سب کا پاکستان ہے اور سب کا اس پر یکساں حق ہے۔ گلگت سے گوادر تک، خیبر سے کراچی تک اور چمن سے سیالکوٹ تک ،جس بھی رنگ ، جس بھی مذہب ، جس بھی زبان اور جس بھی علاقے سے تعلق رکھنے والا ہو، اس ملک پر اس کے دعوے ، حقوق اور فرائض میں کوئی تفریق نہ ہے اور نہ ہونی چاہئے۔ دھرتی ماں اور شہری بچوں کی مانند ہیں، جس طرح ماں بچوں میں تفریق نہیں کرسکتی (ہاں البتہ ذمہ داریاں ہر بچے کو اس کی صلاحیت کے مطابق دیتی اور اس سے خدمت اس کی استعداد کے مطابق لیتی ہے ) اسی طرح ملک کے شہریوں میں کسی بھی حوالے سے تفریق روا رکھنا کسی حلالی کی سوچ نہیں ہوسکتی لیکن جس طرح ماں کے لئے بعض بچوں کے حصے میں زیادہ قربانی کی سعادت آتی ہے ، اسی طرح پاکستان کے لئے زیادہ قربانی کا اعزاز ان لوگوں کو حاصل ہوا ہے کہ جنہوں نے اپنے اسلاف کی قبریں ہندوستان میں چھوڑ کر ہجرت کی ۔ میرے باپ دادا جہاں 13اگست 1947 کو مقیم تھے ، 15اگست کو بھی وہیں رہے ۔ اپنی زمین پر ، اپنے لوگوں کے درمیان ۔ یہاں وہ اقلیت میں نہیں اکثریت میں تھے ۔ قیام پاکستان کے لئے انہوں نے جلسہ کیا ہوگا ، جلوس میں حصہ لیا ہوگا ، ووٹ دیا ہوگا لیکن کسی کو اس طرح کی کسی آزمائش سے نہیں گزرنا پڑا جس سے ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کو گزرنا پڑا یا پھر وہاں رہ جانے والے کشمیری اور ہندوستانی مسلمانوں کو ۔ سندھ کے اردو بولنے والے وہی لوگ یا پھر انہی لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے ہم سب کے لئے پاکستان بنانے کی خاطر اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ اپنے اسلاف کی قبریں، اپنی جائیدادیں ، اپنا سماجی مقام و مرتبہ اور سب سے بڑھ کر اپنی جانیں ۔ یوں وہ سب پاکستانیوں کے محسن ہیں اور سب کو انہیں کاندھوں پر بٹھادینا چاہئے ۔ ان کی یہ قربانی اتنی عظیم ہے کہ الطاف حسین اور ایم کیوایم کے بدترین مخالف شاہی سید بھی کہتے ہیں کہ مہاجروں کی صرف ایک قربانی (ماں باپ کی قبریں چھوڑ دینا) اتنی بڑی ہے کہ ساری زندگی ہم اس کا احسان نہیں اتارسکتے ۔ اس تناظر میں وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ پاکستان کی خاطر ہجرت کرنے والے ہمارے سروں کے تاج ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم باقی پاکستانی سن آف دی سوائل (Son of the soil)کے زعم میں مبتلا ہوئے اور انہیں کاندھوں پر تو کیا بٹھاتے ،الٹا ان کو اپنے برابر بھی نہیں بٹھایا۔ وہ علم و ہنر میں سب سے آگے تھے لیکن ملازمتوں میں ہم ان کو سب سے پیچھے لے گئے۔ کوٹہ سسٹم کا ہتھیار ان کے خلاف استعمال کیا۔ یہ ریت بناڈالی کہ وہ کتنے ہی ووٹ کیوں حاصل نہ کریں، وزیراعلیٰ ان میں سے نہیں بن سکے گا۔ علیٰ ہذا القیاس ۔ چنانچہ اس ظلم کے ردعمل میں الطاف حسین ، اے پی ایم ایس او اور پھر ایم کیوایم جیسی تنظیم سامنے آئی۔ ردعمل میں بننے والی تنظیم کبھی اعتدال پر قائم نہیں رہ سکتی ۔ اسے قوم پرستی کا رنگ چڑھا ہو تو پھر یہ ردعمل بھی آخری حدوں کو چھوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ تشدد سے زہر آلود ہوجائے تو اور بھی بھیانک بن جاتا ہے ۔ ایم کیوایم ان سب عوامل کا مرکب تھی۔ اس کے قائد نے صرف مہاجروں کے حقوق کے حصول پر اکتفا نہیں کیا۔ ہر مرحلے پر ، ہر طریقے سے دوسروں کی حق تلفی کی بھی کوشش کی ۔ دوسروں کے خلاف نہ صرف تشدد کیا بلکہ تشدد کے نت نئے طریقے بھی ایجاد کئے ۔ وہ ریاستی اداروں کے آلہ کار بھی رہے اور اپنے کارکنوں کو ان سے لڑوایا اور پٹوایا بھی ۔ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ شریک کار بھی رہے اور اس سے اپنے کارکنوں کو برسرجنگ بھی رکھا۔ پنجابی، پختون، بلوچ ، غرض انہوں نے ہر ایک سے اقتدار کے لئے ہاتھ بھی ملایا اور باری باری سب کو مارا بھی اور اپنے لوگوں کو سب سے مروایا بھی۔ جس مہاجر کے حق کے لئے میدان میں اترے تھے اور ابتدا میں خود بھی اس کے لئے بڑی قربانیاں دی تھیں، آخر میں خود ان کے لئے وبال جان بن گئے ۔ ان میں سے بعض کو تو دوسروں کے کاندھوں پر بٹھادیا لیکن ان کے لئے دوسری قومیتوں سے نفرتیں بھی سمیٹیں۔ الطاف اینڈ کو نے پاکستان کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دینے والوں میں سے بعض کو پاکستان کے سب سے بڑے دشمن کا آلہ کار بنا دیا۔ خود لندن میں مزے لوٹتے رہتے لیکن اپنے چاہنے والوں سے کراچی کے مقبرے اور عقوبت خانے بھروادئیے ۔ وہ لوگ جو علم،فن، تہذیب، کاروبار اور شائستگی کے لئے مشہور تھے، بھتے اور تشدد کے لئے مشہور کروائے گئے۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سارے اردو بولنے والے اس راستے پر گامزن ہوئے تھے یا سارے ایم کیو ایم میں تھے ۔ ایم کیوایم اردو بولنے والوں کی سب سے بڑی جماعت ہے لیکن سب اردو بولنے والے اس جماعت میں نہیں ہیں بلکہ اکثریت آج بھی غیرسیاسی یا پھر ایم کیوایم سے باہر دیگر جماعتوں سے وابستہ ہے ۔ اس لئے الطاف حسین یا ایم کیوایم کی وجہ سے سب اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگانا، پاکستان کے ساتھ نیکی نہیں بلکہ ظلم ہے ۔ اسی طرح یہ سوچ بھی حماقت ہے کہ ایم کیوایم میں سب رہنما یا سب کارکن تشدد پر یقین رکھنے والے تھے ۔ وہ لوگ جو دوسروں کے خلاف ظلم کے مرتکب ہوئے ، بڑی محدود اقلیت ہیں۔ اگر اس محدود اقلیت کو نکال دیا جائے تو ایم کیوایم جیسی خوبیوں کی حامل سیاسی تنظیم بھی کوئی اور نہیں ۔ اس لئے اس متشدد گروپ کی وجہ سے پوری ایم کیوایم کو دیوار سے لگانا بھی ظلم ہے ۔ ماضی کو کریدنے اور ماضی کی بنیاد پر پوری ایم کیوایم کو زیرعتاب لانے کی بجائے ریاست کی طرف سے فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کی سرپرستی ہونی چاہئے تا کہ وہ اپنے آپ کو الطاف حسین اور تشدد میں ملوث عناصر سے پوری طرح الگ کرسکیں ۔ یقینا فاروق ستا ر اور ان کے ساتھی جو کچھ کررہے ہیں ، وہ پوری طرح ہم جیسے لوگوں یا ریاستی اداروں کی توقعات کے مطابق نہیں لیکن الطاف حسین سے لاتعلقی کا زبانی اعلان بھی کوئی معمولی بات نہیں ۔ کیا کوئی تصور کرسکتا تھا کہ فاروق ستار اور ان کے ساتھی اس قرارداد پر دستخط کرلیں گے جس میں الطاف حسین اور ان کے کسی فعل کی مذمت کی گئی ہو۔ ابھی فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے بہت سے مراحل طے کرنے ہیں ۔ ان سے ڈ و مور کا مطالبہ جاری رہنا چاہئے اور میں خود بھی حسب استطاعت یہ مطالبہ کرتا رہوں گا لیکن ان کے ساتھ ایسا رویہ ہر گز نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے انتقام کی بو آئے اور الطاف اینڈ کو ان کو طعنہ دے سکیں ۔ جس طرح الطاف حسین اور ان کے متشدد پیروکار پاکستان، کراچی اور اردو بولنے والوں کے لئے بوجھ ہیں ، اسی طرح ایم کیوایم بطور تنظیم پاکستان اور سندھ کی ضرورت ہے ۔ اگر ایم کیو ایم تقسیم ہوئی اور مختلف دھڑے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہوگئے تو یہ نہ صرف اردو بولنے والوں کے ساتھ ظلم ہوگا بلکہ خود کراچی، سندھ اور پاکستان کے ساتھ بھی ظلم ہوگا۔ محترم بھائی مصطفیٰ کمال سے بھی اپیل ہے کہ وہ اپنی توپوں کا رخ فاروق ستار وغیرہ کی بجائے الطاف حسین اور ان کے ان پیروکاروں کی طرف رکھیں جو پاکستان پر نہیں بلکہ تشدد پر یقین رکھتے ہیں ۔ ریاست کی بھی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ ایم کیوایم کے مختلف دھڑوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی بجائے انہیں ایک دوسرے سے ملوانے کی کوشش کرے تاکہ الطاف حسین اور جرم کی دنیا میں داخل ہونے والے لوگوں سے جان چھڑانا آسان ہوجائے ۔
.