• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم آج سے تقریباً چار پانچ ماہ قبل یہ سوچا کرتے تھے کہ عام انتخابات کے بعد نئی وزارتیں قائم ہوں گی، نئے نئے لوگ سامنے آئیں گے۔ پیپلز پارٹی کی طرح نواز لیگ میں بھی ازلی اور ابدی حاجتمند وزیروں مشیروں کی کمی نہیں ہو گی اور یہ احباب چونکہ اقتدار میں آتے ہی اپنے اصلی یعنی ”نوٹ چھاپ“ کام پر جُت جائیں گے اس لئے آئندہ کالموں میں نئی باتیں اور نئے نام لکھنے کو ملیں گے مگر لگتا ہے کہ حالیہ انتخابی نتائج دیکھ کر یار لوگ کرپشن سے اس قدر خوفزدہ ہو چکے ہیں کہ تاحال کسی بھی نئی حکومت کا، خواہ مرکزی ہو یا صوبائی، ایک بھی مالی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ حد تک یہ ہے کہ فی الحال سندھ حکومت بھی اس حوالے ٹھنڈ پروگرام پر عمل پیرا ہے!
اس میں شک نہیں کہ شہباز شریف نے پنجاب میں بہت کام کیا اور عوام کی بھلائی کے لئے پورے پانچ سال کوشاں رہے مگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ نواز لیگ کے سب سے بڑے محسن شہباز شریف نہیں بلکہ قبلہ آصف علی زرداری ہیں کہ جنہوں نے یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں ایک ایسا کرپٹ ٹولہ اس قوم کے سر پر بٹھا دیا کہ جس نے بدعملی، بدعنوانی اور بدحکمرانی کے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ سابق حکومت میں شامل ستر فیصد سیاسی اور سرکاری شخصیات کرپٹ تھیں۔ پچیس فیصد مہا کرپٹ تھیں جبکہ بقیہ پانچ فیصد پر اللہ کا کرم رہا جو گٹر میں رہتے ہوئے بھی پاکدامن رہے۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ سلسلہ چل رہا ہے اور بقول شخصے، ”بات اب تک بنی ہوئی ہے۔“
اس قدر کثیف باتیں کرتے کرتے ہمیں ظفر اقبال صاحب کا ایک دلکش مطلع یاد آنے لگا ہے۔ شعر از خود تو زیادہ برمحل نہیں لیکن اگر اسے ”نواز شریفانہ“ تناظر میں تھوڑے ردوبدل کے ساتھ پڑھا، بلکہ استعمال کیا جائے تو حکومتی حالات پر خوب منطبق ہوتا ہے۔ پہلے شعر دیکھئے،
چار سو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا
جس روز نواز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا، ہم نے اپنے ٹی وی شو میں گزارش کی تھی کہ ہمیں ان پر باقاعدہ ترس آ رہا ہے اور ہم ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ٹی وی پر تقریب حلف برداری میں نومنتخب وزیراعظم کا اترا ہوا پریشان چہرہ دیکھ کر بعض قریبی عزیزوں نے بیگم صاحب سے فون پر پوچھنا بھی شروع کر دیا کہ میاں صاحب اس قدر سنجیدہ کیوں ہیں۔ ٹی وی پر موصوف کے کلوز شاٹ دیکھ کر یہ خیال ہمارے دل میں بھی آیا مگر اگلے ہی لمحے ہمیں اس کا جواب بھی مل گیا۔ ہمیں یقین تھا کہ میاں# صاحب اس وقت پاکستانی قوم بارے جن گہری سوچوں میں غرق تھے، انہیں شعری زبان میں کچھ یوں بیان کیا جا سکتا تھا #
چار سو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
اتنا آساں بھی نہیں تجھ پہ حکومت کرنا!
بہرحال، نواز شریف نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس ملک کے معاملات ٹھیک کرنے کے عزم پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ فی الحال ان کے کسی وزیر مشیر نے کسی قسم کی ”حاجت مندی“ کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تعلقات پہلے ہلے میں ہی نقطہ کمال تک جا پہنچے ہیں۔ فقط ”کاشغر تا گوادر“ پراجیکٹ کے شروع ہونے سے ہی پاکستانی قوم کو دس لاکھ نئی نوکریوں اور خزانے کو دس ارب ڈالر کا تحفہ ملتا صاف نظر آتا ہے۔ یہ تو ابھی صرف آغاز ہے۔ ایک تازہ ترین انکشاف یہ ہوا ہے کہ چین# کو جنوبی ایشیا کے ساتھ جوڑنے کے لئے قدرت نے کوہ ہمالیہ کا سینہ چیر کر لاتعداد تنگ درے اور سرنگیں کروڑوں سال پہلے ہی بنا دی تھیں۔ ان میں سے سات راستوں کی تعمیر کا کام شروع ہونے کو ہے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نوکریوں کی تعداد سن کر بہت سوں کی آنکھیں بھی ہماری آنکھوں کی طرح پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ جی ہاں یہ تعداد تین ارب بتائی جاتی ہے۔ گویا پورے عوامی جمہوریہ چین، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور دو چار وسطی ایشیائی ممالک کی آبادی بھی اگر ساری کی ساری اس عظیم الشان منصوبے میں جھونک دی جائے تو شاید چند لاکھ نوکریاں پھر بھی بچ رہیں۔ ہمارے دوست ناہنجار# صاحب کہتے ہیں کہ نوکریوں کی اتنی بڑی تعداد کو یوسف رضا گیلانی کس حسرت کے ساتھ دیکھتے ہوں گے۔ موصوف کو فی الحال تو نیب نے اوگرا کیس میں طلب کیا ہے مگر دو چار بڑے سکینڈل ابھی اور سامنے آنے والے ہیں۔ بہتر یہی ہو گا کہ شاہ صاحب کو عید کے بعد ایک ہی مرتبہ تکلیف دی جائے کہ ملتان سے بار بار آنا جانا کون سا آسان کام ہے۔ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کارپوریشن سکینڈل کو فاضل عدالت اوگرا# سے بھی کئی گنا بڑا سکینڈل قرار دے چکی ہے جو عنقریب منظر عام پر پوری تفصیلات کے ساتھ آنے والا ہے۔ اس کے علاوہ ای او پی آئی کے سابق چیئرمین ظفر گوندل پر بھی لگ بھگ 20 ارب کی کرپشن کے الزامات لگ چکے ہیں۔ دو ایک چھوٹے بڑے کیسوں میں تو موصوف پر کرپشن کا پرچہ بھی درج ہو چکا ہے۔ گوندل صاحب کے بڑے بھائی نذر گوندل یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر تھے۔ خیر، نواز شریف کے سامنے سر اٹھائے کھڑے مسائل میں سے ایک پراسیکیوشن بھی ہے۔ یعنی کرپشن کے یہ بڑے بڑے مگر مچھ لوٹے ہوئے اربوں روپوں میں سے فقط چند کروڑ خرچ کر کے پولیس سمیت تمام تفتیشی محکموں اور ایجنسیوں کو کم از کم اس حد تک آمادہ ضرور کر لیتے ہیں کہ ان کے خلاف کیس ہی نہایت بے جان بلکہ خصی قسم کا قائم کیا جائے کہ جس پر عدالتیں چاہیں بھی تو سزا نہ دے سکیں۔ اس حوالے سے ایک موثر لائحہ عمل تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نواز شریف کے لئے امنِ عامہ اور دہشت گردی بھی بہت بڑے مسائل ہیں اور تو اور، ابھی حال ہی میں رائیونڈ سے چند دہشت گرد پوری پلاننگ اور اسلحے کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں جبکہ پہلی تفتیش میں ہی انہوں نے اگل دیا ہے کہ دو اہم شخصیات ان کی ہٹ لسٹ پر تھیں۔ لاء اینڈ آرڈر شہباز شریف حکومت کا کل بھی کمزور ترین پہلو تھا، اور آج بھی ہے۔ لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ کے مسائل بارے ہم بار بار گزارش کر چکے ہیں کہ اس کے معاملات خطرناک حد تک تجاوز کرتے جا رہے ہیں مگر غیر قانونی کیمیکل گوداموں کے حوالے سے کوئی قابل ذکر حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی۔ ڈیفنس بیدیاں# روڈ کے آس پاس ٹرالی مافیا نے اربوں کی زرعی اراضی کا جو حشر مٹی نکال نکال کر کیا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہم چونکہ اس ظلم کے چشم دید گواہ ہیں، اس لئے خود حاضر ہو کر وزیر اعلیٰ کو آگاہ کیا تھا کہ قبلہ، قومی اثاثوں کا ستیاناس تو خیر ہو ہی رہا ہے مگر اس حوالے سے تاریخ آپ کے ساتھ بھی کچھ اچھا سلوک نہیں کرے گی۔ اس سلسلے میں ہم نے نام لے کر موصوف کے چند چہیتے سٹاف افسروں کا تذکرہ بھی کیا تھا کہ جن کا نام اس بہت بڑے سکینڈل میں لیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ ایک چھوٹے سے بیہودہ وقفے کے بعد آج بھی جاری و ساری ہے۔ نہ وزیر اعلیٰ کے کان پر جوں رینگی اور نہ سٹاف افسر صاحب کے۔ لگتا ہے فی الحال سارا دھیان راجن پور پولیس پر ہی مرکوز ہے!! راجن پور کے مخولیہ ”پلس“ مقابلوں کا تذکرہ آئندہ سہی۔
تازہ ترین