• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ الیکشن کسی پارٹی کی فتح یا شکست کے حوالے سے نہیں ،اس لئے بے حد اہم تھے کہ ملک کی ساکھ اور عزت ہی نہیں اسکی بقا بھی ان سے وابستہ تھی۔
معاشرے کے ہر طبقے کے لوگ غیر معمولی تعداد میں گھروں سے باہرنکلے اور انہوں نے ملک کے تحفظ پر مہر لگا کر اس کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنا دیا ۔ تاریخ کے کسی موڑ پر وقوع پذیر ہونے والے بعض واقعات ملکوں کا وقار بلند کر دیتے ہیں اور کچھ واقعات ملکوں کی عزت خاک میں ملا دیتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے ملک کی ساکھ کونقصان پہنچایا اور 3 نومبر2007کو ججوں کی گرفتاری کے وحشیانہ اقدام نے ملک کو چھٹی/ساتویں صدی کے دور میں دھکیل دیا۔ میں ان دنوں ڈی آ ئی جی کوہاٹ تھا۔ کرک کے دورے کے بعد واپس رہائش گاہ پر پہنچا اور ٹی وی لگایا تو سکرینیں ایک سیاہ رو کے سیاہ اقدام کے ذکر سے سیاہ تھیں۔ امریکہ، برطانیہ، آسٹریا اور سپین سے دوستوں اور جاننے والوں کے فون آنا شروع ہو گئے۔ ملک سے کوسوں دور مگر ملک سے بے پناہ محبت کرنے والے سبھی لوگوں کی آواز میں بے پناہ دکھ اور درد تھا۔ سبھی ملک کی رسوائی پر رنجیدہ تھے۔ اکثر بات کرتے ہوئے روتے رہے ۔ سب یہ پوچھ رہے تھے کہ ہم یہاں لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟ راقم نے اسی رات انسپکٹر جنرل پولیس سے درخواست کی کہ میں اس غیر آئینی سیٹ اپ میں کام کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں، کوہاٹ میں کسی اور افسر کوتعینات کر دیا جائے۔ 3نومبر2007 کی غیر آئینی حکومت نے گرفتاریوں کے احکامات جاری کئے، مگر کوہاٹ میں کسی وکیل، صحافی یا سیاسی ورکر کو گرفتار نہیں کیا گیا۔خیر چھوڑیں اس سیاہ دور کو بھول جائیں اور اپنے آپ کو اس مسرت اور شادمانی کے احساس سے مسحور کریں جس سے آج کروڑوں پاکستانی سرشار ہیں۔
بلا شبہ 11 مئی سلطانی جمہور کا دن تھا اور آج 5جون حاکمیت دستور کا دن ہے۔ آج جب دستور کے مطابق عوام کے منتخب وزیراعظم ملک کی باگ ڈور سنبھال رہے ہوں گے تو دنیا میں پاکستان کا نام اور مقام بلند ہوگا اور دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہونگے۔
مرکزی سٹیج پر موجود راہنماؤں کے ہر عمل کو مووی کیمرہ دنیا بھر میں پھیلا دیتا ہے۔ اس طرح وہ ہر لمحہ پوری دنیا کی نظروں میں ہوتے ہیں۔ ملکی سطح پر فتح یاب ہونے والی پارٹی کے سربراہ میاں نوازشریف نے ایک اہم صوبے میں اپنے اہم ترین سیاسی حریف عمران خان کا حق حکمرانی خوشدلی سے تسلیم کیا پھر وہ خود عمران خان سے ملنے ہسپتال پہنچ گئے۔انہوں نے بلوچستان جیسے حساس صوبے میں فراخدلی سے کام لیا اور دوسری پارٹی کا وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ ان اقدامات سے میاں نواز شریف کا ہی نہیں ملک کا قد اور امیج بھی بلند ہوا ہے۔ 3 نومبر2007کو بھی فون آئے تھے اب بھی باہرسے فون آ رہے ہیں۔ اس وقت باہر والے پوچھتے تھے ہم یہاں لوگوں کو کیسے faceکریں گے۔ اب کہتے ہیں کہ ہم لوگوں سے برابری کی سطح پر بات کرتے ہوئے انہیں باور کراتے ہیں کہ مفاہمانہ طرز عمل اوراعلیٰ جمہوری اقدارکی پاسداری صرف واشنگٹن، لندن اور پیرس کا ہی طرہ امتیاز نہیں ، اس کے شاندار مظاہرے پاکستان میں بھی ہوتے ہیں۔
دو باتیں ثابت ہو گئیں ۔ پہلی یہ کہ حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی بے پناہ قوت عوام کے پاس ہے او ر وہ اس طاقت کا صحیح استعمال کرنا جانتے ہیں اور ان کا فیصلہ درست ہوتا ہے صدیوں پہلے کہی گئی بات کہ People are the best Judge کو عوام نے سچ ثابت کر دکھایا۔ بیشک عوام ہی بہترین منصف ہیں۔ نئے حکمرانوں کو بھی ہردم احساس رہنا چاہیے کہ اس ملک کے عوام اب تا ج و تخت اچھالنے اور کرپٹ اور نااہل حکمرانوں کو نکالنے کی طاقت سے بہرہ مند ہو چکے ہیں۔
پارلیمنٹ کا وقار اور افتخار ارکان کے معیار سے قائم ہوتا ہے۔ 1962کی قومی اسمبلی اپنے معیار کے اعتبار سے آج بھی اعلیٰ ترین سمجھی جاتی ہے کہ اس میں نوابزادہ نصراللہ خان، مفتی محمود، میاں عبدالباری، سردار بہادر خان، ذوالفقار علی بھٹو، غلام مصطفی جتوئی، نواب خیر بخش مری، چوھدری ظہور الٰہی اور مشرقی پاکستان سے مولوی فرید احمد، فضل القادر چوہدری،ابوالقاسم جیسی شخصیات موجود تھیں۔ اس اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین اور سینئر ڈپٹی سپیکر چوہدری محمد افضل چیمہ تھے جنھوں نے جمہوری اقدار کی پاسبانی بھی کی اور کارروائی کا معیار بھی انتہائی اعلی سطح پررکھا۔نئی قومی اسمبلی میں دو شخصیات کی کمی محسوس کی جائیگی۔ مسلم لیگ(ن) کے سردارمہتاب عباسی انتہائی منجھے ہوئے بااصول سیاستدان اور اعلیٰ پائے کے منتظم ہیں انہیں سینٹ کے ذریعے پارلیمنٹ میں لا کر کوئی اہم وزارت سونپی جائے تاکہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ پیپلز پارٹی میں قمر زمان کائرہ جیسا ذہین اور دلائل سے معیاری گفتگو کرنے والا کوئی اور شخص نہیں ہے۔ انہیں بھی اگر پارلیمنٹ میں لایا جا سکے تو اس سے ایوان کے حسن میں اضافہ ہو گا۔وزارت داخلہ کسی بھی ملک کی اِنٹرنل سکیورٹی کی ذمہ دار اور نگران ہونے کے ناطے بے حد اہم اور حساس وزارت سمجھی جاتی ہے۔ اس وزارت کیلئے وہی شخص اہل ہو سکتا ہے جو ملکی سکیورٹی کے بارے میں پورا ادراک رکھتا ہو، سکیورٹی کی نئی جہتوں اور جدید چیلنجوں سے آشنا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کے ساتھ غیر منقسم وفاداری رکھتا ہو۔ پچھلے چند ہفتوں سے اس وزارت میں کام کر کے جو بھیانک حقائق سامنے آئے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ سرکاری پاسپورٹ جو صرف اس شخص کو ملنا چاہیے جو باہر کسی میٹنگ یا کانفرنس میں ملک کی نمائندگی کر رہا ہو ورکروں ، ٹھیکیداروں اور پراپرٹی ڈیلروں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے۔ سرکاری اور ڈپلومیٹک پاسپورٹ اس قدر بے توقیر ہو ئے کہ بہت سے ممالک نے ان پر ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔کسی ایک کمپنی کو خاص مقاصد کیلئے ٹھیکہ دینے کیلئے لیمینیشن پیپر کی خریداری میں تاخیر کی گئی جس سے ایک قومی سطح کا بحران پیدا ہو گیا۔ طلباء و طالبات تعلیم سے، مریض علاج سے اور ہزاروں ڈاکٹر، انجینئر ز اور ورکرز نوکریوں سے محروم رہ گئے ، لاکھوں لو گ پاسپورٹوں کیلئے مارے مارے پھرتے رہے اور ملک کی بہت زیادہ بدنامی ہوئی۔ وزارت داخلہ کی سربراہی کیلئے آرمی اور پولیس کا تجربہ بیحد مفید ہے مگر انتخاب بے حد موزوں ہونا چاہیے۔ سابق اور نگران دور کا تجربہ خطرناک ثابت ہوا ہے۔وزارت داخلہ کا سربراہ ایسا ہونا چاہیے جو قانون کے نفاذ میں کسی مفاد یا مصلحت کی پرواہ نہ کرے۔ جس کو ہر قیمت پر شہریوں کی سکیورٹی عزیز ہو اور جو اس کے لئے سیاست سے بلند ہو کر بھی سوچ سکتا ہو۔ملک کے نئے وزیراعظم کے لئے سیاسی کے ساتھ ساتھ انتظامی ٹیم کا انتخاب بڑا اہم مرحلہ ہو گا۔پرنسپل سیکرٹری، سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے عہدوں پر ایسے افسران کو تعینات کیا جانا چاہیے جو نیک نام ہوں ۔ جن کے بال وپر ادارہ جا تی تعصبات سے آلودہ نہ ہوں اور جو دوسری سروسز سے بغض اور عناد نہ رکھتے ہوں۔ ان تین اہم عہدوں پرصرف ایک سروس کی بجائے مختلف سروسز کے افسران کا تقررہوناچاہیے۔جاتے جاتے ایک سچا واقعہ سن لیں۔ منظر نامہ یہ ہے کہ پرائم منسٹر ہاوس میں وزیراعظم کے دفترمیں تین افراد موجود ہیں۔ نگران وزیراعظم، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور سیکرٹری خارجہ۔ وزیراعظم صاحب فارن سیکرٹری سے مخاطب ہوتے ہیں جناب آپ سے ایک درخواست کرنی ہے! سر فرمائیں نا! ہمارا ایک قریبی عزیز ہے اسے سفیر لگا دیں۔ سیکرٹری خارجہ نے کہا سر! یہ نہیں ہو سکتا، اس پر پرنسپل سیکرٹری اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے جیلانی صاحب دیکھو۔ وزیر اعظم صاحب نہایت شریف آدمی ہیں انکا کام کردیں، آپ مان جائیں ناں! جیلانی صاحب نے معذرت کی تو وزیراعظم بولے میں کیسا وزیراعظم ہوں جو ایک دوست کی فرمائش پوری نہیں کر سکتا۔ خارجہ سیکرٹری نے کہا سر جب تک آپ کی وزارت عظمیٰ رہے گی یہ اس وقت تک سفیر رہیں گے کیا یہ دس دن کے لئے سفیربننا چاہتے ہیں۔ ہمیں معلوم پڑتا کہ وہ سفیر نہیں لگ سکتا تو ہم اسے وزیر لگا لیتے۔ یا د رہے کہ بیاسی سال سے اوپرکے سارے ریٹائرڈ جج فخرو بھائی کی طرح با اصول اور بے لوث نہیں ہوتے۔ شکر کریں ڈ یڑھ مہینے میں ہی جان چھوٹ گئی ہے ورنہ بابا جی تو چھ مہینے مانگ رہے تھے اوراُنہوں نے اپنے سارے بیٹوں کواسلام آباد بلا لیا تھا۔نوٹ: پیپلز پارٹی جیسی قومی پارٹی کا سکڑ کر ایک صوبے تک محدود ہو جانا باعث تشویش ہے۔ پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ایک پاکستانی نیشنلسٹ تھے اور ان پر کرپشن کے بھی الزام نہیں تھے۔ اس پارٹی کی الیکشن مہم میں خون کا بڑا ذکرہوتا رہا ہے۔ شکست کے بعد کے ڈی بریفنگ سیشن میں ہو سکتا ہے ذوالفقار علی بھٹو کا خون ہی پارٹی سربراہ سے پوچھ بیٹھے کہ
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
تازہ ترین