• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عزت ماب جناب میاں نواز شریف صاحب،
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان، اسلام آباد۔
گزارش ہے کہ بندہ ایک عاجز مسکین اور کلرک پیشہ ٹائپ آدمی ہے جس پر یہاں کی ظالم خفیہ ایجنسیوں نے لگ بھگ سو ارب روپے کی کرپشن کا الزام عائد کر دیا ہے۔ جناب والا، یہ درست ہے کہ عاجز کے دور چیئرمینی میں اوگرا# کو واقعتا سو ارب روپے سے زائد کی ”تھک“ لگائی گئی مگر اس نیک کمائی میں میرا حصہ تو محض آٹے میں نمک کے برابر تھا حالانکہ ڈھنڈورا فقط اسی بات کا پیٹا جا رہا ہے کہ میں ہی سب کچھ کھا پی گیا ہوں اور باقی سب کے سب تو بیچارے بھوکے مر رہے ہیں۔ او جناب میرے حصے میں تو زیادہ سے زیادہ چار پانچ ارب ہی آئے ہوں گے باقی دیہاڑی تو کسی اور نے لگائی ہے۔ اس سلسلے میں اگر آپ اپنی معلومات میں مزید اضافہ کرنا چاہتے ہوں تو قبلہ یوسف رضا گیلانی صاحب سلمہ سے کافی کچھ معلوم کر سکتے ہیں۔ پھر برادرم ڈاکٹر عاصم حسین صاحب، راجہ پرویز اشرف صاحب اور سید نوید قمر صاحب بھی آپ کو بہت کچھ بتا سکتے ہیں۔ ویسے تو جہانگیر بدر صاحب میرے برادرِ نسبتی ہیں مگر چونکہ اخباروں میں نام ان کا بھی گردش کرنے لگا ہے، اس لئے آپ انہیں بھی شامل ”درس و تدریس“ کر کے اپنے علم میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں اور اب تو پنجاب یونیورسٹی نے ویسے بھی انہیں ڈاکٹر تسلیم کر لیا ہے۔
جہاں تک میرے پیشہ ورانہ کیریئر کا تعلق ہے، ماسوائے ایک عدد جعلی ڈگری کے، میرے اوپر کبھی کوئی سنجیدہ الزام نہیں لگا اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ غیر سنجیدہ الزامات کو اہمیت ہی کون دیتا ہے۔ اس سے پہلے میں واہ# فیکٹری میں بھی اسی طرح کی ایک مفید اور خدمت گزار نوکری کیا کرتا تھا جہاں میرے گُن دیکھ کر بہت سوں نے کہہ دیا تھا کہ بہت اوپر تک جائے گا یہ آدمی بھی، بہرحال، میں نے کبھی غرور نہیں کیا۔
جنابِ والا، اس سے پہلے کہ میں آپ کے یہ گوش گزار کروں کہ میرے کندھے پر بندوق رکھ کر مجھے کہاں کہاں استعمال کیا گیا، اور کل کتنے سو ارب روپے کی منجھی ٹھونکی گئی، میں ذرا جعلی ڈگری والے معاملے پر روشنی ڈالتا جاؤں۔ میں نے امریکن یونیورسٹی آف لندن سے ماسٹرز کی ڈگری بڑی مشکلوں سے حاصل کی تھی مگر ایک تو اس ولایوڑ سی یونیورسٹی کا نام ہی اس قدر حماقت خیز ہے کہ سننے والا بے اختیار ہنسنے لگتا ہے کہ نام سے ہی کوئی ”چول“ یونیورسٹی لگتی ہے۔ چلئے مان لیا کہ نام کی حد تک یہ ادارہ بیکار ہے مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ اس نے کیسے کیسے سپوت فارغ التحصیل کر رکھے ہیں اور پھر اس حوالے سے اصل ظلم تو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کیا ہے کہ جسے آج تک لندن میں اس یونیورسٹی کا نام و نشان تک نہیں مل سکا۔ اب یہ نالائقی تو کمیشن کی اپنی ہے ناں، اس میں بھلا میرا کیا قصور ہے۔
خیر، میرے چونکہ مبینہ طور پر سر کی قیمت رکھی جا چکی ہے اور ایک خلیجی ملک کی حکومت نے اس ضمن میں مخبری کر کے ہماری خفیہ ایجنسیوں کو مطلع بھی کر رکھا ہے، اس لئے میں فی الفور آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ سراسر الزام ہے کہ ایک سی این جی پمپ لگانے کی رشوت کروڑوں میں وصول کی جاتی رہی ہے۔ میں اس سلسلے میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ کسی کیس میں بھی یہ رقم ایک کروڑ فی پمپ سے تجاوز نہیں کی۔ اور یہ بھی غلط ہے کہ ہر پمپ سے رشوت لی جاتی تھی، صرف اور صرف غیر قانونی لائسنس جاری کرنے کا ”ہدیہ“ ایک کروڑ روپے ہوتا تھا جبکہ کل 3395 سی این جی سٹیشنز میں سے غیر قانونی پمپوں کی تعداد فقط 2000 ہے۔ یعنی اس مد میں تو فقط دو ہزار کروڑ کی چھچھوری رقم ہی سامنے آتی ہے تو پھر اصلی ٹانکا کہاں لگایا گیا، ہیں جی؟ جناب والا، اصلی ٹانکا گیس سٹاک میں خورد برد اور چوری چکاری کی مد میں لگتا ہے جسے چیک کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
آپ تو جانتے ہی ہیں کہ پوری دنیا میں گیس کے لائن لاسز اور چوری چکاری کے لئے دو فیصد کی شرح طے ہے مگر ہمارے پیارے وطن میں یہ شرح پانچ فیصد ہوا کرتی تھی۔ جو کہ بذات خود ایک مخولیہ بات ہے تاہم بعض ضرورتمند پردہ نشینوں کے باقاعدہ بلیک میل کرنے پر میں نے یہ شرح کچھ عرصے کے لئے پانچ فیصد سے سات فیصد کر دی۔ صرف اسی ایک کام سے مذکورہ گیس کا انڈیکس سٹاک مارکیٹ میں آسمان سے باتیں کرنے لگا اور 16 روپے کا شیئر چھتیس روپے میں فروخت ہوا۔ اس کار خیر سے فقط چند دن کے اندر اندر ”انھی“ کے گھر میں تقریباً 45 ارب روپے کی ڈانگ پھیری گئی! پردہ نشینوں سے یاد آیا، کیا یہ خبر درست ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی عنقریب نواز لیگ جوائن کرنے والے تھے اور بقول شخصے آپ نے ایف آئی اے کو بھی ”ہتھ ہولا“ رکھنے کی تلقین کر دی تھی۔ مگر زرداری صاحب نے ملتان کا بے وقت دورہ رکھ کر سارے رنگ میں عارضی بھنگ ڈال دی ہے؟ کیا اس خبر میں بھی کوئی جان ہے کہ نیب سمیت بعض اہم اداروں نے گیلانی صاحب اور ان کے پورے خاندان کے موجودہ اثاثوں کی مالیت معلوم کر کے ذریعہ آمدن بارے پوچھ گچھ شروع کر دی ہے اور اسی بناء پر گیلانی گزشتہ دنوں غصے سے لال پیلے ہو کر بڑھکیں مارتے بھی پائے گئے کہ اگر ہمت ہے تو پوچھ کر دیکھ لو وغیرہ وغیرہ۔ آخر میں گزارش ہے کہ مجھ مسکین کے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ میں ”پلی بارگین“ میں پیش کرنے جا رہا ہوں مگر جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ فوراً سے پہلے جان لیں کیونکہ میرے سر کی مبینہ سپاری دی جا چکی ہے، آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔ فقط وسلام(توقیر صادق پردیسی#)
تازہ ترین