اپوزیشن میں جان کہاں؟

November 26, 2021

ٹی وی ٹاک شوز، پریس کانفرنسز، سیمینارز اور ٹویٹس، بس اپوزیشن کے یہی ہتھیار ہیں۔ اب آڈیوز اور وڈیوز کی صورت میں دو نئے ہتھیار سامنے آئے ہیں، اجلاس ہوتے ہیں اور مارچ ملتوی ہو جاتے ہیں۔

پچھلے تین برسوں سے اپوزیشن تیاریاں کر رہی ہے اور یہ تیاریاں مکمل ہی نہیں ہو رہیں۔ تین برسوں سے تاریخیں بھی دی جا رہی ہیں کہ فلاں تاریخ تک حکومت نہیں رہے گی۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ اگلے دو ماہ میں حکومت ختم ہو جائے گی، پہلے سال ہی سے حکومت کا آخری سال کہا جا رہا ہے۔

اس دوران حکومت تین سال مکمل کرکے چوتھے میں داخل ہو چکی ہے مگر اپوزیشن کی وہی باتیں ہیں، پرانی تنخواہوں پر کام جاری ہے۔ اس ساری صورتحال نے تین چار اہم سوالات کو جنم دیا ہے، کیا اپوزیشن سنجیدہ ہے؟ کیا اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہیں؟ لوگ اپوزیشن کے کہنے پر کیوں نہیں نکل رہے؟ آخر انہیں مارچ کیوں ملتوی کرنا پڑ رہا ہے؟ استعفے نہ دے کر ڈرامے بازیاں کیوں کی جاتی ہیں؟ کہیں قیادت کا سوال تو نہیں ہے؟

ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اپوزیشن سنجیدہ ہے ہی نہیں۔

جہاں تک ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہونے کا سوال ہے تو اس سلسلے میں یہ خاکسار کئی دنوں سے عرض کر رہا ہے کہ اپوزیشن کا یہ اتحاد جدید دور کا جگتو فرنٹ ہے

اگر یہ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہوتے تو استعفے دے دیتے، اگر خلوص ہوتا تو مولانا کا مارچ جب لاہور پہنچا تھا تو ان کا شاندار استقبال کیا جاتا، لاہور پہنچ کر مولانا انتظار کرتے رہے اور ایک بڑی سیاسی جماعت نے کچھ نہ کیا۔

اگر خلوص ہوتا تو کراچی میں اتحاد میں شامل جماعت کی اہم رہنما کے ہوٹل پر چھاپا مارا جاتا، دروازہ توڑا جاتا؟ آخر اس سارے کام سے بدنامی کس کی ہوئی؟ ایک جماعت کو استعفوں کے ایشو پر اتحاد سے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تو وہ جماعت الگ ہو گئی، باقی جماعتوں نے کون سے استعفے دے دیے؟ وقت گزاری کے لیے میٹنگ میٹنگ کھیلا جاتا ہے۔

مزید اچھا وقت گزارنا ہو تو کھانا رکھ لیا جاتا ہے، اگر حالات اجازت دیں اور وقت کو مزید اچھا بنانا ہو تو کھانے کے علاوہ موسیقی کا بندوبست بھی ہو جاتا ہے۔ دن رات تنظیم سازی کے باوجود اپوزیشن میں تنظیم نہیں آسکی۔ اب بھی اپوزیشن رہنما ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ شک کی یہ نگاہیں اس وقت مزید تیز ہو جاتی ہیں جب تازہ شکست ہوتی ہے۔ تمام تر دعوئوں کے باوجود اپوزیشن حکومت کو ہرانے میں ناکام رہی ہے۔

درجن بھر جماعتوں کا اتحاد لوگوں کو باہر لانے میں کیوں ناکام ہو رہا ہے، خالی جگہ پُر کرنے کے لیے مدرسوں کے بچوں سے کام لیا جاتا ہے۔ لوگ کیوں نہیں آتے، یہ بڑا اہم سوال ہے۔

میرا خیال ہے کہ لوگوں کا سیاستدانوں پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے، وقت نے ثابت کیا ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں، لوگ اب ان کے جھوٹ کے پیچھے نہیں آتے، سنا تھا کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں، اب تو یہ ساری فلم سامنے چل رہی ہے۔

ہمارے سیاستدان جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنے والے دو تین جھوٹ ایسے ہیں کہ اب ان پر مزید جھوٹ بولا جا رہا ہے۔

اس تمام صورتحال پر مجھے بچپن میں پڑھا ہوا ایک ٹیسٹ پیپر یاد آ رہا ہے، اس ٹیسٹ پیپر کے آخری صفحے پر لکھا ہوتا تھا ...’’ چور بھی کہے چور چور ...‘‘ پچھلے تین برسوں سے لوگ کسی بھی قسم کے بہکاوے میں نہیں آ رہے۔ ممکن ہے قیادت کا بھی عمل دخل ہو، اگر یہی اتحاد نوابزادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں کام کر رہا ہوتا تو رونق ہی اور ہوتی۔

مولانا صاحب دراصل والی بال کے کھلاڑی ہیں مگر کیا کیجئے یہ دور کرکٹ کا ہے۔ کرکٹ کا میچ ہو رہا ہو تو لوگ دبئی بھی چلے جاتے ہیں اور اگر والی بال کا میچ اپنے ہی شہر میں ہو تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔

اپوزیشن کے اتحاد نے بڑا نقصان کیا ہے، ان کے آپس کے اختلافات نے مولانا سے حس مزاح بھی چھین لی ہے۔ میری تو درخواست ہے کہ مولانا اپنی حسِ لطیف کو برباد نہ ہونے دیں، اپنا وقت ان پر ضائع نہ کریں کیونکہ ان میں سے جس کو بھی اشارہ ہوا وہ مولانا کو ایک منٹ سے پہلے چھوڑ دے گا۔

سیمینار میں اداروں پرتنقید اچھی بات نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہئیں جو بیرونی دنیا سے فنڈنگ لے کر اپنے ملک اور اداروں کو بدنام کرتے ہیں، ایسی فنڈنگ ہی کیوں لی جاتی ہے جس کے پس پردہ مذموم مقاصد ہوں۔

اہل سیاست اور اداروں نے ٹی وی اینکرز کو دانشور سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کا دانش سے کوئی تعلق نہیں، یہ اینکرز نہیں بلکہ ایکٹرز ہیں۔ جب ایکٹرز کو دانشور سمجھ لیا جائے تو پھر کوئی بھی کہہ سکتا ہے اپوزیشن میں جان کہاں؟ اہل سیاست کو حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا کہ بقول وصی شاہ:

کسی پیاسے کو اپنے حصے کاپانی پلانا بھی

محبت ہے، عبادت ہے

کہیں ہم راز سارے کھول سکتے ہوں مگر پھر بھی

کسی کی بے بسی کو دیکھ کر خاموش رہ جانا

محبت ہے، عبادت ہے

کہیں بارش میں سہمے بھیگتے بلی کے بچے کو

ذرا سی دیر کو گھر لے کر آنا بھی

محبت ہے، عبادت ہے

کسی کے درد سہلانا

کسی روتے ہوئے کے جی کو بہلانا محبت ہے

میٹھا بول، میٹھی بات، میٹھے لفظ

سب کیا ہے

محبت ہے، عبادت ہے، محبت ہے، عبادت ہے