دنیا کے کامیاب ترین افراد کی کہانی

December 12, 2021

کہتے ہیں کہ، ’ناکامی درحقیقت کامیابی کی طرف پہلا قدم ہوتی ہے‘۔ کیا آپ میں سے کسی نے اس مقولہ کو کبھی اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ جو لوگ کامیابی کی اس سیڑھی (ناکامی) کی اہمیت کو سمجھ لیتے ہیں، کامیابی انہی کا مقدر بنتی ہے۔ جو لوگ اس راز کو نہیں جان پاتے، کامیابی ان کے لیے کبھی نہ حاصل ہونے والی منزل بن کر رہ جاتی ہے۔

پیٹر اَیتھنز ایک معروف کوہ پیما ہیں، جن کا تعلق امریکا سے ہے۔ انھیں دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایوریسٹ کو 7مرتبہ سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ کہتے ہیں،’’میں نے ماؤنٹ ایوریسٹ کی کوہ پیمائی کی ابتدائی چار کوششوں کے دوران سیکھا کہ پہاڑ پر کیسے نہیں چڑھنا چاہیے۔ ناکامی آپ کو اپنی جدوجہد بہتر کرنے کا موقع دیتی ہے۔ آپ بتدریج نکھرتی ہوئی ذہانت کے ساتھ خطرات مول لیتے جاتے ہیں‘‘۔ پیٹر اَیتھنز نے اس بات کی روشنی میں اپنی ٹیم کو مزید سبک رفتار بنایا اور1990ء میں ایسے کم آزمائشی راستے کا انتخاب کیا، جس کے نتیجے میں اس نے پہلی کامیاب چڑھائی کی۔

بین الاقوامی شہرت یافتہ انگریزی کتاب You Can Win(1998)کے مصنف ’شِو کھیرا‘ کا مشہور قول ہے، ’کامیاب لوگ مختلف کام نہیں کرتے بلکہ وہ کام کو مختلف طریقے سے کرتے ہیں‘۔ آج دنیا جن لوگوں کو ان کی کامیابیوں کی وجہ سے جانتی ہے، ان افراد کو ابتدا میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وہ بھی تاریخ میں رقم ہیں۔ آئیے جانتے ہیں ایسی نامور شخصیات کو جو ناکامیوں سے دلبرداشتہ ہونے کے بجائے آگے بڑھتے رہے اور آج دنیا ان کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کی معترف ہے۔

البرٹ آئن اسٹائن

انتہائی ذہانت کے حامل سائنسدان آئن اسٹائن کی ابتدائی زندگی ناکامیوں سے عبارت تھی۔ انہیں 9 برس کی عمر تک بولنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ مزاج میں شدت اور باغیانہ سوچ کے باعث انہیں اسکول سے بھی نکال دیا گیا۔ لیکن ابتدائی ناکامیاں انہیں 1921ء میں طبعیات میں خدمات کے اعتراف میں دیے گئے نوبل انعام کو حاصل کرنے سے نہیں روک سکیں۔

میڈونا

1958ء میں پیدا ہونے والی گلوکارہ میڈونا کی والدہ اس وقت فوت ہو گئیں، جب میڈونا صرف 5 برس کی تھیں۔ ڈانسر بننے کا خواب انہیں نیویارک لے گیا، جہاں انہوں نے پیسوں کی خاطر ایک ڈونٹ شاپ میں نوکری اختیار کرلی لیکن جلد ہی وہاںسے فارغ کر دی گئیں۔ اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہ ہارتے ہوئے چھوٹے گروپوں کے ساتھ مل کر گلوکاری کی ابتدا کی اور اپنے گانوں کے البمز نکالے۔ آج ان کا شمار دنیا کی عظیم ترین اور نامور ترین گلوکاراؤں میں ہوتا ہے۔

والٹ ڈِزنی

مِکی ماؤس جیسے لازوال کارٹون کردار کے خالق والٹ ڈزنی کو ابتدا میں ملٹری اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ انہوں نے اسٹوڈیو قائم کرتے ہوئے کام کا آغاز کیا لیکن ناکامیوں کے باعث اسٹوڈیو دیوالیہ ہوگیا۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ کاروبار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہیں کوئی اخبار بھی نوکری دینے پر تیار نہیں تھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ تخلیقی نہیں۔ بعد میں انھوں نے مِکی ماؤس جیسا یادگار کارٹون کردار تخلیق کرکے، سب کو غلط ثابت کر دِکھایا۔

اِسٹیو جابز

نئی ٹیکنالوجی متعارف کروانے والی کمپنی ایپل کے بانی اسٹیو جابز نے اس کمپنی کا آغاز ایک گیراج سے کیا۔1985ء میں اسٹیو کو ان کی اپنی ہی قائم کردہ کمپنی سے نکال دیا گیا۔ اس عرصے میں انھوں نے ’نیکسٹ‘ اور ’پِکسار‘جیسی کمپنیوں کی بنیاد رکھی اور وہاں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اپنی لگن، محنت اور کامیابی کے باعث وہ ایک بار پھر ایپل کمپنی میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے اور اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بنے۔

بِل گیٹس

مائیکروسافٹ کے بانی کو ہارورڈ یونیورسٹی سے اپنی تعلیم اَدھوری چھوڑنا پڑی تھی۔ انہوں نے کاروبار کا آغاز کیا، جس میں شدید گھاٹا ہوا۔ تاہم اس وقت تک بل گیٹس کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اپنی صلاحیتوں کو جان چکے تھے۔ انہوں نے مائیکروسافٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ ایک تقریب میں انھوں نےکہا تھا، ’کامیابی کا جشن منانا ضروری ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں سے بھی سیکھا جائے‘۔

جے کے رؤلنگ

ہیری پوٹر کی کتابی سیریز نے اس کی مصنفہ کو دنیا کے کامیاب ترین افراد کی فہرست میں لا کھڑا کیا لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب کوئی پبلشر ان کی کتاب چھاپنے پر تیار نہیں تھا۔ ان کو یہ تک کہا گیا تھا کہ ہیری پوٹر کی کہانی پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے گا لیکن بعد میں اس کتاب اور اس پر بنائی گئی فلموں نے دنیا بھر میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیے۔

اوپرا وِنفری

ٹاک شوز کی بے تاج ملکہ اوپرا ونفری ایک انتہائی مفلس گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ زندگی کی تلخیوں کے باوجود انہوں نے محنت کا سفر جاری رکھا۔ وہ ایک عرصے تک امریکا میں ٹاک شوز کی ملکہ رہیں، انھوں نے فلم سازی کے ساتھ اداکاری کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ اوپرا نے جب ٹی وی شو شروع کیا تو وہ دنیا کے تمام ٹی وی شوز کے مقابلے میں مقبول ہوگیا۔ اوپر ا کی جذباتیت اور حساسیت انھیں شہر ت کی بلندیوںپر لے گئی۔ انہیں 2011ء میں اپنی سماجی خدمات کے اعتراف میں اعزازی آسکر بھی دیا گیا۔