• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سول سروسز میں اصلاحات کیلئے وزیراعظم نے کمیٹی کی تجاویز مسترد کر دیں

اسلام آباد (انصار عباسی) سول سروسز میں اصلاحات کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی وزیراعظم نواز شریف نے سی ایس ایس کے امتحانات کے حوالے سے پہلی تجویز کو مسترد کر دیا جس سے اصلاحات کے عمل کو زبردست دھچکا لگا ہے، انہوں نے مہینوں کی مشاورت سے تیار کرنے والوں کی اسکیم کو ایک موقع تک نہیں دیا۔ وزارت پلاننگ کمیشن اور اصلاحات نے دیگر اسٹیک ہولڈرز بشمول اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سول سروسز کے امتحانات، جنہیں سی ایس ایس کہا جاتا ہے، میں اصلاحات کیلئے ایک جامع اسکیم تیار کی تھی۔ صرف یہی نہیں، سینیٹ پاکستان نے بھی سی ایس ایس کے امیدواروں کی عمر کی حد بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اسکیم کی پہلی تجویز، جس میں امیدوار کی عمر دو سال بڑھانے کو وزیراعظم نے 8؍ مارچ کو یکطرفہ فیصلہ کرتے ہوئے مسترد کردیا اور طویل مشاورت اور اجلاسوں کے نتیجے میں اسکیم تیار کرنے والوں سے مشورہ تک نہیں کیا۔ وزیراعظم کے فیصلے سے مایوس، وزارت پلاننگ کمیشن کے حکام نے یہ سفارشات دوبارہ وزیراعظم آفس کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مرتبہ اس حقیقت کو نمایاں کیا جائے گا کہ یہ سفارشات سول سروسز میں اصلاحات کیلئے طویل مشاورت کا نتیجہ ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے وزیراعظم کیلئے اس موضوع پر تیار کی گئی سمری کے مطابق سی ایس ایس کے امتحان کیلئے امیدوار کی عمر کی حد 28 سے بڑھا کر 30 سال کرنے کی وجہ سی ایس ایس امیدوار کی تعلیمی سطح میں اضافہ کرنے کے باعث کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیبشلمنٹ ڈویژن کی سمری کے مطابق، وزیراعظم نواز شریف نے خود وزیر برائے پلاننگ اینڈ کمیشن کو ہدایت دی تھی کہ وہ سول سروسز میں اصلاحات کیلئے مختلف پہلوئوں کا تفصیلی جائزہ لیں۔ وزیر پلاننگ کمیشن کے تحت ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے تجویز پیش کی کہ سی ایس ایس کے امیدوار کی تعلیمی اہلیت 14 سال والے گریجویشن سے بڑھا کر 16 سال والے گریجویشن تک کی جائے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ضروری تھا کہ امیدواروں کی عمر کی حد میں بھی اضافہ کیا جائے۔ سمری میں وزیر پلاننگ کمیشن کا ایک نوٹ بھی شامل تھا جس میں وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، فیڈرل پبلک سروس کمیشن، وزارت پلاننگ اینڈ ریفارم اور دیگر نے مل کر طویل مشاورت کے بعد یہ تجاویز مرتب کی ہیں۔ وزیر احسن اقبال نے بتایا تھا کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ معاشرے کو درپیش پیچیدہ حالات اور چیلنجز کی وجہ سے سی ایس ایس امتحانات کیلئے کم از کم تعلیمی قابلیت 14 سال سے بڑھا کر 16 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی طرح تعلیمی قابلیت میں اضافے کی وجہ سے عمر کی حد 28 سے بڑھا کر 30 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ احسن اقبال نے اپنے نوٹ میں یہ بھی بتایا کہ سینیٹ پاکستان نے بھی عمر کی حد 28 سے 30 کرنے کی متفقہ تجویز دی ہے۔ سول سروسز میں اصلاحات لانے کے عمل میں شامل تمام افراد کیلئے یہ بات حیران کن تھی کہ وزیراعظم کے آفس کی جانب سے انہیں تجاویز مسترد کرنے کا بتایا گیا۔ وزیراعظم کے فیصلے سے مایوس ذرائع نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ انہیں اپنا مقدمے کا دفاع کرنے کا موقع تک نہیں دیا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم آفس کی بیوروکریسی کی جانب سے وزیراعظم کو گمراہ کیا گیا جس کی وجہ سے تجاویز مسترد کی گئیں۔ سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم آفس نے تجاویز مسترد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وزارت پلاننگ اینڈ ریفارم کو مندرجہ ذیل وجوہات سے مطلع کیا: (۱) تعلیم کی سطح بڑھا کر 14 سال کی بجائے 16 سال والے گریجویشن کی بنیاد پر امیدوار کی عمر کی حد 28 سے بڑھا کر 30 سال کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور 28 سال کی عمر تک سی ایس ایس کے امتحان میں تین مواقع زیادہ ہیں۔ (۲) حکومت کو چاہئے کہ کم عمر نوجوانوں کو سی ایس ایس کے امتحان کی جانب راغب کرے کیونکہ اسی عمر میں وہ نسبتاً سرکاری ملازمت کی اخلاقیات اور اس کی روح کو سمجھنے اور سیکھنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ (۳) تجربے کے لحاظ سے 21 گریڈ کے کسی بھی افسر کیلئے 22 گریڈ میں ترقی کیلئے کم از کم مطلوبہ عمر کی حد 24 سال ہے۔ اصل میں اس سے بھی کہیں زیادہ وقت لگ جاتا ہے اور زیادہ تر افسران 22 گریڈ میں اپنی سروس کے آخری ایک یا دو سال میں ہی خدمات انجام دے پاتے ہیں۔ کئی افسران تو 21 گریڈ میں ہی ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس کے تجربہ کار اور ماہر افسران اہم ایگزیکٹو اور پالیسی ساز عہدوں یعنی 22 گریڈ پر کام کریں جس میں انہیں استحکم اور تسلسل ملے۔ لیکن اکثر ایسا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ کئی افسران 22 گریڈ میں ترقی ملنے سے پہلے یا اس کے فوراً بعد ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اہم عہدوں پر تعیناتی کیلئے تجربہ کار اور ماہر افسران کی تعداد دستیاب افسران کے مقابلے میں کم ہوجائے گی۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے سمری مسترد کیے جانے کے بعد، پلاننگ ڈویژن وزیراعظم کو ایک ریفرنس بھجوانے پر غور کر رہی ہے جس میں وزیراعظم نواز شریف سے درخواست کی جائے گی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔
تازہ ترین