• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے29 جون کو اپنے کالم شائع شدہ اخبار نیویارک ٹائمز میں امریکیوں کو مشورہ دیا ہے، طالبان سے مذاکرات نہ کریں، طالبان مذاکرات میں سنجیدہ نہیں محض اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے وقت حاصل کر رہے ہیں۔ مختلف امریکی تھنک ٹینک کا مشورہ ہے طالبان کے مطلوبہ پانچ قیدیوں کورہا نہ کیاجائے، رہائی ملتے ہی طالبان مذاکرات سے بھاگ جائیں گے۔ صدر اوباما نے اپنی پہلی الیکشن مہم میں عراق سے افواج کی واپسی ،گوانتاناموبے جیل بند کرنے اور افغانستان میں مزید افواج بھیجنے کا اعلان کیاتھا۔ عراق سے پچاس ہزار افواج کی واپسی کے باوجود جنگ جاری ہے۔ افغانستان میں مزید افواج بھیجنے کے نتائج برآمد نہیں ہوئے، گوانتاناموبے جیل تا حال برقرار ہے اور 18/افغان جنگی قیدی بھی جیل میں موجود ہیں۔ ان میں سے 13جو پچھلے 10/12سال سے قید ہیں کے خلاف نہ تو سنگین جرائم ہیں اور نہ ہی عدالتوں میں پیش کرنے کے لئے ٹھوس ثبوت ۔انہیں رہا اس لئے نہیں کیا جا رہا کہ یہ واپس جا کر طالبان کا حصہ بن جائیں گے اور پھر سے نیٹو افواج پر حملہ آور ہوں گے۔ان میں سے5قیدی بہت اہم ہیں اور دوحہ مذاکرات کی ناکامی، کامیابی انہی سے جڑی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے حسین حقانی کے مشورے اور تھنک ٹینک کے خدشات پر تبصرہ کروں، میں قارئین سے ان قیدیوں کا تعارف کرانا چاہوں گا ۔ملّا نصراللہ نوری سینئر طالبان کمانڈر تھے اورملّا محمد طالبان دور حکومت میں ڈپٹی منسٹر دفاع تھے ۔ان دونوں حضرات پر الزام ہے کہ انہوں نے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کرایا۔گوانتاناموبے جیل میں امریکی تفتیشی آفیسرکی رائے ہے کہ انہیں اس قتل عام کا کوئی افسوس نہیں ،ان کا کہنا ہے انہوں نے اپنی مجوزہ نظریاتی ریاست کی تشکیل کے لئے جو ضروری سمجھا کیا ۔ملّا عبد الحق واثق طالبان جاسوسی ایجنسی کے سینئر کمانڈر تھے ۔القاعدہ ،حقانی نیٹ ورک اور دیگر انتہا پسند گروپوں کے درمیانco- ordinationاور القاعدہ سے طالبان کو تربیت دلانے کی ذمہ داری بھی انہی کی تھی۔خیراللہ سید ولی خیر خواہ وزیر داخلہ اور گورنر رہ چکے ہیں۔ بن لادن سے ان کے بلاواسطہ تعلقات تھے ان پر الزام ہے کہ اپنی وزارتی پوزیشن سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی افغانستان میں افیون کے بہت بڑے ڈرگ ڈیلر بن گئے۔ وہ نظریات سے زیادہ پبلک سروس پر یقین رکھتے تھے انہوں نے ڈرگ کے کاروبار سے بہت سے عوامی فلاح کے کام کئے ۔وہ کرزئی کے بھی پسندیدہ کہے جاتے ہیں ،ان کی رہائی میں کرزئی بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ خیر خواہ نے نیٹو افواج کے خلاف ایرانیوں کی مدد حاصل کی اور نیٹو افواج پر حملے کئے۔ ملّا نبی عمری سینئر کمانڈر تھے ہتھیاروں کی نگرانی، تقسیم ،فائٹرز کی آمد ،تعیناتی اور فائٹرز ملیشیاز کے درمیان تعاون کے ذمہ دار تھے۔ان اہم ترین پانچوں قیدیوں کے بدلے طالبان کے پاس ایک ہی امریکی سارجنٹBergdablزندہ قیدی ہے۔ پہلے تو پانچ اور ایک کی گنتی نے قیدیوں کے تبادلے کے سیاسی ماحول کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔دوسرے سارجنٹ تو رہائی کے بعد امریکہ چلے جائیں گے جبکہ مجوزہ قیدی افغانستان آئیں گے اور غالب امکان ہے جنگ کا پھر سے حصہ بن جائیں۔ مذاکرات کا یہی نکتہ انحطاط ہے۔امریکی2010ء سے مذاکرات کا ڈول ڈالنے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ پاکستان پر مذاکراتی دباؤ رکھنے کے علاوہ امریکی طالبان سے ڈائریکٹ ڈیل کی بھی کوششیں کرتے رہے۔کئی افغانیوں نے جو ملّا عمر سے قربت کا کوئی ثبوت فراہم کر سکے ڈالر اینٹھ کر بھاگ نکلے ۔
ملّا عمر کے صدارتی دور کے اے ڈی سی نے بھی یہ کمال دکھایا مگر بیل کسی منڈھے نہ چڑھی۔ پاکستان پر دباؤ بڑھا تو پاکستان نے موقف اختیار کیا آپ نے ملّا عمر اور اس کے قریبی طالبان کے سروں کی قیمت مقرر کر رکھی ہے ،وہ کیسے مذاکرات کی میز پر آئیں گے ۔آپ نے القاعدہ اور طالبان کو ایک ہی لائن میں کھڑا کر رکھا ہے ۔امریکہ نے2010ء میں ایک ریزولیوشن کے ذریعے طالبان اور القاعدہ کو یو این او سے الگ کرایا مگر trust deficeitکی خلیج نہ پاٹ سکی۔ پاکستان طالبان کو کسی قسم کی حفاظتی یقین دہانی مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں مذاکراتی ٹیم کی بحفاظت واپسی کی گارنٹی فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ طالبان کو امریکہ پر اعتماد نہیں۔ وہ جانتے ہیں امریکی کسی قانون ضابطے، سفارتی اخلاقیات کو تسلیم نہیں کرتے ۔طالبان کے سفیر ملّا ضعیف کے ساتھ وحشیانہ تشدد جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب My life with talibanمیں کیا ہے ۔ایک سفیر کو گوانتاناموبے جیل میں 9 سال بلا کسی الزام ثبوت اور عدالتی کارروائی کے رکھنے والوں پر اعتماد کون کرے گا۔ اعتماد کا فقدان ہی مذاکرات کے راستے میں حائل تھا اور حائل ہے ۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان بھی اعتماد کا فقدان ہے۔امریکہ پاکستان پر ڈبل کراسنگ کا الزام دھرتا آیا ہے جبکہ خود امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کے باوجودسائڈ لائن رکھا اور پاکستان کے مخالف ترین ملک بھارت کو افغانستان میں اہم ترین رول سے نوازا۔ بھارت کی پاکستان کو سینڈوچ بنانے کی خواہش ہمیشہ سے تھی امریکہ نے بھارت کو گولڈن چانس دیا ۔افغان فوج ،پولیس کی تربیت اور انفرااسٹرکچر کے ٹھیکے دیئے اور پاکستانی سرحدوں کے قریب سفارت خانوں کے نام پر 13 Lip singسینٹر کھولنے کی اجازت دی۔
امریکہ کی بھارت نوازی اور افغانستان میں بھارتی کردار کی اہمیت پاک، امریکہ عدم اعتماد کی بڑی وجہ بنی۔ ماضی بھی کوئی خوشگوار یادوں سے مزین نہیں مگر کالم کی طوالت کے پیش نظر میں اپنا فوکس مذاکرات تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہوں۔امریکہ کا یہ بھی الزام ہے پاکستان امریکہ کے افغانستان سے نکلنے پر خوش نہیں اور عدم تعاون کر رہا جبکہ اس کے رابطے امریکہ کے دشمنوں کے ساتھ بھی ہیں۔ امریکہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے جس کی پاکستان بارہا یاد دہانی کرا چکا ہے ۔امریکہ نے ایک دن چلے جانا ہے مگر پاکستان کو یہیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ رہنا ہے ۔ امریکہ کے جانے کے بعد خانہ جنگی کی شدت 1996ء سے بھی بڑھ کر نظر آتی ہے ۔جس سے پاکستان کا آج کی نسبت زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔یہ آگ آپ نے جلائی ہے اسے بجھاکر جانا آپ کا فرض بنتا ہے ۔گو1973ء میں سی آئی اے نے افغانستان میں مداخلت شروع کر دی تھی مگر پھر بھی 70کی دہائی میں افغانستان ایک پُرامن ملک تھا ۔1980ء میں امریکہ کی سازشوں سے یہ ملک آگ کی بھٹی میں منتقل ہوا جس سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ آپ نے اپنے سب سے بڑے دشمن سوویت یونین کو توڑ ڈالا پاکستان کو کیا ملا ،ہزاروں لاشیں ،نارکوٹکس اور کلاشنکوف کلچر ۔پھر آپ اپنے دوسرے دشمن القاعدہ کو ختم کرنے افغانستان میں اتر آئے ۔آپ کو طالبان سے واسطہ پڑ گیا سیر کو سوا سیر مل گیا تو آپ کہتے ہیں پاکستان ہمیں واپسی کا راستہ دلوائے، پاکستان کہاں جائے گا ۔ میں پھر کہوں گا آگ آپ نے جلائی ہے اسے بجھا کرجانا آپ کا اخلاقی فرض بنتا ہے۔ پاکستان کا مطالبہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ۔البتہ حامد کرزئی کی خواہش امریکہ واپس نہ جائے یہیں پھنسا رہے، غلط ہے ۔ وہ افغانی عوام کا نمائندہ نہ ہونے کے باوجود امریکہ کی قوت پر صدر بنا رہا ،بہت انجوائے کر لیا اقتدار،کرزئی صاحب اب اگر واپس امریکہ جانا پڑے تو کیا بُرا ہے اپنے آقا کی مد د کریں،اقتدار کے سنگھاسن سے تو ایک دن اترنا ہی تھا۔ مدد کرنے کے بجائے الٹا روڑے اٹکانا مناسب بات نہیں۔ 2010ء میں امریکہ نے طالبان کو مذاکرات کی باقاعدہ پیشکش کی اور قطر میں دفتر کھولنے کی اجازت بھی دے دی ۔ طالبان نے مذاکرات کو پانچوں جنگی قیدیوں کی رہائی سے منسلک کر دیا امریکہ نہ مانا اور مذاکرات میں بھی کوئی پیشرفت نہ ہوئی۔ بیک چینل ہوم ورک کے بعد2013ء میں امریکہ نے پھر اپنی پیشکش کا اعادہ کیا یقینا دونوں طرف سے کچھ لچک آئی ہو گی۔
امریکہ پانچوں جنگی قیدیوں کو سردست رہا کرنے پر تو تیار نہیں البتہ دوحہ میں اپنی نگرانی میں منتقل کرنے کے لئے تیار ہے۔افغان نمائندے کا کہنا ہے امریکہ کو اعتماد سازی کیلئے پانچوں قیدیوں کو رہا کر دینا چاہئے ۔ہم امریکی قیدی رہا کرنے کو تیار ہیں مگر امریکہ سے بہت آوازیں اٹھ رہی ہیں، قیدیوں کو رہا کیا گیا تو طالبان مذاکرات سے بھاگ جائیں گے۔ امریکیوں کے ان الفاظ سے امریکہ کی مذاکرات کی شدید خواہش کا اظہار ہوتا ہے جبکہ طالبان کی عدم دلچسپی نظر آتی ہے ۔ جس طرح1 اور5نسبت حساباتی طور پر غیر متوازن ہے اسی طرح امریکہ کی مذاکرات میں دلچسپی اور طالبان کی عدم دلچسپی نفسیاتی طور پر غیرمتوازن ہے ۔میری رائے ہے جنگی فریق حساباتی عدم توازن +نفسیاتی عدم توازن +خواہش =مذاکرات۔ فرض کر لیں تو فائدے میں رہیں گے ۔پاکستان کی سابق سفیر مادام لودھی کا کہنا ہے ان مذاکرات کا اہتمام پاکستان نے کیاہے جبکہ رائے عامہ ہے صدر کرزئی اور پاکستان کو دونوں فریقین نے By passکیا ہے ۔
وزیراعظم کا بیان پاکستان کو نظر انداز کرکے خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا ،میڈم لودھی کے بیان سے میل نہیں کھاتا دال میں کچھ کالا ہے کی آواز سناتا ہے۔ حامد کرزئی نے تو کھل کر ناراضی کا اظہار کیا ہے اور امریکی انہیں راضی کرنے کے درپے بھی ہیں مگر پاکستان تحمل سے تیل کی دھار دیکھ رہاہے گو امریکی نمائندے کو بھی کہنا پڑا پاکستان کے تعاون سے مذاکرات کا انعقاد ممکن ہوا مگر یہ بھی دال میں کچھ کالے کی نوید سناتا ہے ۔ پاکستان کی خاموشی اور کرزئی کے احتجاج کے فوراً بعد امریکی نمائندے کی پاکستان آمد،کرزئی کی خوشامد اور مطالبات کی منظوری،منظر نامے اور رائے عامہ کے اندازے درست ثابت کرتا ہے۔ میری رائے ہے طالبان بھی اب غاروں سے باہر آنا چاہتے ہیں ، ان کی بھی فطری خواہش ہو گی امریکیوں کی تعداد کم ہو اور ہم باقی ماندہ افواج سے جن سے لڑنا نوشتہ دیوار نظر آ رہا ہے دو دو ہاتھ کرلیں۔ امریکہ کی تو پہلے ہی خواہش ہے پچیس ہزارامریکیوں کی سپروائزری اور بھارتیوں کی کمانڈ میں افغانیوں کو افغانیوں کے روبرو کرکے بڑی افواج بچا کر وطن لوٹ جائیں۔ میرا کتھارسس ہے دونوں کی خواہش انہیں مذاکرات کی میز پر لے آئی ہے ۔پاکستان اور کرزئی اپنے اپنے طریقے سے ردعمل دے رہے ہیں ۔دیکھئے پانچ قیدی مذاکرات کو ہائی جیک کرتے ہیں یا مذاکرات قیدیوں کو رہائی دلاتے ہیں۔
تازہ ترین