… (حصہ دوم) اگر جے آئی ٹی کے ارکان نے 12 ملین درہم کے منی ٹریل کا تعاقب کرنے کی کوشش کی ہوتی تو ہوسکتا ہے کہ انہیں شریف خاندان کی منی ٹریل کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس چیز حاصل ہوگئی ہوتی۔ لیکن جے آئی ٹی خود پھنس گئی، بظاہر اس کی وجہ وقت کی پابندی تھی اور انہوں نے تصوراتی نتیجے پر پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ریبر (سریا)کی قیمت 800درہم کی ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ گئی تھی لیکن 1978 میں ان کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ شریف خاندان کے مطابق 1978 کے سہ فریقی معاہدے کے تحت بی سی سی آئی کا قرض 1978 میں ادا کیا جاچکا تھا، اہلی اسٹیل کی مالی لاگت قابل ذکر حد تک کم ہوگئی تھی جو 1978 اور 1980 کے دوران زبردست منافع کا نتیجہ تھی اور بزنس کی خالص قدر میں قابل ذکر اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں میاں محمد شریف کو 12 ملین درہم بہت آسانی سے مل گئے جو انہیں 6 قسطوں میں ملنے تھے۔ یہ میاں محمد شریف کو 6 ادائیگیوں کی بینک گارنٹی تھی، جیسے ہی تمام 6 ادائیگیاں انہیں ملیں تو بینک گارنٹی کبھی کلیم نہیں کی گئی اور وہ غیر موثر ہوگئیں۔
جے آئی ٹی نے اس بینک گارنٹی، جو کبھی کیش نہیں ہوئی، کی دستاویزات کی عدم دستیابی پر اپنے نتائج کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی ہے۔ عام طور پر اور یو اے ای میں مرکزی بینک کو ایسا ریکارڈ رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی جو عام بینکوں کو پانچ سال کے لئے رکھنا ہوتا ہے۔ لہذا اس معاملے میں یہ جے آئی ٹی ہے جسے بہت زیادہ وضاحت کرنی ہے کیونکہ قانون سے لاعلمی اور یہ بنیادی حقیقت کہ آیا سینٹرل بینک انفرادی بینکوں کے لین دین کے ریکارڈ کو برقرار رکھتے ہیں ایسی بات ہے کہ جس کی اسٹیٹ بینک کے نامزد فرد سے توقع کی جاتی ہے اور ایسا جرات مندانہ تصوراتی نتیجہ اور دعوی وہ بھی کسی شہادت کے بغیر، اس میں گمراہ کن مقاصد واضح ہیں۔ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح جے آئی ٹی اس حد تک چلی گئی کہ اس نے اعلان کردیا کہ گلف میں اتنا بڑا کاروبار اب بھی جاری ہے، تصوراتی کہانی ہے۔
اس سب کو اور وقت کی پابندی کو مدنظر رکھتے ہوئے قطری شہزادے سے جے آئی ٹی کی ملاقات میں ہچکچاہٹ کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ اسی جے آئی ٹی کے کچھ چک شہزاد میں جنرل پرویز مشرف سے تفتیش کرنے کے لئے ان کے گھر کے دروازے پر طویل وقت تک کھڑے انتظار کرتے تھے۔ شریف خاندان کی جانب سے واضح طور پر وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح قطری شاہی خاندان کی ملکیت آف شور کمپنیوں کے بیئرر شیئرز 2006 میں لندن کے فلیٹوں میں 1980 میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں سرمایہ کاری سے تبدیل ہوئے اور بیئرر شیئرز کے حوالے سے متعلقہ قوانین اور قواعد کی ذیل میں آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حصے میں وضاحت کی گئی ہے۔
لندن فلیٹوں کا ارتباط التوفیق لون کے پہلو بہ پہلو۔ یہ ثابت کرنا کہ 1990 میں شریف خاندان کا مالک تھا اور 2006 کی کہانی جعلی ہے، جو شہادت دی گئی وہ لندن ہائی کورٹ کوئینز بینچ ڈویژن کا فیصلہ ہے جس میں لندن کے ان چار فلیٹوں کو منسلک کرنے کا حکم جاری کیا تھا کیونکہ شریف خاندان قرض کی ادائیگی میں تاخیر کر رہا تھا۔ اس نمائندے نے لندن کے فلیٹوں کی دستاویزات اور لندن ہائی کورٹ کے فیصلے کی نقل حاصل کرنے کے بعد یہ بھی رپورٹ کیا تھا کہ یہ دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ 1990 میں لندن کے فلیٹس شریف خاندان کی ملکیت تھے۔ کئی اینکرز نے اس نکتے پر سلسلہ وار پروگرام بھی کیے۔
تاہم شریف خاندان نے سپریم کورٹ میں یہ موقف اختیار کیا کہ لندن کے فلیٹس التوفیق سے مالی سہولت حاصل کرنے کے لیے بطور وثیقہ استعمال کیے گئے تھے۔ شریف خاندان کے بیان کے مطابق لندن ہائی کورٹ نے شیزی نقوی کی درخواست پر فلیٹس کو منسلک کرنے کا حکم دیا تھا۔ مخالف فریق کے وکلا نے دلائل دیے کہ چونکہ شریف خاندان تحویل عرصہ سے ان فلیٹوں میں رہ رہا ہے لہٰذا اس بات یقین کرنے کی قابل قبول وجہ موجود ہے کہ یہ ان فلیٹوں کے مالک ہیں لہٰذا ان فلیٹوں کو منسلک کیا جائے۔
شریف خاندان نے شیزی نقوی سے حاصل کردہ تازہ حلف نامہ منسلک کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے علم میں نہیں تھا کہ شریف خاندان1990ء میں ان فلیٹوں کا مالک تھا۔ ان ان فلیٹوں کو التوفیق سے قرض حاصل کرنے کے لیے بطور وثیقہ استعمال نہیں کیا گیا تھا اس کے باوجود کیے یہ سوالات کرتے ہیں کہ اس سے شریف خاندان کا نقطہ نظر مکمل طور پر ثابت نہیں ہوتا اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دستاویزی شہادت لے کر آئیں اور کسی شک و شبہ کے تحت یہ ثابت کریں کہ لندن کے فلیٹس اس وقت بطور وثیقہ استعمال نہیں کیے گئے تھے۔ شریف خاندان 2نکات جواب دیتا ہے۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ قرض کا بنیادی معاہدہ ریکارڈ کا حصہ تھا اور1999ء کہ فوجی انقلاب میں فوج نے لے لیا تھا اور پھر کبھی واپس نہیں کیا تھا۔ تمام اینکرز صرف اس نکتہ کو اٹھاتے ہیں اور شریف خاندان پر شہادت فراہم نہ کرنے پر طوفان اٹھاتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ تھا کہ کیونکہ قرض غیر ملکی کرنسی میں ملا تھا اور لاکھوں ڈالرز پاکستان آئے تھے۔ یہ شریف خاندان (حدیبیہ پیپرز ملز) کے لیے لازمی تھا کہ وہ دستاویزی شہادتوں کے ساتھ فنڈز کے ذرائع کے بارے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو آگاہ کرتے (اس وقت کی کارپوریٹ لاء اتھارٹی)۔ قرض کا معاہدہ اور تفصیلات دونوں اداروں میں جمع کرائیں گی تھیں۔ جے آئی ٹی کو اس حقیقت کا معلوم تھا اور وہ ان اداروں سے دستاویزات حاصل کرسکتی تھی اور ان تصدیق بھی کرسکتی تھی۔ یہ بات الارمنگ ہے کہ اپنی معلومات کے باوجود جے آئی ٹی نے ان دستاویزات کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اب دی نیوز کی جانب سے حاصل کردہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ التوفیق سے قرض حاصل کرنے کے لیے جو وثیقہ استعمال ہوا (اس وقت پاکستانی کرنسی میں 260ملین کے برابر ) وہ تمام کمپنی کی موجودہ اور مستقبل کی منقولہ جائیداد تھی اس میں پلانٹ، مشینری، اسٹاک اور اسپیئر پارٹس اور قابل وصول وغیرہ شامل تھے۔
بینک آف امریکہ اور سٹی بینک سے بھی لون کی سہولت حاصل کی گئی تھی۔ البرکہ اسلامک انوسٹمنٹ بینک (التوفیق انوسٹمنٹ کا پیرنٹ بینک) کے متعلق مبالغہ آمیز اعداد و شمار میڈیا میں کورٹ کیے گئے تھے۔ اس سے جے آئی ٹی کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے اور جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کردہ شہادت کہ فلیٹس1990ء میں شریف خاندان کی ملکیت تھے ختم ہوجاتی ہے۔ یہ دلیل دی جارہی ہے کہ شریف خاندان فلیٹوں کی ملکیت کے حوالے سے ایک بھی شہادت سامنے لانے میں ناکام رہا ہے۔ چونکہ فلیٹس درحقیقت آف شور کمپنیوں کی ملکیت تھے لہٰذا بنیادی طور آف شور کمپنیوں کی ملکیت ٹائم لائن کے ساتھ ثابت کرنا ہوگی۔ کون سی دستاویزات پیش کی جاسکتی تھیں، کون سی دستاویزات پیش کی گئیں اور کون سی نہیں، ان سب پر آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے مسئلے سے متعلق اس اسٹوری میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔سوال نمبر6۔ کم عمری میں بچے کس طرح فلیٹس خرید سکتے ہیں۔ معزز عدالت کا سوال نمبر 6یہ تھا کہ آیا مدعا علیہان نمبر7 اور8 کے پاس ان کی کم عمری کو مدنظر رکھتے ہوئے1990ء کی دہائی کے اوائل میں ایسے وسائل تھے کہ وہ فلیٹس خریدتے اور ان کو مالک ہوتے جے آئی ٹی نے منی ٹریل کو مسترد کرتے ہوئے جیسا کہ اوپر کلف اسٹیل کی تصوراتی کہانی میں وضاحت کی گئی ہے قرار دیا کہ1990ء میں شریف خاندان نے یہ فلیٹس خریدے تھے اور اس سلسلے میں ایک بھی شہادت پیش نہیں کی، تاہم جے آئی ٹی نے ایک شہادت دی کہ نوازشریف ہمیشہ ان فلیٹوں میں سے ایک فلیٹ استعمال کیا کرتے تھے لہٰذا وہ ان کی ملکیت تھا۔
منی ٹریل اور وثیقہ کے مسئلے پر مسترد کرنے کے حوالے سے بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے اور کوئی بھی شہادت پیش کرنے میں ناکام رہنے پر یہ شہادت اور اس کی فلاسفی مضحکہ خیز اس پر پہلے ہی بحث کی جاچکی ہے کہ یہ ایک معمول ہے دادا سے پوتوں کو وراثت منتقل کرنا معمول کا معاملہ ہے لہٰذا اگر یہ خاندان کے وسائل معلوم ہیں اور منی ٹریل کو غلط ثابت نہیں کیا جاتا تو کم عمری میں فلیٹوں کا مالک ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان آف شور کمپنیوں کا اصل مالک کون تھا جو لندن کے فلیٹوں کی مالک تھیں۔ تاہم شریف خاندان نے سپریم کورٹ میں یہ موقف اختیار کیا کہ لندن کے فلیٹس التوفیق سے مالی سہولت حاصل کرنے کے لیے بطور وثیقہ استعمال کیے گئے تھے۔ شریف خاندان کے بیان کے مطابق لندن ہائی کورٹ نے شیزی نقوی کی درخواست پر فلیٹس کو منسلک کرنے کا حکم دیا تھا۔
مخالف فریق کے وکلا نے دلائل دیے کہ چونکہ شریف خاندان تحویل عرصہ سے ان فلیٹوں میں رہ رہا ہے لہٰذا اس بات یقین کرنے کی قابل قبول وجہ موجود ہے کہ یہ ان فلیٹوں کے مالک ہیں لہٰذا ان فلیٹوں کو منسلک کیا جائے۔ شریف خاندان نے شیزی نقوی سے حاصل کردہ تازہ حلف نامہ منسلک کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے علم میں نہیں تھا کہ شریف خاندان1990ء میں ان فلیٹوں کا مالک تھا۔ ان ان فلیٹوں کو التوفیق سے قرض حاصل کرنے کے لیے بطور وثیقہ استعمال نہیں کیا گیا تھا اس کے باوجود کیے یہ سوالات کرتے ہیں کہ اس سے شریف خاندان کا نقطہ نظر مکمل طور پر ثابت نہیں ہوتا اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دستاویزی شہادت لے کر آئیں اور کسی شک و شبہ کے تحت یہ ثابت کریں کہ لندن کے فلیٹس اس وقت بطور وثیقہ استعمال نہیں کیے گئے تھے۔ شریف خاندان 2نکات جواب دیتا ہے۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ قرض کا بنیادی معاہدہ ریکارڈ کا حصہ تھا اور1999ء کہ فوجی انقلاب میں فوج نے لے لیا تھا اور پھر کبھی واپس نہیں کیا تھا۔ تمام اینکرز صرف اس نکتہ کو اٹھاتے ہیں اور شریف خاندان پر شہادت فراہم نہ کرنے پر طوفان اٹھاتے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ کیونکہ قرض غیر ملکی کرنسی میں ملا تھا اور لاکھوں ڈالرز پاکستان آئے تھے۔
یہ شریف خاندان (حدیبیہ پیپرز ملز) کے لیے لازمی تھا کہ وہ دستاویزی شہادتوں کے ساتھ فنڈز کے ذرائع کے بارے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو آگاہ کرتے (اس وقت کی کارپوریٹ لاء اتھارٹی)۔ قرض کا معاہدہ اور تفصیلات دونوں اداروں میں جمع کرائیں گی تھیں۔ جے آئی ٹی کو اس حقیقت کا معلوم تھا اور وہ ان اداروں سے دستاویزات حاصل کرسکتی تھی اور ان تصدیق بھی کرسکتی تھی۔
یہ بات الارمنگ ہے کہ اپنی معلومات کے باوجود جے آئی ٹی نے ان دستاویزات کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اب دی نیوز کی جانب سے حاصل کردہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ التوفیق سے قرض حاصل کرنے کے لیے جو وثیقہ استعمال ہوا (اس وقت پاکستانی کرنسی میں 260ملین کے برابر ) وہ تمام کمپنی کی موجودہ اور مستقبل کی منقولہ جائیداد تھی اس میں پلانٹ، مشینری، اسٹاک اور اسپیئر پارٹس اور قابل وصول وغیرہ شامل تھے۔ بینک آف امریکہ اور سٹی بینک سے بھی لون کی سہولت حاصل کی گئی تھی۔ البرکہ اسلامک انوسٹمنٹ بینک (التوفیق انوسٹمنٹ کا پیرنٹ بینک) کے متعلق مبالغہ آمیز اعداد و شمار میڈیا میں کورٹ کیے گئے تھے۔ اس سے جے آئی ٹی کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے اور جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کردہ شہادت کہ فلیٹس1990ء میں شریف خاندان کی ملکیت تھے ختم ہوجاتی ہے۔ یہ دلیل دی جارہی ہے کہ شریف خاندان فلیٹوں کی ملکیت کے حوالے سے ایک بھی شہادت سامنے لانے میں ناکام رہا ہے۔ چونکہ فلیٹس درحقیقت آف شور کمپنیوں کی ملکیت تھے لہٰذا بنیادی طور آف شور کمپنیوں کی ملکیت ٹائم لائن کے ساتھ ثابت کرنا ہوگی۔ کون سی دستاویزات پیش کی جاسکتی تھیں، کون سی دستاویزات پیش کی گئیں اور کون سی نہیں، ان سب پر آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے مسئلے سے متعلق اس اسٹوری میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ سوال نمبر6۔ کم عمری میں بچے کس طرح فلیٹس خرید سکتے ہیں۔
معزز عدالت کا سوال نمبر 6یہ تھا کہ آیا مدعا علیہان نمبر7 اور8 کے پاس ان کی کم عمری کو مدنظر رکھتے ہوئے1990ء کی دہائی کے اوائل میں ایسے وسائل تھے کہ وہ فلیٹس خریدتے اور ان کو مالک ہوتے جے آئی ٹی نے منی ٹریل کو مسترد کرتے ہوئے جیسا کہ اوپر کلف اسٹیل کی تصوراتی کہانی میں وضاحت کی گئی ہے قرار دیا کہ1990ء میں شریف خاندان نے یہ فلیٹس خریدے تھے اور اس سلسلے میں ایک بھی شہادت پیش نہیں کی، تاہم جے آئی ٹی نے ایک شہادت دی کہ نوازشریف ہمیشہ ان فلیٹوں میں سے ایک فلیٹ استعمال کیا کرتے تھے لہٰذا وہ ان کی ملکیت تھا۔
منی ٹریل اور وثیقہ کے مسئلے پر مسترد کرنے کے حوالے سے بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے اور کوئی بھی شہادت پیش کرنے میں ناکام رہنے پر یہ شہادت اور اس کی فلاسفی مضحکہ خیز اس پر پہلے ہی بحث کی جاچکی ہے کہ یہ ایک معمول ہے دادا سے پوتوں کو وراثت منتقل کرنا معمول کا معاملہ ہے لہٰذا اگر یہ خاندان کے وسائل معلوم ہیں اور منی ٹریل کو غلط ثابت نہیں کیا جاتا تو کم عمری میں فلیٹوں کا مالک ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان آف شور کمپنیوں کا اصل مالک کون تھا جو لندن کے فلیٹوں کی مالک تھیں۔عدالت عظمی نے 20اپریل کے فیصلے میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا :9- نیلسن انٹرپرائیزز لمیٹڈ اورنیسکول لمیٹڈ کا حقیقی مالک کون ہے۔پاکستان میں آف شورز کمپنیوں کا معاملہ نیا تھااوراس معاملے سے متعلق کئی اصلاحات بھی سمجھ سے بالاترتھیں۔ایسا لگتا تھاکہ آف شور کمپنیاں رکھنا غیرقانونی ہےاوراس کا تعلق ہمیشہ غیر قانونی دولت سے ہوتاہے۔ تاہم تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی آف شورکمپنی سامنے آنے پر صورتحال تبدیل ہوگئی اور اس کے بعد کچھ لوگ اس بات کے قائل ہوگئے کہ آف شور کمپنیاں قانونی مقاصدکیلئے بھی استعمال ہوسکتی ہیں ۔
آف شورکمپنیوں سے متعلقہ اصلاحات پربات کرنے سے پہلے یہ ذکرکرناضروری ہےکہ نیلسن اینڈ نیسکول کےکوئی بینک اکاونٹس نہیں ہیںانھوں نے صرف2007میں قرضہ لیاتھااوریہ کمپنیاں صرف لندن کے چار فلیٹس کے انتظامات سنبھالنے کے لیےاستعمال ہورہی تھیں جبکہ ابھی تک تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کوئی ایسابیان نہیں دیاکہ ان کی آف شورکمپنی کے ساتھ کوئی بینک اکاونٹ منسلک نہیں ہے لندن میں ایک فلیٹ بھی اس کمپنی کی ملکیت ہے۔ آف شور کمپنیوں کا نظام ، خاص طور پربرٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں کومیڈیامیں شاید ہی کبھی بیان کیاگیاہے۔ برٹش ورجن آئی لینڈ میں حکومتی کمپنی ہاوس ’’فنانشل سروسزکمیشن ‘‘ صرف اپنے ڈائریکٹرز کی کمپنیوں اور ان کی تفصیلات کوہی رجسٹرڈ کرتاہے۔یہ حقیقی مالکان کاریکارڈ کبھی نہیں رکھتا۔ موساک فونیسکا جیسی لاء فرمز برٹش ورجن آئی لینڈ کی حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اورآف شورکمپنیوں کی مکمل تفصیلات اپنے پاس رکھنے کی ذمہ دار ہیںاورضرورت کے وقت یہ تفصیلات حکومت اور اس کی تحقیقاتی ایجنسیز کوفراہم کرنے کی پابندہیں۔ یہ سہولت فراہم کرنے والے جوآف شورکمپنیوں کو ٹیکسیشن اورحکومتی فیس کی ادائیگی جیسے معاملات میں مدد کرتے ہیں وہ کمپنیوں کاتمام ریکارڈ بشمول کمپنی کے حقیقی مالک کی معلومات کاریکارڈ بھی رکھتے ہیں ۔ جب برٹش ورجن آئی لینڈ کی حکومت یا کوئی تحقیقاتی ایجنسی لاءفرم سےآف شور کمپنی کی تفصیلات اوران کے مالک سے متعلق پوچھ گچھ کرتی ہےتولاءفرم متعلقہ سہولت فراہم کرنے والے سے مکمل معلومات پیش کرنے کاکہتی ہے۔ حتمی معلومات انھیں کے پاس ہوتی ہیں اور تمام نظام انھیں کی فراہم کردہ معلومات پر منحصر ہوتاہے۔ درحقیقت آف شورکمپنیوں کے ڈائریکٹرزبھی بیرونی کمپنیاں ہی ہوتی ہیں ، یہ سروس فراہم کرنے والے خود ایسے افراد یا وکلاء کاانتظام کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پرتحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی’’نیازی سروسز لمیٹڈ‘‘ کےکیس میں ڈائریکٹرز بھی تین بیرونی کمپنیاں ہی تھیں۔ (i) لا نگٹرے ٹرسٹیزلمیٹڈ (ii) لانگٹرےسیکریٹریز لمیٹڈ (iii) لانگٹرےکنسلٹنٹ لمیٹڈ ۔ ان کمپنیوں کاپتہ جرسی چینل آئی لینڈ کاتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ’’نیازی سروسز لمیٹڈ‘‘ سےمتعلق دی نیوز نے جرسی سے جو دستاویزات حاصل کیں اس میں سے کسی میں بھی عمران خان کو اس آف شور کمپنی کا مالک ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔یہ معلومات اس سروس فراہم کرنے والے کے پاس تھیںجس کا نام پی ٹی آئی سربراہ نے کبھی ظاہر نہیں کیا تاہم وہ اس بات کا اقرار کرچکے تھے کہ وہ اس کمپنی کے اصل مالک تھے کیوں کہ لندن فلیٹ اسی آف شور کمپنی کے نام پر رجسٹرڈ تھے۔یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پی ٹی آئی سربرا ہ نے سروس فراہم کرنے والے کو بھی تبدیل کردیااور بعد ازاں کمپنیوں کے ڈائریکٹر کو بھی شیل کمپنیوں میں تبدیل کردیا تھا۔اس میں بارسلیز پرائیویٹ بینک اینڈ ٹرسٹ لمیٹد، بارسلیز ٹرسٹ چینل لمیٹڈ، بارسلیز ٹرسٹ جرسی لمیٹڈ۔ان سب میں ایک ہی پتہ یعنی 39/41،براڈ اسٹریٹ، ایس ٹی ہیلیئر، جرسیJE4 8PU ، چینل آئی لینڈ درج ہے۔تاحال ان شیل کمپنیوں کی نگرانی کرنے والے نئے سروس فراہم کرنے والے کا نام سامنے نہیں آیا ۔ایک دستاویز میں علیمہ خان جو کہ پی ٹی آئی سربراہ کی بہن ہیں، انہیںکمپنی کی ایک ڈائریکٹر کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔بی وی آئی کارپوریٹ لاءکے نظا م کی تفصیلات پر واپس آتے ہیں، اس کی ملکیت کا ریکارڈسروس فراہم کرنے والے نے بنایا ہے۔شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کے کیس میں تمام دستاویزات عدالت اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش کردیے گئے تھے کیوں کہ آف شور کمپنیوں کی ملکیت میں لندن فلیٹس بھی ہیںلہٰذا آف شور کمپنیوں کے ملکیت کے دستاویزات ہی لندن فلیٹس کی ملکیت کے دستاویزات ہیں اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لندن فلیٹس کےدستاویزات جمع نہیں کروائے گئے۔پاناما پیپرز میں کچھ خطوط بھی شامل ہیں جو کہ بی وی آئی کی فنانشل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے)نے جون 2012میںلا فرم موساک فونیسکاکو لکھے تھےتاکہ اس سے متعلق تفصیلات بشمول نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا پتہ لگایا جاسکے۔ان خطوط کے جواب میں موساک نے تفصیلات فراہم کیں اور یہ بھی لکھا کہ مریم نواز ان دو کمپنیوں کی حقیقی مالک ہیں ۔ان دستاویزات کو شریف خاندان نے مکمل طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج نہیں کیا ، تاہم یہ جرح کی کہ موساک نے بی وی آئی کی ایف آئی اے کو غلط معلومات فراہم کی ہیںجو کہ ملکیت سے متعلق تھیںاور ایسا پرائیویٹ لاءفرمز کے کچھ ملازمین یا سروس فراہم کرنے والوںکی غلط فہمی کے سبب ہوا۔3جج جنہوں نے جے آئی ٹی تشکیل کیے جانے کا حکم دیا تھا وہ ان ثبوتوں سے مطمئن نہیں تھے جو انہیں پیش کیے گئے، جس میں بی وی آئی کی ایف آئی اے کے یہ خطوط بھی شامل تھے۔انہوںنے جے آئی ٹی کو یہ ذمہ داری تفویض کی کہ وہ نیلسن اور نیسکول کے حقیقی مالک کا پتہ لگائیں۔بجائے اس کہ کے بی وی آئی حکومت سے پوچھا جاتا کہ وہ آف شور کمپنیوں کی حقیقی ملکیت سے متعلق معلومات فراہم کریں، جے آئی ٹی نے وہ خطوط بی وی آئی حکومت کو بی وی آئی اٹارنی جنرل کے ذریعے بھجوائے اور ان سے صرف ان خطوط کی تصدیق کے لیے کہا گیا۔ایف آئی اے کی بی وی آئی نے اسکے جواب میں جے آئی ٹی کی باہمی قانونی معاونت کی درخواست پر ان خطوط کی تصدیق کردی، جس کی وجہ سے جے آئی ٹی نے مریم نواز کو حقیقی مالک قرار دے دیا۔جے آئی ٹی نے جان بوجھ کر آف شور کمپنیوں کی ملکیت سے متعلق اصل سوال پوچھنے سے اجتناب کیا اور اپنی باہمی قانونی معاونت کی درخواست میں ہوشیاری سے سوال کیا، جیسا کہ متحدہ عرب امارات کے معاملے میں سوالات بھیجنے میں کیا گیا تھا۔اگر جے آئی ٹی اصل سوال پوچھتی ، تو اسے درست جواب مل جاتا۔یہ واضح طور پر مریم نواز کی سیاسی پروفائل کو دیکھ کر انہیں نشانہ بنانے کی غرض سے کیا گیا تھا۔عدالت عظمیٰ اب بھی باہمی قانونی معاونت کی باقاعدہ درخواست کا حکم دے سکتی ہے، جس میں اصل اور درست سوال بھیجا جائے ، ایک مرتبہ پھر اس عمل کی نگرانی کرے اور درست جواب حاصل کرلے۔یہ استفسا ر کیا گیا کہ شریف خاندان اپنے دستاویزات کیوں نہیں لے آتا ۔جیسا کہ بیان کیا گیا ہے۔بی وی آئی قوانین کے تحت ، بی وی آئی حکومت آف شور کمپنیوں کے اصل مالکان کا رجسٹر مرتب نہیں کرتی۔ایک صارف، جو کہ آف شور کمپنیوں کا اصل مالک ہو سروس فراہم کرنے والے سے دستاویزات لے سکتا ہے، جس میں حتمی معلومات ہوتی ہیں۔شریف خاندان نے عدالت عظمیٰ کو پچھلے سروس فراہم کرونے والے منروا کا سرٹیفکیٹ فراہم کیا، جس میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ حسین نواز تھے جو نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کے انتظامی دیکھ رہے تھے۔پی ٹی آئی چیف عمران خان کی طرح شریف خاندان کی آف شور کمپنیوںکا سروس فراہم کنندہ بھی 2014میںمنروا سے جے پی سی اے میں تبدیل ہوا تھا ۔بی وی آئی قوانین کے تحت جے پی سی اے شریف خاندان کے لیے رسائی کا متعلقہ فورم ہے، اس نے دو سرٹیفکیٹ فراہم کرکے اس بات کی توثیق کردی کہ وہ حسین نواز تھے جو ان سے تمام معاملات کی دیکھا بھالی کررہے تھے اور وہ مریم نواز سے کبھی نہیں ملے۔ان کے ریکارڈ کے مطابق، حسین نواز آف شور کمپنیوں کے اصل مالک ہیں جب کہ مریم نواز ٹرسٹی ہیں۔صارفین کے مطابق، یہ ہی حتمی شواہد ہیں۔اس معاملے میں شریف خاندان بی وی آئی اصول و قوانین کے مطابق کام کررہا ہے۔عدالت عظمیٰ آف شور کمپنیوں کے انتظامات کی جانچ پڑتال اور بی وی آئی قوانین کے تحت ریکارڈ مرتب کرسکتی ہے اور پھر اسے صحیح یا غلط قرار دے سکتی ہے۔پٹیشنرز میں سے اگر کوئی ان انتظامات کو پسند نہیں کرتا، تو یہی آف شور کمپنیوںکاطریقہ کار ہے۔
اگر عدالت عظمیٰ بی وی آئی کے اس قانونی فریم ور ک سے متفق نہیں تو معزز عدالت کو مدعا علیہہ کو ان دستاویزات سے متلق رہنمائی کرنا ہوگی جو دراصل اسے چاہیئے اور وہ کس حیثیت سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔عدالت عظمیٰ کو نئی اور درست باہمی قانونی معاونت کی درخواست بی وی آئی کو بھی بھیجنی چاہیئے تاکہ حقیقی مالک کا پتہ لگایا جاسکے۔بی وی آئی قوانین کے تحت آف شور کمپنی میں شیئر رکھنے والے اصل مالک کو رجسٹر کرنا ضروری نہیں۔یہاں تک کہ سروس فراہم کرنے والا بھی آف شور کمپنیوںکے اصل مالکان جو شیئر کے حامل ہوں ان کا ریکارڈ مرتب کرنے کی ضرورت نہیں۔جیسا کہ لفظ’’شیئر مالکان‘‘سے لگتا ہے کہ جس کے پاس ہوں وہی اس کا ملک ہے۔تاہم، 9/11کے بعد سے تبدیلیاں آنا شروع ہوئی تھیںجو کہ 2004کمپنی قوانین کے تحت ہوئیں اور لاء فرمز اور سروس فراہم کرنے والوں کو اصل مالکان کا ریکارڈمرتب کرنے کا پابند کیا گیا۔2007 میں اس قانون کا اطلاق مکمل طور پر کردیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ نیلسن او ر نیسکول کے شیئر مالکان تبدیل ہوکر عام شیئر بن گئےجو کہ منروا ڈائریکٹرز نے مرتب کیے ۔صرف عدالت عظمیٰ ہی اس حوالے سے رہنمائی کرسکتی ہے کہ کونسا دستاویز، کس اتھارٹی سے لیا جاسکتا ہےتاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ نیلسن اور نیسکول کا اصل مالک کون تھا۔
پاکستان میں بی وی آئی قوانین کے اس مخصوص حصے کی تشریح کی ضرورت ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ برطانیہ میں آف شور کمپنیاںجائداد کی مینجمنٹ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔واضح طور پر کسی کو بھی دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا۔پٹیشنرز کی کونسلز کو یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ انہیں دراصل کس دستاویز کی ضرورت ہے، جس سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ آف شور کمپنیاں کس کی ملکیت میں ہیں، اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ رجسٹرڈ سروس فراہم کرنے والے منروا اور جے پی سی اے کے خطوط ناکافی ہیں۔ ہل میٹل سعودی عریبہ، وزیراعظم کو فنڈز کی منتقلی۔ سپریم کورٹ نے20اپریل کے فیصلے میں یہ4سوالات اٹھائے تھے۔ (10) ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کس طرح وجود میں آئی۔ (11) فلیگ شپ انوسٹمنٹ لیمیٹڈ اور دیگر کمپنیاں جو مدعا علیہ نمبر8 نے قائم کی ان کے لیے رقم کہاں سے آئی۔ (12) اور ایسی کمپنیوں کے لیے ورکنگ کیپٹل کہاں سے آیا۔ (13) اور مدعا علیہ نمبر 7 کی جانب سے مدعا علیہ نمبر 1 کے لیے بھاری رقم جو ملین میں ہے پر مبنی کہاں سے آئے۔ (14) ان کمپنیوں کے قائم ہونے کے حوالے سے شریف خاندان نے تمام تفصیلات جمع کرائیں ہیں جنہیں جے آئی ٹی کسی شہادت کے بغیر غلط ثابت نہیں کرسکی اور صرف قیاس آرائیاں کی گئیں ہیں۔ یہ الزام جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے کی کوشش تھی کہ ہل میٹل کا88فیصد نفع2010-15ء کے درمیان وزیراعظم کو بھیجا گیا لہٰذا بڑے بینی فشری ہونے کی حیثیت سے میاں نوازشریف ہل میٹل کے اصل مالک ہیں۔ یہ بنیادی الزام ہے جس کا مناسب طریقے سے جائزہ لے کر سپریم کورٹ آف پاکستان نتیجے پر پہنچ سکتی ہے اور جے آئی ٹی کی ایمانداری، فہم و فراست، اہلیت اور غیر جانبداری پر فیصلہ دے سکتی ہے کوئی بھی اچھا اکائونٹنٹ اس کو کچرا قرار دے گا کیونکہ جے آئی ٹی کے پاس دستیاب معلومات اور دستاویزات بھی وہ ثابت نہیں کرتی جو نتیجے جے آئی ٹی نے وزیراعظم کو ہدف بنانے کے لیے نکالا ہے۔ کسی بھی تنظیم کا خالص منافع، نفع اور نقصان اکائونٹ کو چارج کرنے کے بعد نکالا جاتا ہے بہت سارے اخراجات جس میں کیش فلو شامل نہیں ہوتا لہٰذا ان میں اصل کیش پرافٹ نیٹ پرافٹ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے ان نان کیش آئٹمز کچھ مثالیں اثاثوں کی ڈیپری سی ایشن، ایمورٹائزیشن، مشکوک قرضوں کے لیے پرویژن اور انکم ٹیکس کے لیے پرویژن وغیرہ۔ سعودی عربیہ کی چارٹرڈ اکائونٹ فرم گارنٹ تھارنٹن انٹر نیشنل کی ممبر فرم کی جانب سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ تصدیق کرتی ہے کہ ہل میٹل کا نیٹ پرافٹ2010-15ء سعودی ریال میں37 اعشاریہ 427ملین تھا جو پاکستانی روپے میں 1 اعشاریہ 029 ارب روپے ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ2010ء میں کلوزنگ کیش بیلنس پاکستانی روپے میں 83.215 ملین روپے سے لے کر 879اعشاریہ395ملین روپے تھا۔ 2013ء کے اختتام پر مثال کے طور پہ کلوزنگ کیش اور بینک بیلنس 677اعشاریہ38ملین روپے تھا۔ کوئی کاروبار جس کے پاس کلوزنگ کیش اور بینک بیلنس ہو ظاہر ہے کہ وہ تمام کیش آئوٹ فلو کے بعد ہوتا ہے۔ اس سے نکتہ پتہ چلتا ہے کہ جہاں تک ہل میٹل کی مالی حالت کا آڈیٹر کے سرٹیفکیٹ کے مطابق تعلق ہے تو آرگنائزیشن حقیقت میں مالی لحاظ سے اتنی مضبوط پوزیشن میں ہے کہ اس طرح ریمٹینٹس بھیج سکتی تھی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بھیجی گئی رقم نیٹ پرافٹ کا88فیصد تھی تو اس کا درست موازنہ اس وقت ہوگا جب آپریشن سے حاصل ہونے والے مجموعی کیش میں نان کیش اخراجات اور نیٹ پرافٹ کو شامل کیا جائے اور پھر پرسنٹیج نکالی گئیں۔ حاصل شدہ اعداد و شمار سے انکشاف ہوتا ہے کہ ہل میٹلز نے2010-15ء وزیراعظم نوازشریف کو938 ملین روپے بھیجے تھے۔ مذکورہ سال کے دوران دستاویزات کے مطابق ہل میٹل نے جو اصل کیش جنریٹ کیا جو جے آئی ٹی کے پاس بھی دستاب تھا وہ4اعشاریہ381ارب روپے تھا جو صرف19 اعشاریہ40فیصد بنتا ہے ناکہ 88فیصد، جیساکہ جے آئی ٹی کی جانب سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے کے لیے الزام لگایا گیا جے آئی ٹی کیا ثابت کرنا چاہتی تھی وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک سوال رہے گا اور اکائونٹنگ کے طالب علموں کے لیے ایک مضحکہ خیز اور کلاسیکل مثال رہے گی۔