عمران خان کا اندازِ سیاست

November 22, 2021

ٓٓآج سے تین سال پہلے بہت سے لوگوں خاص طور پر اوورسیز پاکستانیوں ، متوسط طبقے کے نوجوانوں، صحافیوں اور کچھ اداروںکے نزدیک عمران خان ایک دیوتا اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کئے جاتے تھے۔ جن کے اقتدار میں آتے ہی پاکستان کی تقدیر بدل جانی تھی اور ہر طرف خوشحالی اور ترقی کا دور دورہ ہونا تھا۔ اس ضمن میں ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی نوید بھی سنائی گئی۔ اس کے علاوہ بھی عوام کی بہبود کے لیے اتنے زیادہ خوشنما وعدے کئے گئے جو بذاتِ خود حقیقت سے کوسوں دور تھے۔ پرانے حکمرانوں کی کردار کشی اور عمران خان کی کردار سازی کے لیے ایک سوچی سمجھی میڈیاگیم کھیلی گئی جس میں یہاں تک کہا گیا کہ اپنی دیانت داری ، سیاسی سوجھ بوجھ ، خارجہ پالیسی ، ملکی ، بین الاقوامی امور میں فہم و فراست اور معاملہ فہمی میں عمران خان کا کوئی متبادل نہیں، کچھ ستم ظریفوں نے تو ان کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کو بھی اس طرح پیش کیا گویا انہوں نے جمہوریت کی خاطر کوڑوں ، جیلوں اور پھانسیوں کی سزائیں بھگتی ہوں۔حالانکہ ان کا واحد کارنامہ گرفتاری سے بچنے کے لیے 10فٹ اونچی دیوار پھلانگ کر بھاگ جانا تھاجس کا وہ اکثر فخریہ انداز میں ذکر کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی میرے جیسے بہت سے سیاسی تجزیہ نگار جو تھوڑا بہت اپنی سیاسی تاریخ اور ماضی کے عمران خان کے کردار اور رویوں سے واقف تھے۔ اسے مبالغہ آرائی سمجھتے تھے اور ہمیں ڈر تھا کہ پہلے بہت سے ’’ سیاسی تجربوں ‘‘ کی طرح یہ تجربہ نہ صرف ناکام ہو جائے گا بلکہ بہت خوفناک نتائج کا حامل ہوگا۔ اس سلسلے میں کئی دوستوں اور پی ٹی آئی کے سپورٹرز کی سوشل میڈیا پر گالم گلوچ اور غیر شریفانہ ریمارکس کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن بالآخر ہوا وہی جس کا خطرہ تھا۔ آج جو صورتِ حال درپیش ہے ۔ وہ تشویشناک ہی نہیں خوفناک ہے ۔ ہر ادارہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ لوگ ’’ دووقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔عمران خان کی سیاست ضد اور نفرت کی سیاست ہے۔ انہوں نے سیاست میں دوست سے زیادہ دشمن بنائے ہیں۔میڈیا پر سخت پابندیوں اور یک طرفہ احتساب کے تناظر میں عمران حکومت کو فاشسٹ حکومت کے علاوہ کیا کہا جائے؟ اسے دیوتا کے تخت پر فائز کرنے والے اب خود ہی اس تخت کے پائے کاٹنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ عمران خان کے سب سے بڑے اتحادی پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ ہمیں ہمیشہ سے عمران خان سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ کسی مسئلے پر ہمارے ساتھ مشورہ نہیں کرتے ۔ جب ہماری ضرورت پڑتی ہے تو بلا لیتے ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے خالدمقبول کا شکوہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے جو وعدے ہمارے ساتھ کئے تھے ،ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں کیا۔ ہم ان کی ناکامیوں کا مزید بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں۔عمران خان کی ایک اور اتحادی جی ڈی اے بھی عمران خان کے طرزِ حکومت سے نالاں ہے۔ صرف یہی نہیں پی ٹی آئی کے اپنے ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی بھی اب کھلے عام یہ الزام لگاتے سنائی دیتے ہیں کہ عمران خان کا طرزِ حکومت اور انداز ِ سیاست ناقابلِ فہم ہے۔ہمیں فیصلہ سازی میںکبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔حکومت کی غلط پالیسیوںکا نتیجہ عوام کے ساتھ پی ٹی آئی کے منتخب اراکین بھی بھگت رہے ہیں جو اپنے حلقوں میں جانے کے قابل نہیں رہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستا ن کی پوری سیاسی تاریخ میں عمران خان کے علاوہ دوسری کوئی مثال نہیں جسے مقتدر حلقوں کی اتنی بھرپور اور غیر مشروط حمایت ملی ہو۔ اور زندگی کے ہر شعبے میں اسکی کارکردگی اتنی شرمناک ہو کہ اسے یہاں تک لانے والے خود تنقید کی زد میں آجائیں۔ اور پھر وہ فرسٹریشن میں خود ان کے گلے پڑ جائے۔ اس ساری تباہی کی ذمہ دار ’’ قدرتی بہائو‘‘ کو روکنے کی کوششیںہیں۔ جن کے نتیجے میں ملک پہلے بھی دولخت ہو چکا ہے ۔ ملک گیر سیاسی پارٹیوں اور شخصیات کو ختم کرنے کی روش نے جہاں قومی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے وہیں حقیقی لیڈر شپ کو آگے آنے سے بھی روک دیا ہے۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو اب یہ بات سب کو مان لینی چاہیے کہ وہ مکمل طور پر ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں، وہ شروع ہی سے ایک خود پسند شخص ہیںجسے اس کے کیرئیر کی کامیابیوں نے مزیدخودپسند بنا دیا ۔ ورنہ جس طرح اسے اسٹیبلشمنٹ کی بے تحاشا سپورٹ حاصل تھی۔ وہ پچھلے حکمرانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے گڈ گورننس پر زور دیتا تو آج صورتِ حال مختلف ہوتی۔ جہاں تک ان کا سیاست اور تاریخ کا مطالعہ ہے ۔ افسوس کہ وہ بھی سطحی ہے اور انہیں بار بار اس کا فخریہ اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ عمران خان تو ایک دن چلا جائیگا۔ مگر اس ’’ تجربے‘‘ کی پاکستان جو قیمت چکائے گا اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟