جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا!

December 03, 2021

قادیانیوں کے خلاف تحریک میں شدت پیدا ہو جانے سے فروری 1953میں امن و امان کی صورتِ حال قابو سے باہر ہو گئی تھی اور سول حکومت نے ایک مؤثر حکمتِ عملی اختیار کرنے کے بجائے لاہور فوج کے سپرد کر دیا تھا۔ اُس نازک موقع پر مسئلے کا حل پیش کرنے کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ شائع کیا مگر مارشل لا کے تحت اُن کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا اور جماعتِ اسلامی کے 50سے زائد اکابرین گرفتار کیے گئے۔ فوجی عدالت کے سربراہ کرنل تھے۔ میں بھی تاریخی اہمیت کا مقدمہ سننے وہاں گیا تھا۔ مولانا مودودی کی طرف سے جناب چوہدری نذیر احمد خان پیش ہوئے جو فوجداری معاملات میں چوٹی کے وکیل تھے۔ اُنہوں نے کرنل صاحب سے کہا کہ آپ پمفلٹ کے اُن مندرجات کی نشان دہی کریں جو مارشل لا کی زد میں آتے ہیں۔ اُنہوں نے اٹک اٹک کر دو چار غلط ملط فقرے پڑھے جن میں کہا گیا تھا کہ ایک بڑے حساس مسئلے کو طاقت کے زور سے حل کرنا غیردانش مندی اور ظلم ہو گا۔ حاضرین کرنل صاحب کی بصیرت پر ہکا بکا رہ گئے۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

خوش قسمتی سے ہمارے عزیز دوست جاوید نواز نے ہمیں وہ مضمون بھیجا جو میاں طفیل محمد نے روزنامہ نوائے وقت میں 21ستمبر 2011کو بعنوان ’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ جیل سے پھانسی کی سزا تک‘‘ سپردِ قلم کیا تھا۔ میاں صاحب اُس وقت جیل کے اندر مولانا کے ہمراہ تھے، جب اُنہیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ قیّم جماعت اسلامی کی حیثیت سے وہ لکھتے ہیں: ’’شہر لاہور میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد ہم لوگوں کو گرفتار کر کے لاہور سنٹرل جیل میں لے جایا گیا۔ ہم دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلا اور چودہ، پندرہ فوجی، جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے۔ ہم باقی نماز مکمل کر چکے، تو اُن میں سے بڑے فوجی افسر، جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا، نے پوچھا: ”مولانا مودودی صاحب کون ہیں؟“ مولانا نے عرض کیا ”میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں“، تو اُس نے کہا: ”آپ کو قادیانی مسئلہ لکھنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اِس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی۔ آپ صرف گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں“۔ مولانا نے بلاتوقف فرمایا: ”میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا۔ زندگی اور موت کے فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے، تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی، اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا، تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی“۔ اِس کے بعد اُسی افسر نے کہا: ” آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ ’’تسنیم‘‘ میں جو بیان دیا ہے، اُس پر آپ کو سات سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے“۔

کوئی آدھ گھنٹے بعد ہیڈ وارڈن اور اُن کے ساتھی آئے اور کہنے لگے: ”مولانا! پھانسی گھر جانے کے لیے تیار ہو جائیں“۔ اِس پر مولانا مودودی نے اطمینان سے اپنا کھلا پاجامہ تنگ پاجامے سے بدلا جو وُہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے، سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپل اتار کر سیاہ گرگابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہایت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے۔ اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب، مولانا مودودی صاحب کی قمیص، پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے، کبھی آنکھوں سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پہ رکھتے اور بےتحاشہ روتے جاتے۔ چوہدری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے آئے اور میں بھی روتا ہوا ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اِسی طرح سے گزر گئی۔ اگلی صبح ایک وارڈر نے آ کر بتایا: ”مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُنہیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ پھانسی گھر گئے، وہاں کا لباس پہنا، جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا، عشاء کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے لینے لگے‘‘۔ مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا جس کانتیجہ یہ نکلا کہ تیسرے ہی روز حکومتِ پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار خان نیازی کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے، چنانچہ مولانا مودودی کو پھانسی گھر سے جیل کی بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا‘‘۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی کی یہ عمر قید عملاً 14سال قید بامشقت تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اِسے ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن مارشل لا کے تحت دیے ہوئے سارے احکام اور سزائیں انڈمنٹی ایکٹ کے تحت برقرار رکھی گئی تھیں۔ حکومت مولانا کو جیل میں رکھنا چاہتی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ اُن کی رہائی کے ایسے اسباب پیدا فرما رہے تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے طیش میں آ کر دستور ساز اسمبلی 24؍اکتوبر 1954کو توڑ ڈالی اور اپنے فیصلے کے لیے آئینی سند حاصل کرنے کی خاطر فیڈرل کورٹ کی فصیل میں بہت گہری نقب لگائی، چنانچہ چیف جسٹس محمد منیر نے ٹیکنیکل بنیاد پر ایک ایسا فیصلہ سنایا جس کے باعث وہ اِنڈمنٹی ایکٹ بھی غیرقانونی قرار پایا جس میں مولانا کی سزا کو آئینی تحفظ قرار دیا گیا تھا۔ اِس عدالتی فیصلے کے آ جانے کے بعد بھی حکومت نے مولانا کو رہا کرنے سے انکار کر دیا۔

جماعت اسلامی نے مولانا کی سزا کی منسوخی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں منظور قادر ایڈووکیٹ کے ذریعے رِٹ دائر کی جو منظور کر لی گئی اور یوں مولانا 28مئی 1955کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہوکر گھر آ گئے۔ وہ جس دھج سے مقتل میں گئے تھے، وہ شان سلامت رہی اور ہماری تاریخِ عزیمت میں سنہری حروف میں لکھی جا چکی ہے۔ اِس واقعے کے ساتھ ایک اور عجیب و غریب کرامت بھی وابستہ ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)