• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عجب سا رواج جڑ پکڑ چکا ہے کہ ایک دن تہلکہ مچا تی ہو ئی خبر تمام میڈیا کی زینت بن جائے، کچھ روز دھماکہ خیزبحث و مباحثہ ہو اور ایک ہفتے کے بعد ہی زینت بی بی ”زینت امان“ ہو جائے۔ اس حوالے سے ایبٹ آباد کمیشن کی لِیک شدہ رپورٹ معروف بیرونی نشریاتی ادارے سے نشرکی گئی جسے ہمارے میڈیا نے اُچک کے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اغوا شدہ رپورٹ کا حشر نشر کر ڈالا۔ اس رویے پر تنقید کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ ہماری قومی تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں ان جیسے لاتعداد کمیشن اور کمیٹیاں بیٹھیں پھر خاصا عرصہ لیٹنے کے بعد اُٹھیں جس کے نتیجے میں حکومتِ وقت کو خاصی اُٹھک بیٹھک کرنا پڑی مگر بیچاری قوم محوِ حیرت اور تماشا دیکھتی رہی۔ جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ کمیشن تو بہت سے بیٹھے مگر دو کا ذکر ضروری ہوگا۔ ایک حمودالرحمن اور دوسرا ایبٹ آباد کمیشن۔ ان دونوں نے ہماری قومی اور بین الاقوامی جگ ہنسائی کے اسباب اور قومی ساکھ کو راکھ میں ملانے والوں کی نشاندہی کرنا تھی مگراللہ کا کرنا یہ ہواکہ دسمبر 1971میں صدر ذوالفقارعلی بھٹوکی درخواست پر سپریم کورٹ نے پانچ رکنی کمیشن بنایاجس کی سر پرستی چیف جسٹس حمودالرحمن نے خود کی۔ باقی چار جج صاحبان میں سے دو بلوچستان ہائی کورٹ سے، ایک چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور ایک سپریم کورٹ کے سینیئر جج تھے اور لیفٹینینٹ جنرل الطاف قادر کو فوجی مشیر کے طور پر نامزد کیا گیا۔ سات ماہ کے قلیل عرصے میں عبوری رپورٹ مکمل کر لی گئی جس میں مزید گواہوں کی ہندوستان کی قید سے رہائی کا انتظار مقصودتھا۔قارئینِ کرام! حسنِ اتفاق دیکھیے کہ جولائی 1974کو ایبٹ آباد میں ہی کمیشن نے اپنے کام کا دوبارہ آغاز کیا اور تین سو سے زائد اعلیٰ فوجی اور سول حکام سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد اکتوبر1974 کو صدر سے وزیرِاعظم بننے والے ذوالفقارعلی بھٹوکو کمیشن کی رپورٹ کی ایک کاپی پیش کر دی ۔باقی گیارہ کاپیاں یا تو جلا دی گئیں یا پھر گم ہو گئیں۔ مزے کی بات کہ وزیرِ اعظم کو دی گئی اکلوتی کاپی بھی آج تک لاپتا ہے۔2000ئمیں رپورٹ کے چیدہ چیدہ حصے اخبارات میں وقفے وقفے سے لیک ہوتے رہے مگر افسوس کہ اس وقت ڈرامے کے مرکزی کردار خالقِ حقیقی سے مل چکے تھے یا تیاری میں تھے۔پڑھنے اور سننے میں ایبٹ آباد کمیشن بھی انجام کے لحاظ سے حمودالرحمن کمیشن کی ساس معلوم ہوتی ہے البتہ اس کے کئی پہلونُدرت کاشاہکار ہیں۔ پہلی جِدّت ، صدرِ مملکت نے چیف جسٹس کو درخواست کرنے کی بجائے خودہی کمیشن بنا ڈالا۔عقل و فہم کا تقاضا بھی یہی تھا کیونکہ اگر وہ چیف جسٹس کو کہتے تو پہلی پوچھ گچھ بھی انھی سے شروع ہوتی۔ کمیشن کے اجراء اور ممبران کی تقرری میں خاصی تاخیر اور دشواری دیکھنے میں آئی اور آخر میں جو ٹیم ایبٹ آباد کی خوبصورت وادی میں اتاری گئی اس میں ہر اسٹیک ہولڈر کا ایک گول کیپر شامل تھا جن کی نگرانی ایک اعلیٰ جج کے حوالے کی گئی تاکہ ٹورنامنٹ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کھیلا جائے۔ کمیشن مبارکباد کا مستحق ہے جس نے دوسال کی ان تھک محنت کے بعد300سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ حکومت کے حوالے کی، جس نے یہ رپورٹ محض پڑھنے اور سمجھنے میں چھ ماہ گزاردیئے اور فیصلہ کیے بغیر یہ رپورٹ بشمول ملک کی باگ ڈور دوسری حکومت کے حوالے کر دی۔ اس ماہ رپورٹ کے نشر ہونے سے یہ عیاں ہواکہ چاروں ممبران میں سے تین اندرونی اختلافات رکھنے کے باوجود”مفاہمتی“ رپورٹ مرتب کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ چوتھا ممبر اپنے اختلافی نوٹ پر قائم رہا۔قارئینِ کرام! کسی بھی کمیشن کے دو بنیادی فرائض ہوتے ہیں، ایک اہم مواد کاپرکھنا اور دوسرا اس مواد کی روشنی میں ذمہ داران کا تعین کرنا۔ جہاں تک مواد کے پرکھنے کا سوال ہے تو دونوں کمیشنز نے یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی البتہ جب فیصلے کی گھڑی آئی تو حمودالرحمن کمیشن نے اپنی سفارشات میں سیاسی، انتظامی، فوجی اوراخلاقی ناکامیوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ انکے ذمہ داران پر قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ بھی دیا۔ اس کے بر عکس ایبٹ آباد کمیشن نے بے بہا مواد ہونے کے باوجود بھی اپنی سفارشات میں گول مول بات تو کی مگر افسوس کہ کوئی گول نہ کر سکے۔ ان مایوس کن حالات میں ایک ہی پُر امید بات محترم وزیرِ اطلاعات کی نسبت سے سامنے آئی جب انہوں نے یہ یقین دہانی کرائی کہ اصل رپورٹ کی جلد اشاعت زیرِغور ہے اور یہ رپورٹ انتہائی محفوظ ترین مقام پر موجود ہے۔ خدا کرے کہ یہ محفوظ مقام ایبٹ آباد سے کچھ زیادہ محفوظ ترین نہ ہو؟ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے قتیل شفائی کا مشہور فلمی نغمہ شدت سے یاد آیا:
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
تازہ ترین