• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ہر شخص جو تھوڑا سا بھی سیاسی شعور رکھتا ہے اور قوموں کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات اور ان کے تقاضوں کو سمجھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ جدید دور میں ڈپلومیسی اور خارجہ حکمت عملی ہتھیاروں سے زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ جس وقت امریکا مشرق وسطیٰ میں فوجی کارروائی شروع کرنے والا تھا ۔اہل دانش نے یہ حقیقت امریکا کے صدر کے گوش گزار کرنے کی کوشش کی کہ جنگی کارروائی سے جو عدم استحکام پیدا ہو گا وہ آنے والے وقت میں امریکی مفادات کو خطرے میں ڈال دے گا اور نہ صرف یہ بلکہ مشرق وسطیٰ میں اس کے دوست ملکوں کو بھی غیر مستحکم کردے گا لیکن پینٹا گون کے پالیسی سازوں اور حکمت عملی وضع کرنے والوں نے ایسا چکر چلایا کہ امریکہ خم ٹھونک کر میدان جنگ میں کود پڑا۔ پورا مشرق وسطیٰ عدم استحکام میں مبتلا ہو گیا وہ اسرائیلی لابی جو جنگجویانہ طرز عمل کی ذمہ دار تھی آج مشرق وسطٰی کی گرتی ہوئی سیاسی دیوار کا ملبہ اسرائیل پر گرنے کے خوف سے لرزہ بر اندام ہے۔
گزشتہ دنوں جان کیری امریکی وزیر خارجہ اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر مشرق وسطیٰ پہنچے تاکہ اسرائیل اور فلسطینی لیڈروں کو امن کے قیام پر راضی کر سکیں۔ اس لئے کہ عرب ملکوں کے بعد ترکی میں بھی عدم استحکام کی صورت پیدا ہو رہی ہے۔ مصر اپنے نازک دور سے گزر رہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ وہاں کا عدم استحکام نہ صرف وہاں کی حکومت کو لے بیٹھے گا ۔ بلکہ امریکا کے دوسرے دوست ملک جو اس علاقے میں ہیں وہ بھی متاثر ہوں گے۔ اب مصر میں فوج نے مرسی کا تختہ الٹ دیا ہے اور آئین معطل کر دیا ہے۔ سابق صدر مرسی نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ وہ عوام پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں ناکام ہو گئے ہیں، مصری فوج کیلئے یہ ناممکن ہو گیا تھا کہ وہ تماشائی بنی رہے اس لئے کہ نہ ملک میں حکومت کی رٹ رہی تھی اور نہ آئین و قانون کی عملداری صدر مرسی ایک ایسے ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، جس کے عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اب آئین کی تشکیل کی جائے گی۔امریکا کی انتہائی کوشش یہ ہے کہ وہ اپنے مفادات کے علاقوں میں ایسے حالات کوقائم رکھے جس سے اسے افغانستان سے نکلنے میں ان دیکھی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ امریکا کو ہر حالت میں اگلے سال تک افغانستان سے نکلنا ہے۔ لیکن اس سے علاقے میں ایک خلا پیدا ہوگا اور عدم استحکام کی ہوا پاکستان میں بھی چل پڑے گی۔
پاکستان کی اندرونی سلامتی پہلے ہی خطرات سے دوچار ہے ،خیبر پختونخوا ،بلوچستان میں صورتحال قابو سے باہر ہو رہی ہے۔ وہاں فوج آپریشن کر رہی ہے۔ لیکن ایک جمہوری حکومت بھی فوجی آپریشن کو حصول مقصدکا ذریعہ بنانے کا راستہ اختیار کرتی ہے تو یہ انتہائی دکھ کی بات ہے۔ منتخب حکومت کو تو مذاکرات کو اپنا ہتھیار بنانا چاہئے۔ لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ منتخب حکومت غلط سمت میں سفر کرنے لگی ہے۔ مسائل خواہ کسی طرح کے ہوں ایک سول حکومت کو گفت و شنید کرنی ہو گی۔مذاکرات کا سہارا لینا پڑے گا اور یہ کہ غلط لوگوں سے مذاکرات صورتحال کو سدھارنے کے بجائے اور خراب کر دیں گے۔ ایک ایسا معاشرہ ایک ایسا ملک کس طرح موجودہ صورتحال، بیرونی دباؤ اور اندرونی خلفشار کا مقابلہ کرے گا جو حکومت کی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے عدم استحکام کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔امریکا کی کوشش یہ ہے کہ وہ پاکستان کے تعاون سے افغانستان سے کامیابی سے نکل جائے،دوسری طرف وہ حکمت عملی کے تحت افغانستان میں بھارتی موجودگی کیلئے کوشاں ہے۔دوسری طرف افغان حکومت یہ الزام لگا رہی ہے کہ افغانستان کے طالبان پاکستان کے زیر اثر ہیں جس کی تردید کی گئی ہے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا لیوریج بنے جس کو پاکستان استعمال کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے مضبوط حکومت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کیلئے یہ بات باعث تشویش ہو سکتی ہے اور خاص طور سے ایسے طبقے کیلئے جو بھارت کو افغانستان میں کسی قسم کا رول دئیے جانے کا مخالف ہے، لیکن کیا پاکستان آج کی غیر مستحکم صورت حال میں اپنا نقطہ نظر منوانے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ میرے خیال سے تو نہیں۔درحقیقت یہ کام پانچ سال پہلے شروع ہونا چاہئے تھا اور امریکہ کی لیڈر شپ کے ذہن کو پڑھنا چاہئے تھا اور اس کو ناکام بنانے کے لئے صحیح سمت میں آگے بڑھنے کی ضرورت تھی۔ امریکی حکومت بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان کو اپنے تعلقات بھارت سے خوشگوار رکھنا چاہئیں۔ وہ پاکستان پر اس کیلئے اس دباؤ بھی ڈال رہے ہیں، ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت سے پاکستان کے تعلقات خوشگوار اوردوستانہ بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارا پڑوسی ملک ہے لیکن ایسا ہونے کے درمیان کئی مقامات ایسے آئیں گے کہ موجودہ حکومت کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت فوج سے اور ایجنسیوں سے امن و امان کے قیام کیلئے تعاون طلب کر رہی ہے۔ انہوں نے کوئٹہ میں اس کا عندیہ دیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ غلط سوچ ہے۔ یہ جمہوری حکومت ہے اسے عوام میں اور عوام کے ساتھ اعتماد سازی کا عمل جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ بقول شاعر
صحرا میں آسماں نظر آتا ہے بے کراں
شہروں میں آ گیا ہے تو خانوں میں بٹ گیا
میاں نواز شریف کی پہلی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہ عوام سے خیبر پختونخوا کے عوام بلوچستان کے عوام سے اپنا رابطہ پیدا کریں جو قوتیں چھوٹے صوبوں میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ان سے مذاکرات کریں تقریروں سے اور بیان بازی سے نہ پہلے کچھ ہوا تھا اور نہ اب ہو گا بلکہ ان سے پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی بڑھنے کا امکان سوا ہو جائے گا جس کو ڈپلومیسی کے ذریعہ کم کیا جا سکتا ہے۔تاکہ قومی اتحاد اور فکری یکجہتی پیدا ہو سکے کیونکہ مسائل کا حل اسی میں ہے۔
تازہ ترین