• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کے194 ممالک کی فہرست میں زیادہ سے زیادہ اوسط عمر 84 سال کے ساتھ ایشیا سے جاپان پہلے نمبر پر جبکہ جنوبی افریقہ کا ملک سائرہ لی اونی 46 سال عمرکے ساتھ 194 ویں نمبر پر ہے۔ایشیا کے دیگر ممالک میں سنگا پور 83 سال کے ساتھ دوسرے،کوریا 82 سال کے ساتھ 9 ویں، چین، سری لنکا اور تھائی لینڈ 75 سال کے ساتھ 68 ویں ،ملائیشیا اور ایران 74 کےساتھ 85 ویں،بنگلہ دیش 71 سال کے ساتھ 117 ویں نمبر،انڈیا 66 سال کے ساتھ 141 ویں نمبر ،پاکستان 63 سال کے ساتھ 155ویں نمبر اور افغانستان 61 سال کے ساتھ 164 ویں نمبر پر براجمان ہیں۔پہلے 10مالک میں اکثریت ترقی یافتہ ممالک کی ہے جن میں بالترتیب اسپین،سوئٹزر لینڈ، آسٹریلیا، اٹلی، فرانس اور مونا کو شامل ہیں جبکہ برطانیہ اور جرمنی 81 سال کے ساتھ 20 ویں اور امریکہ 79 سال کے ساتھ 34 ویں نمبر پر ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا وجوہات ہیں جنکی بنا پر اوسط عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی ملک کے باشندوں کی زیادہ اوسط عمر اس ملک کی صحت پر خرچ کی جانے والی رقم اور معیار زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔بات شروع کرتے ہیں 1977سے۔ شہر سان فرانسسکو اور ریاست تھی کیلیفورنیا امریکہ ۔سنجیدہ نوعیت کے سینئر مریضوں کیلئے علیحدہ کوئی مرکز نہ ہونے پر انکی مکمل دیکھ بھال کیلئے نجی سطح پرخاندانی حفاظت الائنس کی تشکیل عمل میں آئی۔اس دور میں ابھی یادداشت میں کمی پر مبنی بیماری الزائمر ابھی اتنی عام نہیں ہوئی تھی بڑی عمر کے افراد کی نگہداشت عموماً خاندان کے افراد مل کر ہی کرتے تھے۔1979ءمیںاس کے بانی ممبران نے کیلیفورنیا کی مقننہ کو اس امر پر راضی کر لیا کہ وہ اس معاملے پر قانون سازی کریں اور سرکاری سطح پر مراکز قائم کریں۔دیکھتے ہی دیکھتے اس تنظیم کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی اور ہزاروں خاندانوں نے اس سے رابطے کئے۔1984 تک حکومت نے خاندانی حفاظت کی غرض سے نجی تنظیم کی طرز پر کیلیفورنیا میں10 سینٹرز بنا ڈالے جن میں دائمی بیماریوں میں مبتلا افراد کی اعلیٰ نگہداشت کم ترین خرچ پر کی جانے لگی۔آج سرکاری سطح پر پورے امریکہ میں یہ ادارہ کام کررہا ہے جس کےتحت امریکی معمر افراد کی مکمل دیکھ بھال کیلئےسہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔امریکی شعبہ ہیلتھ اور ہیومن سروسزکے مطابق 65 سال یازائد العمر افرادامریکی آبادی کا تقریباً 13 فیصد ہیں۔2030میں معمر افراد کی تعداد 72 ملین تک پہنچ جائیگی۔2009 میں دس لاکھ سے زائد معمر افراد کو طبی سہولتیں فراہم کی گئیں۔گزشتہ سال امریکہ میں طبی سہولتوں کا 22 فیصد اسی قسم کی سہولتوں،25فیصد غرباء کیلئے خرچ کیا گیا۔ سب سے بڑے کثیر سہولتی مراکز کے پاس 22 ریاستوں میں ساڑھے چھ ہزار کے لگ بھگ بستر موجود ہیں جہاں وہ کم خرچ پران معمر افراد کی دیکھ بھال کرتے ہیں جن کے پیارے اپنے گھر پر انکی دیکھ بھال نہیں کر پاتے۔اب امریکہ میں ایک نئی سروس بھی شروع کردی گئی ہے جس میں ایسے افراد کو گھر پر ہی طبی سہولتیں بھی فراہم کی جارہی ہیں تاکہ انکے گھر والے اپنے کام پر یا دیگر معاملات پر مکمل توجہ دے سکیں۔کینیڈا میں لانگ ٹرم کئیر کے نام سے معمر افراد کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
آسٹریلیا میںایک کمیشن نے 2010 میں ایک سروے کیا اور بتایا کہ 80 فیصد آسٹریلوی معمر افراد کی غیر روایتی دیکھ بھال اہل خانہ ، دوست اور ہمسائےہی کرتے ہیں جبکہ دس لاکھ غریب افراد حکومتی طبی مراکزکی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ڈیڑھ لاکھ افراد کو مستقل جائے رہائش پر طبی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ آسٹریلوی حکومت تقریباً ہر سال گیارہ ارب ڈالر سے زائد رقم معمر افراد کے علاج معالجہ پر خرچ کرتی ہے۔نیپال میں اوسط عمر 65 تک جاپہنچی ہے جو 1951 میں 27 سال تھی۔85 فیصد معمر افراد دیہاتی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔غریب ہونے کے باوجود60 سال سے زائد بیوہ اور 70 سال سے زائد بوڑھوں کو گزارہ الائونس دیا جاتا ہے۔تھائی لینڈ میں 96فیصد آبادی ہیلتھ انشورنس کے فوائد سے استفادہ کرتی ہے۔انڈیا میں 9 کروڑ افراد 60 سال سے زائد عمر کے ہیں۔ بھارتی قانون معمر افراد کو سوشل سیکورٹی سہولتوں کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔پاکستان میں وفاقی سطح اور صوبوں کی سطح پرجو سوشل سیکورٹی اسپتال اور دیگر سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں وہ کسی طرح بھی فلاحی قرار نہیں دی جاسکتیں۔اب تک ہم پورے ملک کی آبادی کو مکمل ہیلتھ انشورنس کے دائرے میں نہیں لاپائے ہیں۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2.4فیصد معمر افراد ملک میں موجود ہیں جو لگ بھگ اسی لاکھ ہیں۔پنشن لینے والے افراد سہولتوں کیلئے در بدر پھرتے ہیں۔ تجویز ہے کہ معر افراد کیلئے خصوصی کارڈز جاری کئے جائیں جس پر وہ سفری سہولتیں ،علاج معالجہ ،دوائیاں،راشن اور تفریح پچاس فیصدرعایت پر حاصل کرسکیں۔ملک بھر میں معمر افراد کی طبی دیکھ بھال کیلئے سہولتوں کے مفت مراکز بناناکوئی مشکل نہیں ہے۔تھوڑی سی توجہ دی جائے تو ان مراکز میں معمر افراد کی مکمل دیکھ بھال کا بندوبست کرنا کوئی بہت مشکل اور ناممکن کام نہیں۔یہ مملکت کا فرض ہے کہ وہ ان افراد کی زندگی کے آخری دور کو پر سکون بنائے تاکہ وہ کڑھنے اور سسک سسک کر مرنے سے نجات حاصل کر سکیں۔ماضی میں یوٹیلیٹی اسٹورز اس لئے بنائے گئے تھے کہ غریب عوام کو رعایتی نرخوں پر اشیائے خورونوش فراہم کی جائیںاور قیمتوں کو بھی کنٹرول کیا جاسکے۔لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ غریبوں کیلئے بنائے گئے یہ اسٹور ان کو حقیقی فائدہ نہ دے پاتے ۔پہلی وجہ یہ ہے کہ انکی تعداد کم ہے دوسری وجہ یہ کہ وہاںایک لاکھ آمدنی اور بیس ہزار آمدنی والادونوں ہی سبسڈی پر دستیاب اشیاء خرید لیتے ہیں۔اس طرح زیادہ مستحق افراد محروم ہی رہ جاتےہیں۔تجویز ہے کہ اگر حکومت غریبوں کی شناخت کا میکنزم بناکر انھیں بچت کارڈ یا یوٹیلیٹی کارڈز بنا دےجو صرف کم آمدنی والے افراد کو ملے تو حقیقی غریبوں تک اس سبسڈی کا فائدہ پہنچے گااور وہ مقصد حاصل ہوپائےگا جس کیلئے یہ اسٹورز بنائے گئے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد د گنی کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد ان سے استفادہ کرسکیں۔
تازہ ترین