، قربان خان، وجیہہ الزماں، امجد آفریدی، بابر سلیم، عارف یوسف، یاسین خلیل، جاوید نسیم، فیصل زمان، سمیع اللہ اور دو دیگر شامل ہیں۔
مئی 2018ء کو پی ٹی آئی نے پارٹی سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا کے 13؍ ارکان صوبائی اسمبلی کو ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کے تحت پارٹی سے نکال دیا۔
جنگ اور جیو ٹی وی نیٹ ورک کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ملک میں سیاسی بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوگیا جس میں تمام تر اقدار اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ وزیراعظم خواجہ نظام الدین کو پہلے نکال باہر کیا گیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کرتے ہوئے غلام محمد کے غیر قانونی اقدام کو جائز قرار دیا۔
اس کے بعد سلسلہ شروع ہوگیا، وزیراعظم محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی کو بھی نکال باہر کیا گیا۔ آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نوُن ان شخصیات میں شامل ہیں جنہیں طاقتور حلقے کے حق میں وفاداریاں تبدیل کرنے والوں نے ڈسا تاکہ اصل جمہوری قیادت کو ختم کیا جا سکے۔
27؍ اکتوبر 1958ء کو پہلے مارشل لاء تک صورتحال یہ تھی کہ اقتدار عوام کے ہاتھ میں نہ رہا۔ کئی پاکستانی سیاست دانوں نے مسلم لیگ چھوڑ کر وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے نئی بنائی جانے والی جماعت ریپبلکن پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اس کے کچھ برسوں بعد ریپبلکن پارٹی کے یہی ارکان واپس مسلم لیگ کی طرف لوٹ آئے تاہم اس وقت تک مسلم لیگ کئی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔