• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی ہم پاکستانی امریکہ کی یاری کی تڑی لگاتے تھے ۔سیٹو،سینٹو کی ممبری کا چرچا کرتے تھے ۔ایک بھارتی نے ہماری بک بک سے تنگ آ کر کہا یار تم سارا دن امریکہ امریکہ کرتے رہتے ہو اسٹیٹکس اٹھا کر دیکھ لو امریکہ بھارت کو پاکستان سے کہیں زیادہ مدد دیتا ہے۔ ہم بھارتیوں کو آپ سے زیادہ ویزے جاری ہوتے ہیں ۔انوسٹمنٹ امریکیوں کی بھارت میں زیادہ ہے ۔ہم پہ یہ راز1965ء کی جنگ میں کھلا جب ہم نے یار کا خنجر اپنی پشت میں چبھتا محسوس کیا ۔جب آنکھیں کھلیں تو بہت دیر ہو چکی تھی اور یار کا جال سر تا پا ہمارا لباس بن چکا تھا جسے ہم شاید ہی کبھی توڑ پائیں ۔پھر ہم نے حسب فطرت چین ساڈا یار اے کا واویلا مچا دیا ۔کھوکھلے نعروں، کھوکھلی باتوں سے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ یہ ماؤ اور چو کا دور تھا چین تنہائی کا شکار تھا اس کے لئے پاکستان کی یاری کی کھڑکی نعمتِ زمان و مکاں تھی۔چین پاکستانی کھڑکی سے دنیا بھر کی روشنیوں میں جھانکنے لگا ۔یورپی ٹیکنالوجی تک رسائی ہم نے فراہم کی ۔آج جو چینی گلستانوں میں بہاریں ہیں ان کی تزئین میں ہمارا خون بھی شامل ہے ۔1968میں روس امریکہ کے درمیان سرحدی تنازع چل رہا تھا ۔امریکہ پاکستان کے ذریعے چین کو ساتھ ملا کر سرد جنگ میں اپنا پلہ بھاری کرنا چاہتا تھا جس کامطلب روس کے خلاف گھیرا تنگ کرنا تھا ۔ چینیوں نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال لئے۔امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان شٹل کاک بنے رہے ۔مذاکرات کامیاب ہوئے اور چین کو اقوام متحدہ کی ممبری کے ساتھ ساتھ ویٹو پاور بھی پلیٹ میں رکھا مل گیا۔1971ء میں روس نے بھارت کی پشت پناہی کر کے ہماری حماقتوں کا بدلہ چکا دیا اور ہمارے دوست چین اور امریکہ دور کھڑے تماشا دیکھتے رہے ۔ اندرا جب لال قلعہ پر کھڑی دو قومی نظریہ کو بحر بنگال میں ڈبونے کا بھاشن دے رہی تھی تو ہمارے معزز مہمان ہنری کیسنجر نے صرف اتنا کہا اس بوڑھی ڈائن کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ اندرا مغربی پاکستان پر قبضے کے اشارے دے رہی تھی روس کے منع کرنے پر رک گئی۔ تاریخ سیاست کی لیبارٹری ہے ۔قومیں ماضی سے سبق سیکھتی ہیں۔نہ جانے ہم کب سمجھیں گے، بین الاقوامی سیاست میں یاریوں کیلئے کوئی جگہ نہیں قومی مفاد ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستانی قوم حکمران نہیں اور سبق سیکھنے میں حکمرانوں کا ذاتی مفاد نہیں ۔چین سے پاکستان کی 9/ارب ڈالر کی سالانہ تجارت ہے ،8/ارب چین کماتا ہے ایک ارب پاکستان۔بھارت کی چین سے60/ارب ڈالر سے تجارت تجاوز کر چکی ہے اور دونوں کا ٹارگٹ100/ارب ڈالر ہے ۔ مگر یاری کا کہیں ذکر نہیں ۔اسے کہتے ہیں قومی مفاد اور inter dependencyکچھ لو کچھ دو یہی بین الاقوامی تجارت کے طور طریقے ہیں ۔یہ سب کچھ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے حکمران پھر سے چین یاترا پر ہیں اور میڈیا پر یاریوں کا شور وغوغا ہے۔ہمارے حکمران اقتدار کی راہداری میں داخل ہوتے ہی بین الاقوامی یاترا پر نکل پڑتے ہیں ۔قوم کو تاثر دیتے ہیں درختوں پر ڈالر لٹکے ہیں جلدی جلدی توڑ کر تمہاری قست سنوارنے والے ہیں۔ اس جھانسے میں جو تھوڑے بہت ڈالر قومی خزانے میں ہوتے ہیں وہ بھی لٹ جاتے ہیں ۔کشکول توڑنے کے نعرے لگانے والے پھر کسی ڈونر کے دروازے پر دستک دے رہے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے Rerolling loanآئی ایم ایف کی شرائط جس میں بجلی کی قیمت بڑھانے کی شرط بھی شامل ہے، حاصل کیا ہے۔ بجلی کی قیمت بڑھے گی تو روزمرہ ضروریات کی قیمتیں بھی بڑھیں گی ۔
قرض کی رقم پاکستان کو ملے گی نہیں، قسط کی ادائیگی ہو گی ۔2008ء میں صدر زرداری نے حلف لیتے ہی چین کا دورہ کیا ۔52کے قریب ایم او یو سائن کئے ۔یوں لگا کچھ ہونے والا ہے۔ ہوا ضرور بجلی ،گیس،روزگار سب غائب، مہنگائی نے غریبوں کو گھیر لیا خودکشیوں کا تانتا لگ گیا ،کچھ دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ کر قوم پر قہر بننے لگے۔ وزارتیں تھانوں کی طرح بکنے لگیں،منافع بخش اداروں پر جیل کے ملاقاتی بٹھا دیئے گئے ۔ کرپشن قوم کا امتیازی نشان بن گیا ۔ ایم او یو کی تقدیر میں کیا لکھا گیا قوم کو کچھ معلوم نہیں ۔اب پھر چین سے من و سلویٰ آنے کی صدائیں لگائی جا رہی ہیں ۔18بلین ڈالر کے منصوبوں کی مفاہمت کی یادداشت پردستخط کئے ہیں ۔یاد رکھیں یہ ابتدائی بات چیت ہے ۔ ابھی ان منصوبوں کے لئے مکمل فیزیبلٹی رپورٹس تیار ہوں گی۔ جن اداروں سے بات چیت ہوئی ہے یہ سب ٹیکنیکل معاونت دیں گے ۔گو مالیاتی اداروں کے سربراہوں سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں مگر فناسز اور ان کی شرائط سب کچھ طے کرنا ابھی باقی ہے۔کچھ ایسے پروجیکٹ جن میں چائنا کے مفادات تعمیر سے آگے ہیں جیسے کاشغر سے گوادر تک راہداری ۔ گوادر کا انتظام و انصرام پہلے ہی چائنا کے پاس ہے ۔گوادر کے علاوہ بلوچستان کے زیر زمین اثاثوں جن کیلئے چین امریکہ سمیت سب کی رال ٹپک رہی ہے تک رسائی کیلئے نہایت اہم ہے شاید جلد شروع ہو جائے۔ وزیراعظم نوازشریف چین کو اگر ایرانی پائپ لائن میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بڑی کامیابی ہو گی ایران بڑے آرڈر کیلئے گیس کی قیمت اور کم کر دے گا اور بڑے پلےئر کی شمولیت سے پائپ لائن بچھانا آسان ہو جائے گا ۔پائپ لائن بچھانے میں تو کوئی ممانعت نہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ سمیت امریکی پابندیاں آڑے آتی ہیں ۔ ،ایران کی سائڈ مکمل ہے ۔گو فنانسز کا مسئلہ پہلے ہی ایران نے حل کر دیا ہے مگر اس مصوبے میں چین کی شمولیت سے یقینا اخراجات میں اورکمی آئے گی اور قومی خزانے کی بچت ہو گی ۔ لائن بچھ گئی تو پابندیوں سے بھی نپٹا جا سکے گا ۔قارئین یاد رکھیں سستی اور جلد بجلی، گیس کا واحد ذریعہ ایرانی پائپ لائن ہے۔ 2008ء اور اس سے قبل بھی یہی ذریعہ تھا آج بھی یہی ہے۔باقی سب بہکاوے ہیں۔مسلم لیگ ن کی حکومت کے پاس leverageہے۔اگر وہ ایران سے گیس لے لے امریکہ ان سے 2014ء تک ناراض نہیں ہو گا۔ امریکہ کو ان کی ضرورت ہے ۔ایرانی پائپ لائن سے عارضی ریلیف قوم کو دیں اور چائنا سے مل کر لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کر لیں عوام فوج سب ان کے ساتھ ہوں گے۔جمہوریت کا مطلب عوام کو deliveryہے جو حکومتیں عوام کو deliverنہیں کرتیں وہ ووٹوں سے آئی ہوں یا کسی اور راستے سے، سول حکومتیں تو کہلا سکتی ہیں جمہوری نہیں۔
جمہوری حکومتیں عوام کو ڈلیور کرتی ہیں ۔ن لیگ کے پاس ڈلیوری کا گولڈن چانس ہے اب ہم واپس پاک چائنا منصوبوں کی طرف آتے ہیں۔ منصوبے تو سب قابل عمل ہیں مگر تشنہ سوال ہے سرمایہ کہاں سے آئے گا ۔اگر چائنا خرچ کرے گا تو کس بنیاد پر سب کچھ شفاف ہونا چاہئے ۔ روزنامہ جنگ، نیوز کے سینئر کالمسٹ اور میرے فیس بک فرینڈ محترم شاہین صہبائی چلتے چلتے کچھ ایسے خدشات کا اظہار اپنے8جولائی کے کالم میں کر چکے ہیں۔ صہبائی صاحب کے خدشات کی تصدیق اور قارئین کی رہنمائی کیلئے سیندک پروجیکٹ کا حوالہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ چاغی کے قصبے سیندک میں 1970ء میں چین کی مدد سے کاپر ،سونا اور چاندی کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ۔ 1995ء میں چین اور پاکستان میں سیندک پروجیکٹ کی ڈویلپمنٹ کے لئے 350ملین ڈالر کا معاہدہ ہوا۔پروجیکٹ کے شیئر 50%چائنا کے 48%حکومت پاکستان کے اور2%حکومت بلوچستان کے۔ منصوبے کی لاگت کیلئے17/ارب روپے کی فنڈنگ حکومت پاکستان کے ذمہ تھی ،2000ملازمین کی رہائش ،شاپنگ پلازا، اسپتال، اسکول، روڈ ، ریلوے لنک کی تعمیر کے لئے فنڈنگ بلوچستان حکومت فراہم کرے گی یعنی بلوچستان کو ایک ہاتھ سے دیکر دوسرے سے لے لیا جائے گا ۔پاور پروجیکٹ اور دیگر بڑی ضروریات کے لئے فرانس اور جرمنی سے قرض لیا جائے گا ۔چین نے اگر فنانس نہیں کرنا تو 50%شیئر کس بات کے اور بلوچستان حکومت جو اصل اسٹیک ہولڈر ہے اس کے شیئر2%،ہے نا حیرت کی بات ۔کیا یہ کسی ملک کی سلامتی اور یکجہتی کا فارمولاہے۔ کسی ممکنہ رکاوٹ کی وجہ سے یہ پروجیکٹ آگے نہ بڑھ سکا ۔ 2002ء میں انہی شرائط پر یہ پروجیکٹ مشرف گورنمنٹ نے10 سالہ لیز پر پھر چین کو دے دیا ۔لیز کی مدت 2012ء میں ختم ہونا تھی مگر صدر زرداری کی حکومت نے2011ء میں پانچ سال تک لیز میں مزید اضافہ کر دیا ۔اس پروجیکٹ سے چین اربوں ڈالر کا کاپر ، چاندی سونا نکال چکا اور ہم پاکستانیوں کو کیا ملا، کھایا پیا کچھ نہیں گلا س توڑا بارہ آنے ۔صہبائی صاحب کو خدشہ ہے کہیں اگلا ٹارگٹ ریکوڈک کی سونے کی کانیں تو نہیں جن کے150/ارب ڈالر تک بین الاقوامی کمپنیاں دینے کو تیار ہیں۔
تازہ ترین