اوور سیز کو تنگ کیا جاتا ہے،پاکستان اور برطانیہ میں طے ہونے والے معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، کمیونٹی رہنما

November 28, 2021

برمنگھم(آصف محمود براہٹلوی) اوورسیز پاکستانی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں زندگی بھر کی جمع پونجی سےپاکستان میں سرمایہ کاری کرکے نہ صرف فخر کرتے ہیں بلکہ ملک سے بے روزگاری کے خاتمے میں حکومت کی مدد کرتے ہیں۔ لیکن ان کو در پیش مسائل ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ان خیالات کا اظہار سماجی فائونڈیشن اور صوفی ٹرسٹ کے چیئرمین مخدوم احمد چشتی، محمد محی الدین قمر، عبدالحمید چوہدری، عبدالحق چوہدری، ڈائریکٹر سینٹرل فیورل سروس اور دیگر نے اپنے دورہ پاکستان سے واپس برطانیہ پہنچنے پر پریس کانفرنس کیا۔ مخدوم احمد چشتی، محمد محی الدین قمر کا مزید کہنا تھا ہم چونکہ دوہری شہریت رکھتے ہیں اس طرح جو حقوق ہمیں برطانیہ میں حاصل ہیں وہی پاکستان میں بھی ہونے چاہئیں۔ حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان ماضی قریب میں ایک میمورنڈم آف انڈسٹینڈنگ (یادداشت مفاہمت) پر دستخط ہوئے ہیں اس بنیاد پر اگر کوئی پاکستان نژاد پاکستانی شہری پاکستان جاتا ہے تو برطانوی عدالتی حکم نامے یا فیصلے کے آرڈرز کو وہاں تسلیم کرنا چاہیے مگر ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔و ہاں پر دوبارہ عدالتی کارروائی کا نہ صرف سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ تاخیری حربے استعمال کرکے تنگ کیا جاتا ہے برطانیہ پلٹ شہری کو لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں۔ مخدوم چشتی کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ پلٹ سنگل ماں جو بچوں کو یہاں کے عدالتی حکم نامے کی اجازت سے پاکستان سفر کرتی ہے۔ لیکن وہاں ایسے ایسے حربے استعمال کئے جاتے ہیں کہ انہیں دوبارہ پاکستان جانے کے راستے ہی ہمیشہ کیلئے بند کرنا پڑتے ہیں۔ برطانیہ میںمحدود ذرائع آمدن کی وجہ سے آپ کو یہاں لیگل ایڈ یعنی عدالتی کارروائی کیلئے وکیلوں کی فیسوں کی مد میں مدد ملتی ہے۔ لیکن وہاں پر آٹھ سے دس ہزار پونڈ، جو پچیس ،تیس لاکھ پاکستانی کرنسی بنتی ہے کہاں سے لے کر آئیں۔ وہاں پر باپ دادا کی جائیداد بیچ کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ مخددم احمد چشتی کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں دونوں ممالک برطانیہ و پاکستان کے درمیان جن سمجھوتوں پردستخط ہوئے ان پر نظر ثانی کرتے ہوئے کمیونٹی کو درپیش مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اور ذمہ دار اتھارٹیز کو آن بورڈ کرتے ہوئے دوبارہ دستخط کرکے ان معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ کمیونٹی کے متحرک رہنمامحمد محی الدین قمر کا کہنا تھا کہ قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا۔ قبضہ مافیا کے ہاتھ بہت مضبوط ہیں وہ وہاں مقامی رہائش پذیر ہیں اداروں کے ذمہ داران سےان کے گہرے تعلقات ہیں جبکہ ہم چند ہفتوں کیلئے جاتے ہیں اس لئے تاخیری حربے استعمال کرکے ہمیں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے پورٹل پربھی کیس درج کیا اور ریفرنس نمبرز کے ساتھ شکایات درج کیں۔ لیکن وہاں پر بھی سفارش کے بغیر اوورسیز سائلین کو صرف ٹک سروس ہی ملتی ہے۔ متعلقہ دفاتر کے شفایات کی جگہ خانوں پر ٹک کانشان( ض ) نمایاں نظر آئے گا۔ فائلوں میں ہی کام ہوتا ہے جبکہ زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں ۔ان رہنمائوں کا کہنا تھا کہ آج کی اس نیوز کانفرنس کے بعد ہم پاکستان ہائی کمیشن لندن، برمنگھم قونصلیٹ اور کامن ویلتھ آفس کو باقائدہ شکایت بھیجیں گے اور در پیش مسائل کے حل تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ پاور آف اٹارنی کے ٹیسٹ پر بھی کبھی فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس ریفر کردیا جاتا ہے تو کبھی کئی اورکو ریفر کیا جاتا ہے ۔ ایک سیدھے سادھے کام کے سامنے روڑے اٹھائے جاتے ہیں۔