• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان جس علاقے میں واقع ہے وہ تقریباً چار عشروں سے اسٹرٹیجک کشیدگی میں تبدیل ہوچکا ہے پاکستان کے لئے اندرونی اور بیرونی خطرات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو عالمی طاقتیں اس علاقے میں سیاسی، فوجی اور معاشی مفادات رکھتی ہیں وہ مختلف انداز میں اور کئی سمتوں اور زاویوں سے پاکستان میں مداخلت کرتی رہی ہیں اور اب بھی کررہی ہیں ابھی جو ملک میں انتخابات ہوئے ہیں اس میں مداخلت کا عنصر صاف نظر آ رہا تھا برطانیہ اور امریکہ کے سفیر جس طرح خیالات کا اظہار کررہے تھے اور وہ جس طرح آزادی سے اپنا نقطہ نظر بیان کررہے تھے اس صورتحال کو کسی حد تک بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے امریکہ کے پالیسی ساز میاں نواز شریف اور ان کے قریبی لیڈروں کی سیاسی سوچ اور Mind set کو پہلے سے سمجھتے ہیں اس لئے کہ وہ ان سے پہلے سے واقف ہیں۔ کچھ اسی قسم کی صورت عمران خان اور ان کی پارٹی کی سیاسی قیادت کی بھی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے پالیسی ساز اور تھنک ٹینک ان دونوں لیڈروں کی سیاسی نفسیات سے واقف ہیں اس لئے ان سے معاملات طے کرنے میں ان کو مشکلات پیش آنے کا امکان بہت کم ہے۔یہ خبریں اخبارات میں پہلے آچکی ہیں کہ میاں نواز شریف نے امریکہ کو یقین دہانی کرادی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ سے تعاون کریں گے ۔ اس سے ملتا جلتا موقف پاکستان تحریک انصاف کا بھی ہے اس تناظر میں فوج کا نقطہ نظر بھی دہشت گردی کو ختم کرنے کا ہے۔ ابھی تک پاکستان کے طالبان کا موقف واضح نہیں ہے وہ مذاکرات تو چاہتے ہیں لیکن اس کیلئے ان کی شرائط کیا ہیں اور ایجنڈا کیا ہے اس کی تفصیل تو اسی وقت پتہ چلے گی جب فریقین مذاکرات کی میز پر آئیں گے۔
میری عمران خان سے بھی گزارش ہے اور میاں نواز شریف سے بھی کہ وہ سیاسی تدبر اور سنجیدہ طرز عمل اختیار کریں ورنہ پاکستان کے اندر اور باہر مشکلات بڑھیں گی۔ ڈرون حملے پر جس طرح کا ردعمل عمران خان صاحب نے ظاہر کیا ہے وہ ان کے لئے بھی مشکلات پیدا کرے گا اور میاں نواز شریف کیلئے بھی مذاکرات کی باتیں اور سفارت کاری اسی لئے ہو رہی ہے کہ کشیدہ صورتحال کو ڈی فیوز کیا جاسکے لیکن اگر میاں نواز شریف کی پوزیشن کو مشکلات سے دوچار کیا جائے یہ کہہ کر میاں نواز شریف ڈرون حملے رکوائیں؟ امریکہ ڈرون حملے بند کرے ورنہ ڈرون کو مار گرایا جائے۔ اس کا حل سفارت کاری اور امریکہ کو غلط موقف سے ہٹانا ہے اور یہ کام ڈپلومیسی سے پورا ہوسکتا ہے، دھمکیوں اور سخت رویّے سے نہیں۔ کچھ بھی کہا جائے اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ کا موقف بڑا صاف ہے کہ وہ طالبان اور القاعدہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اس لئے ڈرون حملے نہیں روکے جاسکتے۔یہ سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے کہ امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور بھارت ایک بہت بڑا سیاسی اور اسٹرٹیجک گیم کھیل رہے ہیں اگر سیاسی اور غیر تدبرانہ عمل جاری رکھا گیا تو بھارت کے اثرات افغانستان میں مستحکم ہو سکتے ہیں اور ابھی کچھ دنوں پہلے صدر کرزئی نے بھارت کے تعاون کی بڑی تعریف اور توصیف بھی کی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ میں پینٹاگون میں یہودی لابی کی شروع سے یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو بلواسطہ افغان جنگ کا حصہ بنا دیا جائے اس سازش کے تحت پاکستان کو جنوبی وزیرستان اور سوات کے آپریش میں ملوث کیا گیا۔ امریکہ کی طویل المیعاد پالیسی پاکستان کو عسکری سطح پر کمزور کرنا اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔ بڑی قوتوں کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان کی افواج کی Fighting will کو کمزور کردیا جائے۔ یہ بات اخباروں میں شائع ہو چکی ہے کہ پاکستان کو اب تک ایک کھرب ڈالر کا نقصان فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں اٹھانا پڑا ہے جانی نقصان بھی بہت ہوا ہے اور معاشی نقصانات تو بہت زیادہ ہیں اور ابھی فوج کے خلاف حملے خیبرپختونخوا میں جاری ہیں اور یہ بڑھ بھی سکتے ہیں۔
مذاکرات کیلئے جلد بازی نہ کی جائے پہلے نئی حکومتیں اقتدار سنبھالیں اس کے بعد کسی نتیجے پر پہنچ کر مذاکرات کئے جائیں ان مذاکرات میں کیا صرف حکومت پاکستان اور اس کی فوج اور تحریک طالبان پاکستان مذاکرات کی میز پر ہوں گے، امریکہ اور برطانیہ کا بھی کوئی رول ہوگا اس لئے کہ یہ بڑا پیچیدہ معاملہ ہے۔ پاکستان کی کوئی مذہبی سیاسی جماعت کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی اس میں ملا عمر کی مدد اور تعاون درکار ہوگا۔آپ کو یاد ہوگا کہ جنیوا مذاکرات 1982ء میں شروع ہوئے تھے اور اپریل 1988ء میں مذاکرات کی دستاویز پر دستخط ہوئے۔ بے شک یہ مذاکرات پاکستان اور تحریک طالبان کی قیادت کے درمیان ہونے چاہئیں لیکن امریکہ اور برطانیہ اور نیٹو ممالک کے مفادات بھی ان مذاکرات سے وابستہ ہیں۔
مذاکرات ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس کے لئے سخت اور دانشورانہ سفارت کاری کی ضرورت ہوتی ہے ابھی حکومت جو انتخاب کے بعد بنی ہے اس کو ڈپلومیسی کی کیا شکل اختیار کرنی ہے اس کا پتہ نہیں ہے۔ہر سیاستدان یا سفارت کار یہ فریضہ ادا نہیں کرسکتا اس کیلئے انتہائی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ڈپلومیسی کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ڈپلومیسی اورپرکاری بعض اوقات ریاستوں کی قسمت بدل دیتی ہے۔ آپ مذاکرات کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ان کے کئی مرحلے ہوتے ہیں پہلا مرحلہ تو یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ پوری طرح واضح ہو پھر مذاکرات کہاں ہوں گے، فریقین کون کون ہوں گے یہ بات صاف صاف پتہ ہو۔ پھر مذاکرات کا عمل شروع ہو اور جو نتیجہ برآمد ہو اس کو نافد کرنے کا دور شروع ہوگا یہ مرحلہ ابھی بہت دور ہے۔پاکستان ایک زمانے میں سفارت کاری کے میدان میں بہت ماہر سفارت کاروں کی ٹیم رکھتا تھا پاکستان کے وزرائے خارجہ میں ذوالفقار علی بھٹو، یعقوب علی خان، آغا شاہی بڑے نام تھے ذوالفقار علی بھٹو مذاکرات کار بھی غضب کے تھے۔
سفارت کاری اور مذاکرات کاری ہر ایک کا کام نہیں ہے تحریک طالبان کی قیادت ڈکٹیشن قبول نہیں کرے گی وہ یقیناً ہتھیار ڈال کر مذاکرات نہیں کریں گے اور پاکستان سے برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرنا چاہیں گے ایک طرف امریکہ پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف طالبان میں اختلافات پیدا کرنے کی حکمت عملی اور پاکستان و طالبان کے درمیان مذاکرات کے انتہائی ابتدائی رجحان کو بھی سبوتاژ کرنے کے لئے کوشاں ہے امریکہ نے اپنی تاریخ کی پہلی غلطی ملا عمر کی افغانستان میں حکومت کو تسلیم نہ کرکے اور دوسری غلطی افغانستان پر حملہ کرکے کی اور اب تیسرا بلنڈر وہ پاکستان کی ان کوششوں کو سبوتاژ کرکے کرے گا جو وہ مذاکرات کے ذریعے قیام امن کے لئے کررہا ہے۔
تازہ ترین