• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی (تجزیہ:مظہر عباس) کراچی کا دہائیوں سے اَلمیہ رہا ہے کہ اس کی ملکیت کو کسی بھی سول یا فوجی حکومت نے تسلیم نہیں کیا۔ ملک کے اس سب سے بڑے شہر کو دُنیا کی ایسی دیگر آبادیوں کی طرح میٹروپولیٹن شہر تسلیم نہیں کیا گیا جن میں نیویارک، شنگھائی، ممبئی، استنبول، ٹوکیو شامل ہیں۔ کراچی جو کبھی ملک کا دارالحکومت رہا۔ وہ تنگ ذہن سیاسی حکمت عملی کا شکار ہے۔ 

موجودہ حالات میں جب وزیراعظم عمران خان آج کراچی کے دورے پر آ رہے ہیں کراچی کے مسئلہ کا بہترین حل کیا ہے؟ آیا انہیں عوامی دلچسپی کے حامل میگا پروجیکٹس پر بریفنگ دی جائے گی، جن میں کراچی سرکلر ریلوے اور ساحلی پٹی سے متعلقہ منصوبے شامل ہیں۔ ابھی تو ہمیں یہ جاننا ہے کہ کراچی کی قطعی آبادی کتنی ہے۔ 

یہ اچھا ہے کہ نئی مردم شماری آئندہ عام انتخابات سے قبل ہو جائے گی انتخابات اسی وقت آزادانہ اورمنصفانہ ہو سکتے ہیں جب مردم شماری شفاف ہو اور اسے تمام اسٹیک ہولڈرز تسلیم کریں۔ اس وقت پورا نظام اور انتظام درہم برہم ہے۔ شہر کی 60لاکھ آبادی کچی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ 

پورا شہر جرائم کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ کوئی بھی اس سنگین مسئلہ کو حل کرنا نہیں چاہتا۔ 

جرائم، پولیس اور سیاست کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے یہ جرائم کا گڑھ یہ شہر محفوظ نہیں بن سکا۔ 1980ء کی دہائی میں جاپان نے کراچی کے لئے 5 ہزار بڑی بسیں تجویز کیں اور کہا کہ آٹو رکشہ اور منی بسیں نہیں چلنی چاہئیں، اس کے علاوہ سرکلر ریلوے کو وسعت دینے کے ساتھ اسے بہتر بنایا جائے.

لیکن تواتر کے ساتھ حکمرانوں اور بلدیاتی حکومتوں نے کرپٹ بیورو کریسی کی مدد سے شہر کو لسانی، فرقہ وارانہ اور سیاسی خطوط پر تقسیم کئے رکھا۔

 1984ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ افراد تشدد کا شکار ہوگئے۔ کراچی تمام مافیاز اور دہشت گرد نیٹ ورکس کا گڑھ بن گیا ہے۔ کراچی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس شہر کا آج تک کوئی ماسٹر پلان نہیں بنا۔ 

اگر بنے بھی تو ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ لہٰذا ماس ٹرانزٹ اور عظیم تر آب رسانی کا منصوبہ کے۔فور بھی لاگو نہیں ہوا۔ا یسے درجنوں منصوبے ہیں جن کے لئے مختص اربوں روپے سیاست دانوں یا حکمرانوں اور بیورو کریٹس کی جیبوں میں چلے گئے۔ 

کراچی کے فلائی اوورز، پُل، اَنڈر پاس اس کی منفرد مثال ہیں۔ سندھ کو جیتنے کے لئے سندھ اور وفاق میں جو دوڑ لگی ہے یہ اچھی بات ہے لیکن رُکاوٹ بلدیاتی اداروں کو بااختیار اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت انہیں خودمختار نہ بنانا ہے۔ کراچی کے لئے وفاق، صوبائی اور سٹی حکومت کے تحت سہ رُخی حکمت عملی ناکام ثابت ہوئی۔ 

کراچی پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا براہ راست کنٹرول بھی ناکام ثابت ہوا۔ شہر پر حکومتی اداروں کی عمل داری نے بھی پیچیدگیوں میں اضافہ کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وفاقی اورصوبائی حکومتیں کراچی کو میٹروپولیٹن شہر بنا کر اتفاق کریں۔ اسے مکمل مالی اور انتظامی اختیارات تفویض کریں۔

 متعلقہ ٹیکسوں کی وصولی کا اختیار اور اس کا طاقت ور کمشنر اور اپنی پولیس ہونی چاہئے۔ کراچی میں 35فیصد علاقوں تک کے ایم سی کا حدود اختیار ہے۔ باقی علاقے وفاقی، صوبائی حکومت اور6 کنٹونمنٹ بورڈز کی عمل داری میں آتے ہیں۔ 

ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اداروں کے نظام اور انتخابات کےا نعقاد میں ہچکچاہٹ دکھائی۔ 

بلدیاتی انتخابات 1979، 1983، 1987، 2001اور 2005میں فوجی حکومتوں کے تحت ہوئے۔ صرف ایک انتخاب 2015میں نوازشریف دور میں ہوا۔

تازہ ترین