مراکش کے شاہ محمد ششم کی تخت نشینی کی سالگرہ

August 07, 2013

مراکش پر اُس وقت فرانس کا تسلط تھا اور فرانسیسی اسے اپنی ایک نوآبادیاتی سمجھتے تھے۔ مراکش کے موجودہ بادشاہ کے دادا محمد پنجم مرحوم کی قیادت میں مراکش کی فرانس سے آزادی کی تحریک جاری تھی۔ 1952ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک اجلاس کے موقع پر محمد پنجم کی طرف سے بھیجے گئے تحریک آزادی کے اہم لیڈر احمد عبدالسلام بلفرج سیکورٹی کونسل میں مراکش کی آزادی کے حق میں بولنے کیلئے کھڑے ہوئے تو فرانسیسی نمائندے نے انہیں یہ کہہ کر بولنے سے روک دیا کہ مراکش فرانس کی ایک کالونی ہے، لہٰذا احمد عبدالسلام بلفرج کو اس پلیٹ فارم پر بولنے کی اجازت نہیں۔ اجلاس میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان بھی موجود تھے، جب انہوں نے ایک اسلامی ملک کے ساتھ فرانس کا یہ رویہ دیکھا تو انہوں نے احمد عبدالسلام بلفرج کو پاکستانی شہریت کی پیشکش کی۔ اس سلسلے میں نیویارک میں واقع پاکستانی سفارتخانے کو رات گئے کھلوایا گیا اور احمد عبدالسلام بلفرج کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ دوسرے دن احمد بلفرج نے ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے پاکستان چیئر سے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا اور مراکش کی آزادی کیلئے آواز بلند کی جس کے بعد مراکش کی آزادی کی تحریک نے زور پکڑا۔ 28اگست 1953ء کو محمد پنجم نے مڈغاسکر میں جلاوطنی اختیار کرلی اور وہاں سے تحریک کو جاری رکھا۔ 16نومبر 1955ء میں محمد پنجم مراکش واپس لوٹے اور تحریک آزادی کے نتیجے میں 19نومبر 1956ء میں مراکش کو فرانس کے تسلط سے آزادی حاصل ہوئی، جس کے بعد بادشاہ محمد پنجم نے احمد عبدالسلام بلفرج کو مراکش کا پہلا وزیراعظم نام زد کیا۔ احمد بلفرج آج اس دنیا میں نہیں مگر جب تک وہ وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے انہوں نے اپنے دفتر میں مذکورہ پاکستانی پاسپورٹ کی کاپی آویزاں رکھی۔ وہ اپنے دفتر میں آنے والے ہر شخص کو بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ ”مراکش کی آزادی کی تحریک کے دوران پاکستان اور پاکستانی پاسپورٹ نے ان کی بڑی مدد کی۔“ مذکورہ 61 سال پرانے پاسپورٹ کی ایک کاپی آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب الجیریا اور مراکش میں فرانس سے آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی تو مراکشی عوام کو پاکستان کی طرف سے ہر طرح کی مدد حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مراکش کے لوگ فرانس کے تسلط سے نجات کیلئے پاکستان کی کاوشوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے دلوں میں پاکستان کیلئے انتہائی خلوص اور محبت کے جذبات رکھتے ہیں۔
پاکستان اور مراکش کے تعلقات نصف صدی سے بھی زیادہ پرانے ہیں جو ٹھوس اسلامی رشتہ اخوت کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلقات مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں۔ 90ء کی دہائی میں، میں نے مراکش میں کاروبار کا آغاز کیا جو آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔اس کے علاوہ میرے بیگ گروپ کی کمپنی پاک ڈینم اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات مراکش کی مارکیٹ میں ایکسپورٹ کررہی ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر ہے کہ مراکش کے عوام، زبان، روایات اور معیشت سے گہری واقفیت کی وجہ سے میری اس ملک سے خصوصی نسبت اور وابستگی ہے۔ کاروبار کے سلسلے میں سال میں کئی بار میرا مراکش آنا جانا رہتا ہے، اس طرح میں مراکش کو اپنا دوسرا گھر تصور کرتا ہوں۔ مراکش سے میری گہری وابستگی کو دیکھتے ہوئے مراکش کی حکومت نے مجھے 2005ء میں پاکستان میں مراکش کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے متعین کیا۔ یہ میرے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ میں پاکستان اور مراکش کے مابین باہمی تجارت، سیاحت، سرمایہ کاری اور سماجی تعلقات کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دوں۔ تجارتی وفود کا تبادلہ،مراکش میں پاکستان سنگل کنٹری نمائش کا انعقاد اور مراکش سے اعلیٰ سطحی وفود کی ”ایکسپو پاکستان“ میں شرکت اس سلسلے کی چند مثالیں ہیں اور میری یہ خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کے حجم میں مزید اضافہ ہو۔ اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے میری خدمات کے پیش نظر گزشتہ سال مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے مجھے مراکش کا قومی اعزاز ”وسان علاوی“ عطا کیا جو میرے اور ملک کیلئے اعزاز کی بات ہے۔ میں وہ پہلا پاکستانی ہوں جسے مراکش کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
50 سالہ محمد ششم مراکش کے الاوت سلسلے کے 18 ویں بادشاہ ہیں۔ آپ کا تعلق خانوادہ رسولﷺ سے ہے، آپ حافظ قرآن اور دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم سے بہرہ مند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مراکش کے عوام اپنے بادشاہ سے نہایت عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں محمدششم کی تخت نشینی کی 14 ویں سالگرہ جسے ”عید العرش“ بھی کہا جاتا ہے، مراکش سمیت دنیا بھر میں قائم مراکش کے سفارتخانوں میں جوش و خروش سے منائی گئی۔ اسی سلسلے کی ایک رنگا رنگ تقریب پاکستان میں مراکش کے سفیر عزت مآب مصطفیٰ صلادین جو حال ہی میں پاکستان میں تعینات ہوئے ہیں، نے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد کی جس میں مختلف ممالک کے سفارتکاروں، پاکستانی سیاستدانوں اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ مراکش کے سفیر مصطفی صلادین اور اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے میں نے فرداً فرداً مہمانوں کا استقبال کیا۔ سالگرہ کی اس تقریب میں حکومت کی نمائندگی وفاقی وزیر پیداوار مرتضیٰ جتوئی اور خیبر پختونخواہ کے گورنر انجینئر شوکت اللہ نے کی۔ ہوٹل کے ہال کو پاکستان کے سبز ہلالی اور مراکش کے سرخ پرچموں سے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ تقریب کا آغاز دونوں ممالک کے قومی ترانوں سے کیا گیا۔ اس موقع پر پاکستان اور مراکش کے پرچم کی طرز پر بنا کیک بھی کاٹا گیا۔ تقریب کے اختتام پر مراکشی کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی جس کے بعد پودینے سے بنی مراکشی چائے مہمانوں کو پیش کی گئی جسے مہمانوں نے بے حد پسند کیا۔ مراکش کے بادشاہ کی تخت نشینی کی سالگرہ کی مناسبت سے مختلف اخبارات نے خصوصی ضمیمے بھی شائع کئے ،جن میں پاکستان کے عوام کی جانب سے مراکش کے بادشاہ اور عوام کو تخت نشینی کی سالگرہ پر مبارکباد دی گئی تھی۔ مراکش اور پاکستان میں تاریخی اعتبار سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ 711ء میں جب نوجوان سپہ سالار طارق بن زیاد اپنی کشتیاں جلاکر فتح یا شہادت کا اعلان کررہے تھے جس کے بعد مسلمانوں نے کئی سو سال یورپ میں حکومت کی، اسی دوران ایک اور نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم دیبل کے قلعے پر فتح کا اسلامی پرچم گاڑ رہا تھا جس کے نتیجے میں پورے برصغیر میں اسلام پھیلا اور مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی۔ پاکستان سے ہر سال لاکھوں افراد یورپ اور امریکہ کی سیاحت کے لئے جاتے ہیں، اس کے باوجود کہ وہاں ان سے تحقیر آمیز سلوک کیاجاتا ہے اور انہیں دہشت گرد تصور کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اسلامی ممالک کو بے انتہا حسن سے نوازا ہے، ان میں سے ہی ایک ملک مراکش ہے جو نہایت خوبصورت ملک ہے اور دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے کشش کا باعث ہے۔ ہمیں چاہئے کہ سیاحت کے حوالے سے اسلامی ممالک کو ترجیح دیں تاکہ ان ممالک میں سیاحت کو فروغ حاصل ہو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب آنے کا موقع میسر آسکے۔