• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کا موسم آگیا

بشریٰ رحمٰن

جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہےتو قوم وملت کا درد رکھنے والے، اس درد میں دن رات تڑپنے اور قوم کے ہر مسئلے کو چٹکیوں میں حل کرنے والے راتوں رات کھمبیوں کی طرح اُگ آتے ہیں،انہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ قوم رہنماؤں میں کتنی خود کفیل ہے۔ ماشااللہ ،ابھی رہنماؤں کی ایک کھیپ کے دلی ارمان پورے نہیں ہو پاتے کہ دوسری کھیپ رہبری کے لیے تیار ہوتی ہے، تیار کیا ہوجاتی ہے بلکہ میدان میں اُتر آتی ہے،میدان میں کیا اُترتی ہے، اکھاڑے میں آجاتی ہے، پھر ہر پہلوان دوسرے پہلوان کو چیلنچ دیتانظر آتا ہے۔

آج کل پھر سڑکیں پُر بہار اور گلیاں د ل فگار ہیں، اندر ہی اندر کھچڑیاں پک رہی ہیں، سمجھوتے ہورہے ہیں،سودے ہو رہے ہیں اور چاند ستاروں پر وعدوں کی کمندیں ڈالی جارہی ہیں۔ شکر ، اس جمود میں کچھ زندگی کے آثار پیدا ہوئے، ہلچل ہوئی اور سرگرم عمل نظر آئے ہیں، ویسے سچی بات ہے ، ہمارےانتخابات دو چیزوں کے زور پر جیتے جاتے ہیں ،نعرے اور تقریریں۔نعر ہ وضع کرنے میں ہمار ا کوئی ثانی نہیں۔ اُمید وارکا نام خواہ کچھ بھی ہو، وہ مصرع کے طور پر کام آئے گااور ایسی گرہ لگائی جائے گی کہ بڑے بڑے نامی گرامی شاعر سر پکڑکر بیٹھ جائیں گے۔

ایک حلقے کے امیدوار کا انتخابی نشان لالٹین تھا۔ جب اس کے حمایتی ، امیدوار کے نام کے ساتھ کوئی مصرع نہ بناسکے تو انہوں نے انتخابی نشان کو بڑی مہارت سے کچھ اس طرح استعمال کیا:

سکھ چین ،سکھ چین، لالٹین، لالٹین

مانواں کہن، بہناں کہن، لالٹین ،لالٹین

اس قوم کا مزاج لڑکپن سے شاعرانہ ہے،مصرعے میں ووٹ مانگیں تو ووٹ نہیں دیتے۔مصرے اور تصویریں بینر پر سجائی جاتی ہیں اور یہ بینر اور تصویریں چھوٹی بڑی سڑکوں پر ، چوراہوں پر،عمارات پر ہر جگہ نظرآرہی ہیں، ان میں سے جو جیت جائیں گے وہ جیت جائیں گے باقی لٹکے رہ جائیں گے۔ نعروں کے ساتھ منشور کا ہونا بہت ضروری ہے ، مگر پچھلے پندرہ سالوں میں چند نعرے اس قدر برتے گئے ہیں کہ اب لوگ ان کی بگڑی شکلیں سن سن کر بھی تھک گئے ہیں، جن کو معلوم ہی نہیں کہ آج قوم کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ، وہ ہر مسئلے کا کا حل کیوں کرہوسکتے ہیں؟ پچھلی مرتبہ جب انتخابات ہورہے تھے توہم بھی ایک انتہائی شریف النفس شخص کی انتخابی مہم میں مدد دینے ایک محلے میں چلے گئے۔

ہم نے وہی سکہ بند فقرےیوں کہنے شروع کیے کہ دیکھیےموصوف آپ کے محلے کے بڑے نیک، نمازی اور تہجد گزار شخص ہیں ، ان کی پشتوں میں بشرط استواری کا سلسلہ چلتا آرہا ہے۔ محب وطن ایسے کہ وطن پر اپنی جان تک لٹا دیں۔ کبھی انہوں نے محلے کی بہن ، بیٹیوں کو نگاہ اُٹھا کر نہیں دیکھا۔ ہمیشہ باوضو رہتے ہیں اور اس ملک کو ایسے ہی دیندار اور محبِ وطن لوگوں کی ضرورت ہے، آپ جانتے ہیں، اس وقت ملک کس دوراہے پر کھڑا ہے وہاں۔۔۔۔ ابھی ہم نے اتنا ہی کہا تھا کہ اندر سے توانا و منہ پھٹ جوان دھاڑتا ہوا باہرنکل آیا اور کہنے لگا بی بی، میرے پاس اس وقت دوسو ووٹ ہیں لیکن یہ ووٹ ہم اس اُمیدوار کو دیں گے جو سب کام ہماری مرضی سے کرےگا‘‘۔

’’ آپ کی مرضی کے کیا کام ہیں ؟ ‘‘بھائی ہم نے پوچھا۔

کہنے لگا ، ’’ہمیں وہ اُمیدوار درکار ہے کہ جب ہم قتل کر کے آئیں تو فوراََ ہماری ضمانت کر وادے، اگر ڈاکہ ڈال کر آئیں تو ہمیں تحفظ دے، اگر ہمارا کوئی کارندہ اسمگلنگ کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس پر پردہ ڈالے۔ ہم نے تہجد گزار اور صوم و صلٰو ۃکے پابند شخص کو منتخب کر کے کیا لینا ہے۔صوم وصلٰوۃ کے پابند تو صرف نکاح کے لیے ہی بہتر ہوتے ہیں۔ اس لیے انتخابی نعروں پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاََ، ہر جرم کےبعدآپ کو چھڑوانے کے لیے تیار، آپ کا اپنا ساتھی رستم جبار۔۔۔۔۔۔ یا جو جی چاہے کیجئے ، مگر ووٹ مجھے ہی دیجئے۔

سیاست میں ایک بڑی خوبی دیکھی اور وہ یہ ہے کہ گونگے کو بھی بولنا سکھا دیتی ہے۔ایک ماں اپنے بچے کو لے کرڈاکٹر کے پاس گئی تاکہ ڈاکٹر اس کا تانتوا کاٹ دے، وہ کافی عرصہ سے بول نہیں رہا تھا، مگر ڈاکٹر نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ اس کا تانتوا نہ کٹوائیں اسے الیکشن لڑوا دیں۔

ویسے اس قوم کا مزاج شاعرانہ ہی نہیں ، لڑکپن سےسے عاشقانہ بھی ہے ، ہرآنے والے کو کندھوں پر اُٹھا لیتی ہے اور کہتی ہے:

تمام عمر تیرا انتظار ہم نے کیا

اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

یہ قوم اپنے عشق کے دعو ؤں میں دور تک نکل جاتی ہے یعنی قیس کو شرمندہ کرتی ہے ،رانجھے کی ہنسی اُڑاتی ہے ، پنو پر ببھتیاں کستی ہے، وامق کی نارسائی پر ہنستی ہے، مرزا جٹ کو معطوں کرتی ہے اور اپنے محبوب کو کندھوں پر اُٹھا کر ناچتی ہے، بھنگڑا ڈالتی ہے، پھر جب محبوب سے دل بھر جاتا ہے تو کندھوں سے یوں گرا دیتی ہے، محبوب بے چارا یہ کہتا رہ جاتا ہے:

ثریا سے زمیں پر آسمان نے ہم کو دے مارا

مگر ، کیا کیجئے کہ مزاج عاشقانہ ہوگا تو عشق کے موسم بھی بدلتے رہیں گے۔ موسم بدلیں گے تو دنیا کا کاروبار بھی چلتا رہے گا، سوائے اس ایک بات کے کہ اس ملک میں انتخابات یا تو تاریخ بنا دیتے ہیں یا تاریخ بگاڑ دیتے ہیں۔

تازہ ترین