• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاید ہی شرف قبولیت حاصل ہواس لئے لکھ رہا ہوں، روزنامہ جنگ کے سینئر کالمسٹ مرحوم ارشاد حقانی اپنے کالموں میں اکثر لکھا کرتے تھے ہم سے مشورہ مانگا تو جاتا ہے مگر اس پر کبھی عمل نہیں ہوتا ،ہم قوم کے مشترکہ مفاد میں مشورہ دیتے ہیں جبکہ ہمارے حکمرانوں کے پیش نظر ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ دسمبر تک پاکستان کی موسٹ پاورفل ٹرائیکا بدل رہی ہے۔ صدر کے الیکشن شیڈول کا اعلان ہو چکا ۔ تاریخ میں تبدیلی ممکن ہے مگر الیکشن بروقت ہوں گے۔ سینیٹر اور ممبر قومی اسمبلی کا ایک ووٹ ہو گا جبکہ ہر صوبائی اسمبلی کو5 6 ووٹ ملیں گے۔ صوبائی اسمبلیوں کو برابری کی سطح پر لانے کا آئینی مقصد صدر کو چاروں صوبوں کا نمائندہ قرار دینا ہے۔آئین کے مطابق صدر غیر سیاسی ہوتا ہے اور وہ پوری قوم کی نمائندگی کرتا ہے مگر اس قوم کے حکمران ایسے لوگ بھی رہے ہیں کہ وہ جس آئین کے تحفظ کا حلف لیتے ہیں اس کی کسی بھی شق کو جو ان کے ذاتی مفاد میں نہ ہو تسلیم نہیں کرتے ۔ صدر زرداری، ان کے خلاف عدالت میں آئین کی خلاف ورزی کی پٹیشن زیر سماعت رہی مگر وہ پانچ سال سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے اور ایک پارٹی کی قیادت کرتے رہے ۔پارٹی قائد کے طور پر جس آئین کے تحفظ کا انہوں نے حلف لیا اسی کی بے حرمتی کرتے رہے ۔اس طرح کی بے قاعدگیاں آفرینش پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھیں جن کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ کالم پر کسی فرد واحد پر تنقید کا الزام نہ آئے۔ 1956ء کا آئین دامے درمے سخنے نافذالعمل ہوا اور پاکستان کی بطور آئینی ریاست پہچان بنی۔ آئین کی طرز پارلیمانی تھی مگر صدر اسکندر مرزا کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی حمایت سے تمام اختیارات پر قابض ہو گئے ۔جنرل ایوب خان کمانڈر انچیف کے عہدے کے ساتھ وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کا قلمدان بھی سنبھالے ہوئے تھے۔ وزیر اعظم ،صدر زرداری کے وزرائے اعظم کی طرح محض نمائشی تھے۔میں اپنے اکثر کالموں میں لکھ چکا ہوں جب سول حکمران عوامی احتجاج کو دبانے کے لئے فوج کو استعمال کرتے ہیں تو فوجی کمانڈرز سوچنا شروع کر دیتے ہیں اگر ہمیں ہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر اقتدار کی کرسی پر بھی ہم ہی بیٹھ جاتے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کا پارلیمانی آئین تخلیق کیا۔ خود وزیراعظم بنے اور پیپلزپارٹی کے بنیادی ممبر چوہدری فضل الٰہی جنہوں نے پارٹی ٹکٹ پر ایم این اے کا الیکشن جیتا اور پارٹی کی نامزدگی پر اسپیکر بنے، صدارت کے لئے نامزد کر دیا ۔سیاست ایک علم ہے جو شخص ساری زندگی سیاست کرتا رہا وہ ایک ہی دن میں عہدوں سے استعفیٰ دے کر کیسے غیر سیاسی ہو گیا۔ یہ اقدام بظاہر آئین کے مطابق تو صحیح تھا مگر آئین کی روح کے مطابق درست نہ تھا ۔ضیاء الحق بندوق کے زور پر آئے تھے اور آئین کو Held in obeyancکی ٹوکری میں ڈال کر،بندوق کے زور پر حکمرانی کرتے رہے۔جنرل ضیاء الحق کا طیارے کے حادثے میں انتقال ہو گیا۔ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں نے الیکشن کرائے جس کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں ۔آئین تو وہی پارلیمانی تھا مگر ہندسے جگہ بدل چکے تھے۔ وزیراعظم کے سارے اختیارات پر صدر غلام اسحاق قابض تھے۔ وزیراعظم نے احتجاج کیا تو کرپشن کے چارجز لگا کر صدر نے حکومت ڈسمس کر دی۔ دوبارہ الیکشن منعقد کرائے جن کے نتیجے میں میاں نوازشریف وزیراعظم بنے انہوں نے بھی اختیارات مانگے۔ احتجاج پر انہیں بھی کرپشن چارجز کا سامنا کرنا پڑا مگر اب کی بار صدر اور وزیراعظم دونوں کو جانا پڑا ۔بے نظیر دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئیں، اب کی بار وہ با اختیار وزیراعظم تھیں مگر انہوں نے بھی اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو والی غلطی دہرائی اور اپنی پارٹی کے سیاسی لیڈر ایم این اے اور وزیر فاروق لغاری کو تمام عہدوں سے استعفیٰ دلا کر صدر منتخب کروا دیا ۔ نہ وہ پہلے غیر سیاسی تھے اور نہ ہی صدارت کے بعد غیرسیاسی رہے۔ سیاسی صدر کے ساتھ وزیراعظم کا اختلاف ہوا اور صدر نے کرپشن چارجز لگا کر بے نظیر بھٹو کی گورنمنٹ برطرف کر دی۔ میاں نواز شریف دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئے ۔اب کی بار وہ بہت طاقتور تھے آتے ہی انہوں نے صدر کو فارغ کیا ،چیف جسٹس سے استعفیٰ لیا ۔نئے چیف آف اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا خاتمہ کر کے آئین کو held in obeyance کی ٹوکری میں ڈال کر حکومت پر قبضہ کر لیا۔ صدر زرداری کا ذکر ہو چکا۔ میرا مشورہ ہے آئین کو نہ چھیڑا جائے آئین کی پارلیمانی ہیئت کی حفاظت اسمبلی کی ذمہ داری ہے۔ بھارت کی طرح پاکستان کے منتخب ایوان بھی حقیقی غیر سیاسی صدر منتخب کریں۔ صدر کے بعد چیف آف اسٹاف کا عہدہ بھی 29نومبر کو خالی ہونیکا امکان ہے ۔جنرل کیانی 3سال توسیع لے چکے ہیں ۔ وزیر اعظم اپنے ایک بیان میں واضح کر چکے ہیں جنرل کیانی مزید توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔یہ سیاسی بیان بھی ہو سکتا ہے۔میرا مشورہ ہے حسب ماضی وزیر اعظم جرنیلوں کے انٹرویو کرنے اور اپنی پسند کا جنرل ڈھونڈنے کے بجائے سینئر موسٹ جنرل کو تعینات کردیں بلکہ بھارت کی طرح اس تعیناتی کو آئین کا حصہ بنائیں ۔میں اپنا مشورہ صائب ثابت کرنے کیلئے پاکستان کے فوجی سربراہان کی تعیناتی کا تاریخی حوالہ دینا چاہوں گا۔ جنرل گریسی کے بعد جنرل ایوب خان سینئر نہیں تھے جنرل اکبر سمیت 7 آفیسر ان سے سینئر تھے ۔ جنرل ایوب کی تعیناتی میں اسکندر مرزا کا رول تھا اسکندر مرزا کو پہلے گورنر جنرل اور پھر صدر بنانے میں انکا کردار تھا، دونوں فیملی فرینڈ تھے ۔ ایوب خان نے ہی اسکندر مرزا کی حکومت کاخاتمہ کیا۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرجنرل ایوب خان نے سینئر موسٹ آفیسر جنرل موسیٰ کو کمانڈر انچیف تعینات کیا جنرل موسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر صدر ایوب نے جونیئر موسٹ جنرل یحییٰ خان کو کمانڈر انچیف مقرر کیا جنہوں نے ایوب خان کی حکومت ختم کی ۔ جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان نے یحییٰ خان سے حکومت چھین کر بھٹو صاحب کو پیش کی ان دونوں کی موجودگی میں بھٹو صاحب خود کو مطمئن محسوس نہیں کرتے تھے انہیں بوجوہ سفیر بنا کر باہر بھجوا دیا اور سینئر جنرل ٹکا خان کو آرمی چیف تعینات کیا ۔ٹکا خان کی ریٹائرمنٹ پر بھٹو صاحب نے جونیئر جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف مقرر کیا جس نے بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کیا اور قتل کے مقدمے میں انہیں پھانسی پر لٹکا دیا ۔جنرل ضیاء اپنی زندگی میں ہی سینئر جنرل اسلم بیگ کو آرمی چیف مقرر کر گئے تھے۔ بیگ صاحب نے گو سیاست میں مداخلت کی مگر ٹرم مکمل ہوتے ہی ریٹائر ہو گئے ۔صدر غلام اسحاق خان نے سینئر جنرل آصف جنجوعہ کو آرمی چیف مقرر کیا ،جنجوعہ صاحب کے بعد جنرل وحید کاکڑ جو سینئر نہیں تھے کو صدر غلام اسحاق خان نے آرمی چیف مقرر کیا ۔ صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان اختلافات کی وجہ سے صدر نے انکی حکومت ختم کر دی جسے عدالت نے بحال تو کر دیا مگر صدر نے قبول نہ کیا ۔ جنرل کاکڑ کے دباؤ پر نواز شریف کیساتھ صدر کو بھی ایوان صدارت سے رخصت ہونا پڑا۔ سینئر جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف بنے، گو وزیر اعظم نواز شریف سے ان کا اختلاف ہوا مگر انہوں نے حکومت کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہ جانا، اپنی سنیارٹی کی لاج رکھی قبل ازوقت استعفیٰ دے کر چلتے بنے ۔
وزیراعظم نوازشریف نے جونیئر جنرل پرویز مشرف جن سے جنرل علی قلی خان اور جنرل خالد سینئر تھے کو آرمی چیف مقرر کیا جس نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔2007ء میں صدر پرویز مشرف نے اشفاق پرویز کیانی جن سے جنرل قدوائی سینئر تھے کو آرمی چیف مقرر کیا۔ جنرل کیانی نے تین سال کی توسیع حاصل کی۔ سینئر جنرلز سے ایسی کوئی روایت منسلک نہیں اور نہ ہی ان پر اقتدار پر قابض ہونے کا الزام ہے۔ دسمبر میں چیف جسٹس بھی ریٹائر ہو رہے ہیں یقینا سینئر جج ہی ان کا جانشین ہو گا یہ آئینی ضرورت ہے مگر ابھی سے ان کا نام سامنے آ جانا چاہئے۔ موجودہ چیف جسٹس نے ابھی سے ان کی رہنمائی شروع کر دیں ۔ملک کو فاختہ کی نہیں عدلیہ کی آزادی کا امیج برقرار رکھنے کیلئے ایک hawlkچیف جسٹس کی ہی ضرورت ہے۔
تازہ ترین