میں اس وقت سپرپاور امریکہ کے شہر شکاگو میں موجود ہوں جسے امریکہ کےجدیدترین بڑے شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، مشی گن جھیل کے کنارے واقع یہ شہر اکانومی، ٹیکنالوجی، کلچر، کامرس،ٹورازم اور ایجوکیشن کا عالمی مرکز ہے، سال2018 میں 58ملین سیاحوں نے شکاگو کا رُخ کیا جو ایک عالمی ریکارڈہے، تاریخی طور پر پہلی جنگ عظیم کے بعد شکاگو نے امریکہ کی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا، آج بھی امریکہ کو صنعتی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے سپرپاور کاعالمی درجہ حاصل کرنے میں شکاگو میں بسنے والوں کی نمایاں خدمات ہیں، میں نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران مختلف لوگوں سے تبادلہ خیال بھی کیا، افغانستان سے سپرپاور امریکہ کی واپسی کو جہاں بہت سے لوگوں نے دانشمندانہ فیصلہ قرار دیا ، وہیں بہت سے لوگ اسے سپرپاور امریکہ کے زوال کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ دورجدید کے عالمی منظرنامے میں سپرپاور کا تصورگزشتہ صدی میں سامنے آیا ،آسان لفظوں میں عسکری اور معاشی اعتبار سے مضبوط ترین ملک سپرپاور کہلاتا ہے جس کی رائے کو عالمی برادری نظرانداز نہیں کرتی، دنیا کے ہر مسئلے کے حل کیلئے سپرپاور کی جانب دیکھا جاتا ہے۔گزشتہ صدی کے دوران امریکہ، سویت یونین ، برطانیہ، فرانس اور جاپان ایسے طاقتور ممالک بن کر ابھرے جنہوں نے انسانی تاریخ کا رُخ موڑنے کی اہلیت حاصل کرلی ، سپرپاور برطانیہ کے زمانہ عروج کے موقع پربرطانوی محقق ہالفورڈ جان میکنڈر نے1904میں دی جیوگرافیکل پیوٹ آف ہسٹری کے نام سے اپنے تحقیقی مقالے میں ہارٹ لینڈ تھیوری پیش کی، تجزیہ نگار نے عالمی دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کیا، نمبر ایک ورلڈ آئی لینڈ جس میں یورپ، ایشیا اور افریقہ کے منسلک خطے شامل ہیں، انہیں دنیا کے سب سے بڑے، گنجان آبادی اور زمینی وسائل سے مالامال علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نمبر دو آف شور جزائر جس میں برطانیہ اور جاپان کے علاقے شامل ہیں اور نمبر تین آؤٹ لائینگ آئی لینڈز جن میں شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ اور اوشیانیا کے خطے شامل ہیں۔شرق یورپ پر مشتمل ہارٹ لینڈ جسے سرزمین کے مرکزی مقام دِل کا درجہ دیا گیا تھا، وہ اس زمانے کے روس اور پھر سویت یونین کے زیرتسلط تھا، بعد ازاں 1919میں مکینڈر نے اپنی شہرہ آفاق ہارٹ لینڈ تھیوری کے حوالے سے مزید بیان کیا کہ جو طاقت ہارٹ لینڈ کو کنٹرول کرتی ہے وہ پورے ورلڈ آئی لینڈ کو کنٹرول کرنے کی اہلیت حاصل کرلیتی ہے اور ورلڈآئی لینڈ کو کنٹرول کرنے کا مطلب پوری دنیا کا کنٹرول حاصل کرنا ہے، ہارٹ لینڈ تھیوری کے مطابق برطانیہ اور روس کے مابین خطے پرمزید غلبہ حاصل کرنے کی کشمکش کا آغاز ہوا ، افغانستان کو 1919میں برطانیہ نے آزاد ی دے کر روس کے غلبے کے پیش نظر بفرزون ریاست قائم کرنے کی کوشش کی، کہا جاتا ہے کہ روسی سلطنت کے برطانوی ہندوستان سے سرحدیں ملحقہ ہونے کے خدشے کے پیش نظر واخان کی تنگ پٹی سمیت مختلف علاقوں کو افغانستان کا حصہ تسلیم کیا گیا۔ تاہم عظیم سلطنت برطانیہ جہاں سورج غروب نہیں ہوا کرتا تھا، دوسری جنگ عظیم کے بعد معاشی طور پر کمزور ہونا شروع ہوگئی اور متعدد کالونی ممالک میں آزادی کی تحریکیں سر اٹھانے لگیں۔برطانوی سامراج کا سورج غروب ہوا تو امریکہ اور سویت یونین بطوردو سپرپاور ایک دوسرے کو ہر محاذ پر نیچا دکھانے کیلئے سرگرم ہوگئے، دوسری جنگ عظیم کے ان دو بڑے اتحادی ممالک نے طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔گزشتہ صدی کی آخری دہائی تک سوویت یونین کو عالمی سطح پر موثرسپر پاور سمجھاجاتا تھاجس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ جس علاقے کا رْخ کرلے، وہ مفتوح ہونے سے پھر نہیں بچ سکتا۔ طاقت کے زعم میں سویت یونین نے افغانستان میں جارحیت کرکے ایک ایسی عبرتناک غلطی کی جس نے نہ صرف سویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا بلکہ دنیا کی واحد سپرپاور کا تاج امریکہ کے سر پر رکھ دیا۔ عالمی برادری بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک کو امریکہ سے بطور واحد سپرپاور بہت سی توقعات وابستہ تھیں، وہ سمجھتے تھے کہ اب امریکہ سویت یونین کی مخالفت سے بے پروا ہوکرعالمی مسائل اور تنازعات کے دیرپا حل کیلئے قائدانہ کردار ادا کرے گا، تاہم سویت یونین کی شکست کے بعد افغانستان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدینے سے عالمی مسائل میں اضافہ ہوا، بالخصوص نائن الیون حملوں کے بعد واحد سپرپاور امریکہ غضبناک ہوکر افغانستان پرحملہ آور ہوگیا۔امریکہ نے اپنے چار صدور کے دوراقتدارمیں افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے دوران لگ بھگ تین ٹریلین ڈالرز خرچ کرڈالے لیکن امریکہ کی آنکھوں کے سامنے طالبان ایک مرتبہ پھر افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہوگئے ، جس غیرمنظم اور ہنگامی بنیادوں پر افغانستان سے امریکی انخلا کا عمل جاری ہے، وہ دنیا کی واحد سپرپاور کی جگ ہنسائی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ گزشہ صدی میں برطانیہ، فرانس، امریکہ، سویت یونین اور جاپان سمیت پانچ سپرپاور ممالک تھے جوپھرجنگ عظیم دوئم کے بعد دو سپرپاور امریکہ اور سویت یونین تک محدود ہوگئے، سویت یونین افغان جنگ کے نتیجے میں سپرپاور کے رتبے سے محروم ہوگیا اور اب اکیسویں صدی کاواحد سپرپاور ملک بھی افغانستان میں جنگ کے تلخ نتائج کا سامنا کررہا ہے، میں دنیا کی ہر سپرپاور نے جنگوں میں اپنے آپ کو بلاجواز الجھا کر اپنی طاقت گنوائی ہے۔ آج افغانستان میں طالبان کی واپسی عالمی منظرنامے میں ایک نئے ٹرننگ پوائنٹ کی ابتدا ہے، موجودہ صورتحال کے تناظر میں چین بھی سپرپاورکی دوڑ میں شامل ہے اور روس ایک مرتبہ پھراپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے، میری نظر میںجو عالمی طاقت افغانستان میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی، وہی اب سپرپاور کے درجے پر فائز ہوکر دنیا کو کنٹرول کرئے گی، امید ہے کہ مستقبل کی سپرپاور اپنے آپ کو جنگوں میں ملوث نہیں کرے گی بلکہ عالمی امن کے قیام کیلئے اپنا قائدانہ کردار ادا کرے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)