• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب امریکہ افغان طالبان سے معاہدہ کر رہا تھا تو اشرف غنی اور افغانستان کے آئین کا مستقبل دیوار پر تحریر ہو چکا تھا۔ جو کچھ ہوا اس نے فوری طور پر نہ سہی مگر کچھ عرصے بعد تو لازمی طور پر وقوع پذیر ہو جانا تھا اور یہ امریکی اچھی طرح سے جانتے تھے بلکہ اب وہ سردیوں کے اختتام کا انتظار کر رہے ہیں کہ پھر سے حالات کا تجزیہ کریں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطے کی اس تبدیل شدہ صورتحال میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کن بنیادوں پر استوار ہے اور امریکہ ان تعلقات کی کیا نہج دیکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کے مطابق وطن عزیز بھی اپنی صف بندی کر سکے۔ وینڈی شرمن نے انڈیا میں کھڑے ہوکر پاکستان کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے کہ ہم پاکستان سے کوئی طویل شراکت داری نہیں چاہتے اور افغانستان پر گفتگو کریں گے، یہ حربہ کہ بھارت میں کھڑے ہوکر پاکستان کے حوالے سے سخت گفتگو کرو امریکہ کا پرانا طرزِ عمل ہے۔ نائن الیون کے بعد سے ہم مستقل طور پر یہ دیکھ رہے ہیں کہ کابل اور نئی دہلی میں متعین امریکی سفرا پاکستان کے حوالے سے سخت گوئی کرتے رہے جب کہ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر یا تو چپ رہے ہیں یا ان کا لب و لہجہ اپنے دیگر رفقاء جیسا نہیں تھا۔ یہ دباؤ میں لانے کی امریکی پرانی حکمت عملی ہے اور امریکہ اس پر کاربند بھی ہے۔ ہمارے ارباب اختیار کی حکمتِ عملی صرف یہ ہونی چاہئے کہ وہ اس نوعیت کے سفارتی حملے کا جواب سفارتی انداز میں دینے کی صلاحیت رکھتا ہو مگر یہاں پر صورتحال یہ ہے کہ عمران خان سے سوال پوچھا گیا کہ بائیڈن آپ کو فون کیوں نہیں کر رہے تو جواب دیا کہ وہ مصروف آدمی ہے یعنی کہ ہم ویلے ہیں ویسے بھی اب فون کال ہو بھی گئی تو صرف اس لئے ہوگی کہ اپنی کوئی بات تسلیم کروا لی جائے اب کوئی جیت کے بعد والی تو کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اسی بات کو وینڈی شرمن کے دورے میں بھی استعمال کیا گیا کہ جلدی فون کال کر لیں گے ان سے دنیا بھر کے لیڈران بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو بندہ یہی جواب میں کہہ دیتا کہ انہوں نے فون کال نہیں کی ان سے پوچھئے مگر اتنا کہنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی جب اتنا کہنے کی ہمت نہیں ہوئی تو پھر امریکہ کو اپنے مفادات کی اہمیت باور کروانا تو ناممکن ٹھہرا۔ بھارت میں وینڈی شرمن کی گفتگو امریکہ کے اس رویے کی عکاس ہے جو وہ انڈو پیسفک اسٹرٹیجی اپنا رہا ہے اور اس میں بھارت کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی جارہی ہے۔ امریکہ اس اسٹرٹیجی کو اپناتے ہوئے جمہوریت اور دیگر معاملات کو اٹھانا شروع کر دیتا ہے کہ وہ تو خطے کے دیگر ممالک کے لئے بھی اہمیت کی حامل ہے، بائیڈن دسمبر میں جمہوریت پر ایک کانفرنس کروارہے ہیں اور بھارت کو کشمیر میں ظلم کے باوجود مدعو کر رہے ہیں جب کہ امریکہ دلیل کے طور پر سری لنکا اور مالدیپ سے چینی مسائل کو پیش کرتا ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ چینی ان دونوں ممالک کے معاملات میں مزید شفافیت لائیں۔ بہرحال امریکہ اس حوالے سے اپنی صف بندی کر رہا ہے کیوں کہ پاکستان اور چین اچھے ہمسائے ہیں اس لئے پاکستان کو دباؤ میں رکھنا امریکہ کی ضرورت ہے حالانکہ اس وقت پاکستان اور چین کے تعلقات کو بھی جان بوجھ کر دھکا لگایا جا چکا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک امر ہے دلیل کے طور پرگوادر کے آگے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ امریکہ کی انڈو پيسفک اسٹرٹیجی اور افغانستان کے حالات نے اس امر کو اس کی ضرورت بنا دیا ہے کہ وہ پاکستان کو چین کے حوالے سے قدم مزیدپیچھے ہٹانے پر مجبور کرے حالانکہ بہت سارے قدم ہم اس سے پہلے ہی پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ وینڈی شرمن کا یہ کہنا کہ کانگریس میں بل آ تے رہتے ہیں بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے پہلے ڈرایا جاتا ہے پھر پریسلر ترمیم عائد کردی جاتی ہے اور اس وقت تو امریکی لب و لہجہ بھی ایسا نہیں تھا امریکہ اپنے تئیں افغانستان سے فاتح بن کر نکلا تھا اب تو بظاہر ہزیمت زدہ ہے جب امریکہ ویتنام جنگ میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکا تھا تو اس کا سارا الزام کمبوڈیا پر تھوپ دیا تھا صرف الزام ہی نہیں بلکہ الزامات کی بوچھاڑ کر دی تھی،صدر نکسن نے تو فوجی مداخلت کر ڈالی تھی۔ امریکہ کو اب دوسرا کمبوڈیا بھی درکار ہے خدا کا شکر ہے کہ وطن عزیز مئی 1998 کے بعد دفاعی طور پر اس قابل ہے کہ اس پر حملہ کرتے ہوئے کوئی بھی ہزار بار سوچے گا کیوں کہ بھٹو، نواز شریف اور ڈاکٹر قدیر خان نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر یہ صلاحیت قوم کو دی، ڈاکٹر قدیر تو چل بسے مگر دلوں میں ان کا احترام ہمیشہ باقی رہے گا۔ حالانکہ اس صورتحال کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے معاملہ فہم افراد امریکی حکومت کو پاکستان کے حوالے سے 1990 کی دہائی والی غلطی دہرانے سے اجتناب کا مشورہ دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق امریکی سفیر ریان سی کروکر نے 21 اگست 2021کو نیویارک ٹائمز میں تحریر کیا تھا کہ "The United States made a mistake by disengaging with Pakistan in the 1990 s and would be repeating that mistake by turning away from Islamabad now. The interests of this pair are aligned now more than ever"۔

صاف ظاہر ہے کہ ضرورت امریکہ کی بھی ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے ارباب اختیار اس ضرورت کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ابھی تک تو مایوسی ہی دکھائی دے رہی ہے۔

تازہ ترین