• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس باب میں دو آراء نہیں کہ اہل مصر کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ تحریر اسکوائر پر امریکی سفیر مسز پیٹرسن کے خلاف لہراتے بینر اس بات کا اشارہ ہیں کہ مصر کے لوگ امریکہ کو بغاوت کے ذمہ داروں میں شامل سمجھتے ہیں۔ مرسی کو امریکہ نے اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا۔ وہ اختیاراوراقتدار کے حقیقی مالک تھے اور نہ انہوں نے اسلام کو نافذ کیا۔ لیکن اس کے باوجود ان کی اسلامی شناخت گوارا نہیں کی گئی اور قومی اور مذہبی اداروں کی تذلیل اور شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کے عنوان اس منفی تاثر کے ساتھ مرسی کو اقتدار سے ہٹادیا گیا کہ یہ لوگ قوم کے امور سنبھالنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسلام پسندوں کو کمزورترین حالت میں بھی قبول نہیں کیا گیا۔ اخوان المسلمون نے اسلام کی روح اور فطرت کے خلاف کفر کے مقابل اعتدال پسند اسلام کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی سب نشستوں پر امیدوار کھڑے نہیں کئے کہ مبادا مغرب کے کان کھڑے ہوجائیں۔ پھر بھی چالیس فیصد پر اخوان اور پچیس فیصد پر سلفی کامیاب رہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد مرسی نے مزید احتیاط سے کام لیا۔ انہوں نے اسرائیل کے معاملے میں اہل مصر کے جذبات کوسامنے رکھا اورنہ اسلام کے نفاذ کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات کیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوج، لبرل اور سیکولر حلقے توان کے خلاف تھے ہی دینی حمیت رکھنے والا ایک وسیع حلقہ بھی ان کا مخالف ہوگیا۔ امریکا نے اس غم و غصے کو مرسی کے خلاف استعمال کیا۔لیکن خیال رہے کہ یہ داخلی کشمکش مرسی کے خلاف بغاوت کا ایک معمولی جزو تھا جسے فوج ثالث کا کردار ادا کرکے حل کراسکتی تھی۔ مرسی جس کشمکش کا نشانہ بنے وہ دراصل تہذیبوں کا تصادم ہے جس میں یہ بات طے کرلی گئی ہے کہ مغرب کو ہر لحاظ سے غالب اور اسلام کو ہر لحاظ سے مغلوب رکھنا ہے خواہ اسلامی قوتیں مروجہ جمہوری طریقوں سے ہی برسراقتدار کیوں نہ آئی ہوں۔ اخوان المسلمون نے جمہوری راستہ اختیار کیا انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ووٹ کی طاقت سے ثابت کیا کہ مصر کے عوام کی اکثریت اسلام کا نفاذ چاہتی ہے۔ لیکن مصر کے تجربے نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ جمہوریت کی شاہراہ پر اسلام کی گاڑی نہیں چل سکتی۔ سیکولر نظام پر مبنی جمہوریت اور بیلٹ بکسوں کے ذریعے اسلام کی حکمرانی نا ممکن ہے۔وکی لیکس میں بتایا گیا تھا کہ حسنی مبارک کے زمانے میں امریکیوں کو خدشہ پیدا ہوا کہ اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا اور حسنی مبارک کی جگہ انقلابی آجائیں گے۔ اس پر ایک افسر نے واشنگٹن کو لکھا تھا کہ حسنی مبارک کا جو بھی جانشین آئے گا فوج اسے صرف اس وقت تک برداشت کرے گی جب تک وہ فوج کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی شعبے میں دخل دیا جائے فوج کے معاملات میں مداخلت ہوتی ہے۔ ملک کے ہرہر شعبے میں فوج کا عمل دخل ہی اتنا ہے۔ مصر کی فوج باقاعدہ طور پر صنعت وتجارت پر قابض ہے۔ سڑکیں، ہوٹل، رہائشی تعمیراتی اسکیمیں، پل، اسکول، ٹیلیفون ایکسچینج، ڈیری فارم، زرعی فارم، گھر کے استعمال کی چیزیں، کپڑے، اسٹیشنری، دروازے، ادویات، ڈش واشر ہر چیز بنانے اور چلانے میں فوج اور محض فوج نظر آتی ہے۔ دریائے نیل کے ڈیلٹا کے ساتھ سیاحوں کی جنت کا فائدہ بھی فوج اٹھارہی ہے۔ اس فوج کے اندرعوام کی نمائندگی صرف نچلی سطح پر ہے۔ اونچی رینک کے افسران اور جنرلوں کا عوام سے دور دور واسطہ نہیں۔ ان کا مخصوص لائف اسٹائل ہے جسے عوامی اسلامی انقلاب سے خطرہ ہے۔ جو آگیا تو فوج کو بھی بدل کر رکھ دے گا۔ یہ اسی خوف کا نتیجہ ہے کہ مصر کی فوج نے صرف مرسی کا تختہ نہیں الٹا وہ مصری عوام پر بھی حملہ آورہے۔ گزشتہ دنوں نمازفجر کے دوران فوج نے براہ راست سر اور سینے کا نشانہ لیکر سو نمازیوں کو شہید کردیا جن میں پانچ بچے بھی شامل تھے اور ایک ہزار افراد کو زخمی کردیا۔ حالانکہ انھوں نے آئین میں فوج کو عوام کی فوج لکھ رکھا ہے لیکن یہ فوج دراصل عالمی اسٹیلبشمنٹ کا حصہ ہے۔ امریکا نے اسے قابو کررکھا ہے۔ مرسی نے ایک ایسے شخص کو فوج کا سربراہ بنایا جو کم عمر بھی تھا اور اسلامی ذہن بھی رکھتا تھا لیکن فوج کا ایک ہی مائنڈ سیٹ ہے جو امریکی سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔ مرسی کے دوراقتدار میں اصل طاقت فوج کے پاس تھی۔ تمام ڈوریاں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں تھیں اور اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے امریکہ ہے۔ جس کے احکامات کے مطابق وہ کام کرتے ہیں۔ فوجی بغاوت سے پہلے اسرائیل کے خفیہ اداروں کا مصر کی افواج سے اعلی سطح کا رابطہ قائم ہوچکا تھا۔ بغاوت کے دوران مصری افواج کو تمام اہم معلومات اسرائیلی ذرائع سے مہیا کی جارہی تھیں۔ بغاوت کے چند ہی گھنٹے بعد اسرائیل کے اہم افسر مصر کے دارالحکومت میں موجود تھے۔ اتنی طاقتور اور امریکہ اور اسرائیل کی تابع فوج صدر مرسی کو کس حد تک کُھل کھیلنے کی آزادی دے سکتی تھی اس کا ندازہ کرنا مشکل نہیں۔
مصر کے عوام اسلام کا نظام چاہتے ہیں لیکن انتہائی طاقتور فوج عوام کے مقابل کھڑی ہے ایسے میں خلافت راشدہ کا خواب کیسے پورا ہوسکتا ہے۔ اسلامی ریاست آسانی سے قائم ہونے والی بات نہیں ہے نہ یہ صدر یا وزیراعظم بن کر حکومت میں شامل ہو نے والی بات ہے۔ اسلام کی حکمرانی قائم کرنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کاراستہ۔ بنو عامر اس قیمت پر بیعت دینے پر تیار تھے کہ اگر ان کی مدد سے حکومت ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اقتدار ان کو ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کردیا۔ عرب سرداروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حاکم تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی حکمرانی قبول کرنے سے انکار کردیا جو نامکمل اور اختیار کے بغیر ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نظام کا حصہ بننے سے انکار کردیا جو اسلام سے متصادم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر اور استقامت کے ساتھ غیر معمولی بلاغت کے ساتھ عوام کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کراتے رہے ساتھ ہی اس دور کی اسٹیبلشمنٹ قبائلی سرداروں کو صریح طور سے اسلام کی دعوت دیتے اوران سے نصرت طلب فرماتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی موضوع پر اسلام سے کچھ چھپاتے نہ موٴخر کرتے نہ ٹالتے نہ ہلکا کرتے نہ کُند کرتے بلکہ آپ اسلام کے مضبوط افکار کو پوری مضبوطی کے ساتھ فاسد کفریہ تصورات کے مقابل پیش کرتے جس کے نتیجے میں ایک فکری ٹکراؤ پیدا ہوا اور کفر ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں مشرکوں اور ان کے ایجنٹوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشیں بے نقاب کرتے اور ان کا تدراک کرتے رہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے حکومت اور شریعت کیلئے رائے عامہ پیدا ہوئی۔ اس دور میں عالم اسلام کی فوج وہ حقیقی طاقت ہے جو اسلامی نظام کے قیام میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب تمام اسلامی ممالک میں عوام اور فوج اکٹھے اسلامی نظام کیلئے کوشاں ہونگے۔
تازہ ترین