شاکر شجاع آبادی!

November 01, 2021

جہاں روحی بانو اکلوتے بیٹے کے قتل کے بعد پاگل ہو کر گلیوں ،بازاروں میں رُل مرجائے ، جہاں اداکار علی اعجاز کی کل جمع پونجی ذاتی مکان پر یوں قبضہ ہو کہ مقدمہ بازی میں یہ وقت آجائے کہ ایک دن وہ علی اعجاز جس کے گیراج میں نئے ماڈل کی گاڑیاں کھڑی رہتیں۔

وہ رکشے کے انتظار میں منہ چھپا کر سڑک پر کھڑا ملے، قریب سے دولڑکے گزریں،ایک کہے، ارے یہ تو اداکار علی اعجاز لگ رہا، دوسرا بولے، یہ یہاں سڑک پر کیوں کھڑا ہوا، پہلا کہے، لگ رہا رکشے ،ٹیکسی کا انتظار کررہا، دوسرا کہے، یار ان اداکاروں کا The endاتنا خراب کیوں ہوتا ہے۔

علی اعجاز بتایاکرتے، یہ بات یوں نشتر بن کر میرے دل کو لگی کہ میں وہیں سڑک کنارے بیٹھ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، جہاں اسٹیج کا بادشاہ امان اللہ آخری عمر میں کل کے لونڈے لپاڑوں سے ڈانٹیں سہتا مرے، اسے روز یہ سننا پڑ ے کہ’’ امان اللہ اب تم ختم ہو چکے‘‘، جہاں ا سٹیج کی رونق ایوب اختر المعروف ببو برال کو بیمار ہوکر حمزہ شہباز کے خیراتی پیسوں کا انتظار کرنا پڑے۔

جہاں اداکار ، گلوکار، ہدایتکار ،مصنف ،کمپیئر، نجانے کیا کیا ،سعید خان المعروف رنگیلا زندگی کے آخری لمحوں میں پہنچے تواسے بھی ’ امداد‘کی ضرورت پڑجائے، جہاں اسٹیج اداکار غیاث الدین المعروف شوکی خان کار حادثے میں مرے تو اسکے خاندان کی کوئی پلٹ کر خبر نہ لے، جہاں دو ہزار اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے والے مرتضیٰ حسن المعروف مستانہ کا ہیپاٹائٹس سی بگڑ کر جگر کا کینسر بنے۔

باہر علاج کیلئے پیسوں کا انتظام نہ ہو پائے اور وہ بہاولپور کے ایک اسپتال میں مرجائے، جہاں جمیل فخری جیسے اداکار کا جواں سال بیٹا ایاز فخری امریکہ میں لاپتا ہو تووہ یہاں روزحکومتی دروازے کھٹکھٹا ئے ، روز سرکاری دفتروں کے چکر لگائے ،روز کہے ، حکومتی سطح پر امریکہ میں میرے لاپتا بیٹے کا پتا چلایاجائے، پھر ایک دن جب اسے پتا چلے کہ بیٹا کسی نے ماردیا تو دفتر دردفتر رُلتے جمیل فخری کو برین ہیمرج ہو۔

کومے میں جائے اور وہاں سے سیدھا مرحوم بیٹے کے پاس جاپہنچے ، جہاں مشہور ٹی وی ڈرامے’عینک والا جن‘ کی نصرت آرا المعروف بل بتوڑی دو وقت کی روٹی کو ترستی مرجائے، جہاں زوال آنے کے بعد وحیدمراد لاہور کی ایک مارکیٹ میں اکیلا کھڑا ہو اور کوئی سلام لینے والا نہ ہو، جہاں اوول کا ہیرو کرکٹرفضل محمود لاٹھی کے سہارے چلتا سڑک پر لوگوں کو روک روک کر کسی دفتر کا پتا پوچھنے کی کوشش کر رہا ہو اور کوئی رُک کر پتا نہ بتا رہا ہو۔

جہا ں چھوٹے قد کے بڑے فنکار جاوید کوڈو فالج حملے کے بعد چلنے پھرنے سے قاصر ہوںتو سب نظریں پھیر لیں ،جہاں عمر شریف جیسے لیجنڈ کیلئے بیرون ملک علاج کیلئے پیسوں کا انتظام ہوتے ہوتے اتنا وقت گزر جائے کہ عمر شریف رستے میں ہی خالقِ حقیقی سے جاملے۔

جہاں شوبز مطلب ایک شعبے میں ایسی بے حسی کی بیسوؤں مثالیں ہوں، جہاں ادب ، صحافت ،کھیل سمیت ہرمیدان میں ایسی بے رحمی،بے کسی کی سینکڑوں مثالیں موجود ، وہاں مجھے علمِ شاکر شجاع آباد ی کیلئے رونا دھونا، اس حوالے سے کچھ لکھنا ، کہنا فضول، لیکن کیا کروں ، دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر لکھنے پر مجبور۔


اپنی طرز کے نامور شاعر، جنوبی پنجاب کی محرومیوں کی آواز بلکہ جنوبی پنجاب کے شیکسپیئر، شاکر شجاع آبادی کس حال میں یہ سب دیکھ ،سن چکے،گو کہ معذوری ،محرومی ،غریبی بھری ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انہیں سندھ حکومت سے 10لاکھ مل چکے، حکومت پنجاب کے 3لاکھ بھی ان تک پہنچ چکے، جہانگیر ترین امداد کرچکے۔

وظیفہ لگا چکے، وہ ایک سرکاری اسپتال میں داخل بھی ہوچکے مگر دکھ یہ، لودھراں کے نواحی علاقے چاہ بٹے والے میں پیدا ہونے، مٹھو بستی (شجاع آباد)، راجہ رام (ظریف شہید) میں بچپن،لڑکپن گزارنے والے 66سالہ شاکر شجاع آبادی کی اگر وہ ویڈیو سامنے نہ آتی جس میں بڑھی داڑھی ،میلے کچیلے کپڑوں اور ٹوٹے جوتوں میں فالج زدہ شاکر شجاع آبادی کو ان کے ایک عزیز موٹر سائیکل پر اپنے ساتھ باندھ کر اسپتال چیک اپ کیلئے لے جارہے۔

ان کے عزیز نے انہیں موٹر سائیکل پر اسلئے اپنے ساتھ باندھ رکھا تھاکہ شاکر شجاع آبادی اس قابل بھی نہیں کہ خود موٹر سائیکل پر بیٹھ سکیں ، بیٹھ کر توازن برقرار ر کھ سکیں ، اگر یہ ویڈیو سامنے نہ آتی، تو لہو دا عرق، پتھر موم، بلدین ہنجو، پیلے پتر جیسی کتابوں کے مصنف ،خود بولنے سے سے محروم مگر آواز سے محروم طبقے کی آواز شاکر شجاع آبادی کیا ایسے ہی رُل رُل مرجاتے۔

دکھ یہ بھی، سات دن کی عمر میں ٹائیفائیڈ بخار کا شکار ہو کر آج مختلف بیماریوں ،فالج ،غربت کے پے درپے حملوں سے زندہ لاش بنے شاکر شجاع آبادی جو بولنے کی کوشش میں بڑبڑائے ،اس بڑبڑاہٹ کو ان کا بیٹا ٹرانسلیٹ کر کے آگے بتائے ،اتنے بڑے شاعر اس حال تک کیوں پہنچے، دکھ یہ بھی، بچپن میں بہاولپور فروٹ ،سبزی منڈی میں سارادن مزدوری کرکے 5روپے کما کر گھر لانے اور بیمار ماں کا علاج کرنے والے حکیم کو دوائی ،علاج کے نام پر 5روپے دے کرروزانہ پیا ز کیساتھ روٹی کھا کر سوجانے والے شاکر شجاع آبادی آج اس حال تک نہ پہنچتے اگر انکا بروقت علاج ہوجاتا۔

انہیں علاج کیلئے امریکہ بھیج دیا جاتا ، کوئی حکومت ڈیڑھ کروڑ کا خرچہ برداشت کر لیتی ، دکھ یہ بھی ، شاکر شجاع آبادی کے دو بیٹے ،تین بیٹیاں، سب بے روزگار، کئی بار بیٹوں نے درخواستیں دیں کہ اگر ہمیں ہی نوکری مل جائے تو ہم اپنے باپ کا خرچ اٹھا لیں مگر نہ یہ پرانے پاکستان میں ہوا اور نہ اب نئے پاکستان میں ہورہا، ہاں ایک بار کسی سرکاری بابو نے شاکر شجاع آبادی کے پڑھے لکھے بیٹے پر ترس کھا کراسے جمعدارکی نوکری کی پیشکش کی مگر بعد میں وہ اس پیشکش سے بھی مُکر گیا۔


لیکن سب سے بڑا دکھ یہ،گزرے سواتین سالوں سے پنجاب مطلب آدھے پاکستان کا حکمران سائیں عثمان بزدار ،جو شاکر شجاع آبادی کی طرح خود بھی جنوبی پنجاب کے، جن کو بقول عمران خان وزارت اعلیٰ اسلئے ملی کہ ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے سے، خود اتنے پسماندہ کہ اپنے گھر میں بجلی نہیں اور جنوبی پنجاب کی پسماندگی دورکرنے کی شدید خواہش انکے دل میں، اس سائیں عثمان بزدار کی سوا تین سالوں میں شاکر شجاع آبادی پر نظر نہ پڑی۔

انکے بچوں کو نوکری،کوئی سرکاری وظیفہ ،کوئی علاج ،سائیں بزدار نے جنوبی پنجاب کی پسماندگی دورکیا کرنی تھی وہ تو ایک شاکر شجاع آبادی کی پسماندگی دور نہ کرپائے، ہاں یہ سنا جارہا کہ سائیں بزدار نے اپنی کیا اپنی سات نسلوں کی ’پسماندگی ‘ دور کرلی۔

سائیں کے اب 4شہروں میں گھر، ایک لاؤ لشکر پروٹوکول کے نام پر ساتھ، سائیں آئے روز یوں سرکاری ہیلی کاپٹر بھگائیں کہ اگر 5سالہ مدت پوری کرگئے تو شہباز شریف کے ہیلی کاپٹر بھگانے کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا، سائیں کی گورننس، پرفارمنس یا پنجاب کے ہر محکمے میں کرپشن الزامات ایک طرف رکھیں۔

سواتین سالہ وزارت اعلیٰ میں سائیں بزدار سوئمنگ سیکھ گئے، گورنر ہاؤس میں روزانہ واک، اپنے کھانے پینے کامکمل خیال ،جوتے ،کپڑے پہننے کا ایسا ڈھنگ آگیا کہ ایک بار پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ملے،پوچھنے پر بتانے لگے کہ یہ کپتان چپل جو میں نے پہنی ہوئی، اسکا چمڑا عام نہیں یہ بہت خاص چمڑا ،یہ پاؤں کو comfortable رکھے۔

یہ بھی سائیں نے بتایا کہ جب وہ اسلام آباد آئیں تو نارمل چائے نہیں پیتے، بلکہ ان کیلئے خاص قسم کی چائےبنائی جائے، جوان کا خاص بندہ کہیں اور سے بنا کر لائے، اب یہ یاد نہیں کہ سائیں نے چائے مطلب دودھ پتی میں ڈالا جانے والا دودھ بکری کا بتایا تھا یا بھینس کا،اس کے علاوہ سائیں خود کو فٹ رکھنے کیلئے کیا کیا کریں۔

یہ پھر کبھی سہی، یہ موضوع نہیں،موضوع شاکر شجاع آبادی ،سائیں کا ذکر اسلئےآگیا کہ بتانا صرف یہ ، سواتین سالوں میں سائیں بزدار کی سات نسلوں کی تو حالت بدل گئی مگر شاکر شجاع آبادی کی 66 سالوں میں حالت خراب سے خراب تر ہوئی، مگر وہی بات کس کس بات پر روئیں دھوئیں۔

کس کس چیز کا ماتم کریں، کون سا شعبہ، کونسا ادارہ جو زوال سے بچ گیا ہو،آج ہر شعبے کے شاکر شجاع آبادیوں کا یہی حال جو شاکر شجاع آبادی کا اور آج ہر شعبے میں سائیں بزدار ایسے ہی موجیں کررہے جیسے سائیں عثمان بزدار کررہے۔