ایجادات کا میدان مزید سیاع ہوا

December 27, 2021

یہ تو ہم جانتے ہیں کہ تحقیق اور ایجادات ترقی کے دو اہم پہلو ہیں ،اس کے بغیر کسی بھی ملک کا ترقی کی راہ پر گامزن ہونا نا ممکن ہے۔اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف خطوں کے سائنس داں 2021ء میں بھی حیرت انگیز ایجادات اوردریافتوں میں سر گر م رہے اور دنیا بھر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا کا کینوس وسیع کرنے میں کافی اہم سال ثابت ہوا ۔ رواں سال بھی گزشتہ کئی بر سوں کی طر ح علم وحکمت کی پرواز جاری رہی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئی ایجادات ،دریافتوںاور تحقیقات کے متعدد جھنڈے گاڑے گئے ۔

بجلی تیار کرنے کے نت نئے طریقےدریافت کیے، مختلف کاموں کے لیے روبوٹس بنائےگئے۔ ڈرون اور خودکار کشتی تیار کی گئی، ایک راکٹ میں 143 سیٹلائٹ بھیج کر نیا ریکارڈ قائم کیا گیا اور بہت کچھ منظر عام پر آیا۔اس سال ٹیکنالوجی کی دنیا میں اور کیا کیا ہوا ،اس کا اندازہ آپ کو ایجادات کی جائزہ رپورٹ پڑھ کر ہو جائے گا ۔

کھانا خود گرم کرنے والا لنچ باکس

رواں برس ہالینڈ کےانجینئر نے ایک ایسا لنچ باکس تیار کیا ہے ،جس میں چولہا اور مائیکروویو نصب کیا گیاہے ۔اس کو ’’ہیٹ باکس ‘‘ کانام دیا ہے ۔یہ یو ایس بی سے چارج ہوتا ہے ۔اسے چارج کرنے کے بعد آپ کہیں بھی لے جاسکتے ہیں ۔ کھانا کھانے سے قبل بس سوئچ آن کرنا ہوگا،جس کے بعد اندر موجود اسٹیم غذا کو اچھی طرح گرم کردیتی ہے۔ اس کے لیے صرف 20 ملی لیٹر پانی اندر ڈالناہوتا ہے جو اندر موجود اسٹیل کے برتن میں چلا جاتا ہے۔ اس کے اوپر ایک ڈھکنا رکھ کر کھانے کو بند کیا جاسکتا ہے اور یوں گرم بھاپ کھانے کے ہر حصے سے ہوتی ہوئی اسے فوری طور پر گرم کردیتی ہے۔ لنچ باکس میں موجود اندرونی والو بھاپ کا دباؤ برقرار رکھتے ہیں اور یوں برتن کے اندر کا دباؤ خوف ناک حد تک بلند نہیں ہوتا۔ ایپ کے ذریعے بھی لنچ باکس کی حرارت کو کم، درمیانہ اور بلند یا جاسکتاہے۔

سمندری فرش پر تحقیق کرنے والی خود کار کشتی

امریکی کمپنی نے2021 ء میں ڈرون کشتی تیار کی ہے جو شمسی توانائی سے خودکار انداز میں آگے بڑھتے ہوئے سمندری فرش کا نقشہ بناتی ہے اور سمندری ماحول کا قیمتی ڈیٹا بھی جمع کرتی ہے۔اس کی لمبائی 72 فٹ ہے ۔ بنیادی طور پر یہ ہوا کی قوت سے ہی آگے بڑھتی ہے لیکن اس پر لگے تمام برقی آلات اور رہنما نظام شمسی توانائی سے ہی بجلی بناتےہیں۔ اس پر دنیا کے جدید ترین سمندری، بحری اور موسمیاتی آلات و سینسر بھی لگے ہوئے ہیں۔

اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور یہ خودکار انداز میں بھی چل سکتی ہے لیکن پورے ایک سال کے مشن پر کام کرسکتی ہے۔ پانی میں حیاتی مواد (بایوماس) اور سمندر میں گھلی کاربن کی پیمائش اس کے اولین مقاصد میں شامل ہیں۔اس کا تیسرا ہدف سمندری گہرائی میں فرش کی نقشہ کشی ہے، کیوںکہ اب تک ہم صرف 20 فی صد سمندری فرش کو ہی دیکھ سکے ہیں۔ کشتی میں موجود ڈی این اے بھانپنے والے آلات پانی سے ڈی این اے اخذ کرکے میٹاجینومکس انداز میں کام کریں گے ۔

ایک راکٹ میں 143 سیٹلائٹ بھیجنے کا ریکارڈ

2021 ء میں اسپیس ایکس نامی کمپنی نے ایک راکٹ سے 143 سیٹلائٹس مدار میں بھیجنے کا ریکارڈ قائم کیا ۔ ٹرانسپورٹر ون مشن کے تحت فالکن نائن راکٹ بوسٹر نے کیپ کناورل خلائی اڈے سے اڑان بھری ،جس کے اوپر سیٹلائٹ عین اسی طرح لگائے گئے ہیں ،جس طرح سپر اسٹور کے خانوں میں اشیا رکھی جاتی ہیں۔ کمپنی نے اسمال سیٹ رائیڈ شیئرپروگرام کے تحت یہ سیٹلائٹ بھیجے ہیں۔

ان کا مقصد ایک ہی جست میں قدرے محدود لیکن کم خرچ سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنا ہے۔ اس سے چھوٹے سیٹلائٹ کے منصوبوں پر کام کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس پے لوڈ میں 133 سیٹلائٹ امریکی حکومت اور نجی کمپنیوں کے ہیںجب کہ بعض کیوب سیٹس اور مائیکروسیٹلائٹ بھی شامل ہیں،تاہم دس بڑے سیٹلائٹ کا تعلق اسٹارلنک پروگرام سے ہیں جو قطبینی مدار (پولرآربٹ) میں گردش کریں گے اور اس کی بدولت انٹرنیٹ کی عالمی سہولت فراہم کی جائے گی۔

سات اسکرین والا دنیا کا پہلا لیپ ٹاپ

برطانوی کمپنی ایکسپین اسکیپ نےاس سال دنیا کا ایک انوکھا لیپ ٹاپ بنایا ہے، جس میں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ پوری سات ڈسپلے اسکرین ہیں جو انتہائی سنجیدہ کاموں کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں۔ اس کمپیوٹر کو ’’ایکسپین اسکیپ آرورا سیون ‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ اسے سائبرسیکیورٹی، سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج، آئی ٹی ماہرین، ڈیزائنر، اسٹاک ایکسچینج اور آن لائن ٹریڈنگ ماہرین کے لیے بطورِ خاص تیار کیا گیا ہے۔اگرچہ عموماً ورک اسٹیشن پر ایک یا دو ڈسپلے کافی ہوتے ہیں لیکن عام افراد ایک سے زائد اسکرینوں سے پریشان ہوسکتے ہیں۔

یہ دنیا کا پہلا لیپ ٹاپ ہے، جس پر مختلف جسامت کے سات ڈسپلے لگائے گئے ہیں۔اس میں17.3 انچ کے چار بڑے مانیٹر ہیں جن میں سے دو لینڈ اسکیپ اور دو پورٹریٹ اسٹائل کے ہیں۔ سب کے سب فورکے اسکرین ریزولوشن کے حامل ہیں۔ جب کہ سات سات انچ کے تین ڈسپلے اور لگائے گئے ہیں۔ اس کا مضبوط ڈھانچہ تمام ڈسپلے کو سنبھالتا ہے اور دیکھنے میں یہ لیپ ٹاپ کا ٹرانسفارمر لگتا ہے۔ اس میں انٹیل کو آئی نائن 9900 کے پروسیسر ہے، 64 جی بی ڈی ڈی آر فور 2666 میموری اور ہارڈ ڈسک کی گنجائش دو ٹیرابائٹ ہے۔ اس میں کمپیوٹر اور ڈسپلے کے لیے الگ الگ بیٹریاں لگائی گئی ہیں جو دو گھنٹے تک چلتی رہتی ہیں۔

پلاسٹک آلودگی کا اصل مقام بتانے والی ایپ

پلاسٹ آلودگی ایک اہم مسئلہ ہے ۔اس کو حل کرنے کے لیے اس سال ناروے کی یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (این ٹی این یو ) نے ایک ایپ تیار کی ہے جو بتا سکتی ہے کہ یہ کچرہ کہاں سے آیا ہے ؟اس ایپ کو استعمال کرکے ساحل پر چہل قدمی کرنے والے عام افراد بھی کچرے کی تصویر لے کر اس کے جی پی ایس (کوآرڈینیٹس) کے ساتھ اسے ایپ کے ڈیٹا بیس میں بھیج سکتے ہیں۔

جوں ہی آپ پلاسٹک سے بنی کسی شے کی تصویر لیتے ہیں، ایپ ڈیٹا بیس سے پہچان لیتی ہے کہ یہ کونسی شے ہے۔ اس کے بعد وہ پانی کی لہروں، موسمیاتی کیفیات اور سمندری بہاؤ کی مدد سے جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ یہ کچرا کہاں سے آیا ہے۔ اس طرح ایک محتاط اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کس سمندری راہ سے ساحل تک پہنچا ہے۔اس ایپ کےذریعے کوڑا کرکٹ والی جگہوں کی صفائی بھی کی جاسکتی ہے ۔

پانی میں ڈوب کر بجلی بنانے والی پتنگ

اس سال سائنس دانوں نے پتنگ نما پیراک آلے کا تجربہ کیا جو سمندری لہروں کےبل پر بجلی تیار کرےگی۔اسے ’’مینٹاسسٹمز‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو نہ صرف سمندر بلکہ دریاؤں کی لہروں سے بھی بجلی بناسکتا ہے۔اس کا دل و دماغ پالیمر کمپوزٹ فوم سے بنی پتنگ ہے ،جس کی شکل ہوبہو مینٹا رے مچھلی سے ملتی ہے۔ یہ پتنگ ایک تار سے جڑی ہوتی ہے اور اس کا اگلا سرا سمندری فرش یا دریا کے اس حصے پر کھونٹے کی طرح نصب ہوتا ہے جہاں پانی کی تیز لہریں بن رہی ہوتی ہیں۔

تار کا سرا برقی موٹر اور ایک جنریٹر سے جوڑا جاتا ہے۔ پانی میں اس کا زاویہ کچھ ایسے رکھا جائے گا کہ بہاؤ کی پوری قوت اس پر پڑے ۔ اس طرح تار کھلتا چلاجاتا ہے اور جنریٹر کو گھماتا ہے۔ یہ جنریٹر بجلی بناکر اسے ایک بیٹری میں جمع رکھتا ہے یا براہِ راست مرکزی گرڈ نظام تک منتقل کردیتا ہے۔جب تار پورا کھل جاتا ہے تو ریل والی موٹر اسے دوبارہ کھینچتی ہے اور پھر یہ دوبارہ بجلی بنانے کے قابل ہوجاتی ہے۔ اس طرح مسلسل یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ نظری طور پر ایک پتنگ سے 20 میگا واٹ بجلی بنائی جاسکتی ہے۔

خلاء میں سیر کرانے والا کیپسول

سائنسدانوں نے2021 ء میں انسانوں کو خلاء کی سیر کروانے کے ایک کیپسول تیار کیا ہے، جس پر ٹکٹ کے عوض آپ پورے خلاء کی سیر کرسکتے ہیں۔ اس خوبصورت غبارے کو نظامِ شمسی کے ایک سیارے کے تحت’’ اسپیس شپ نیپچون ‘‘کا نام دیا گیا ہے۔یہ کسی بہت بڑے روایتی گرم غبارے جیسا ہے لیکن اس میں ہیلیم گیس بھری گئی ہے جو ہائیڈروجن کے بعد کائنات کی دوسری سب سے ہلکی گیس ہے۔

مسافر بردار خلائی غبارہ بھی اسی نوعیت کا ہے لیکن جسامت میں یہ تحقیق کی غرض سے استعمال ہونے والے ہیلیم بھرے غباروں سے بہت زیادہ بڑا ہے۔غبارے کے نیچے ایک لمبی اور مضبوط تار ہے، جس کے ساتھ مسافر بردار کیپسول بندھا ہے، جس میں آٹھ مسافروں اور ایک پائلٹ کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔کیپسول کے اندر مسافروں کی حفاظت اور زمین جیسا ماحول پیدا کرنے کےلیے تقریباً اسی دباؤ پر ہوا بھری گئی ہے کہ جتنا زمینی سطح پر ہوا کا دباؤ ہوتا ہے۔

پانی کے اندر تیرنے والا ’’آبدوز ڈرون‘‘

رواں برس بیجنگ کی روبوٹ بنانے والی کمپنی نے زیر آب تیرتے ہوئے جاسوسی کرنے والا ڈرون تیار کیا ہے ۔ یہ دیکھنے میں عام سی مچھلی کی طر ح لگتا ہے ۔ یہ ڈرون نہ صرف دیکھنے میں مچھلی جیسا ہے بلکہ اس کے تیرنے کا انداز بھی بالکل مچھلی کی طرح ہے۔اس ’’آبدوز ڈرون‘‘ کی آنکھوں میں جاسوس کیمرے نصب ہیں جو سمندر کے اندر بہت دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ اس کی کھال میں کئی طرح کے سینسرزبھی نصب کیے گئےہیں جو اسے سمندری پانی کے درجۂ حرارت سمیت دوسری مختلف خصوصیات سے مسلسل باخبر رکھتے ہیں۔ یہ آبدوز ڈرون ایک مرتبہ چارج ہونے کے بعد مسلسل آٹھ گھنٹے تک پانی میں تیرسکتا ہے ۔ اسے بحری علوم اور سمندری زندگی پر تحقیق کرنے والوں کےلیے بنایا گیا ہے، تاہم ضرورت پڑنے پر اس سے سمندر کی خفیہ نگرانی کا کام بھی لیا جاسکتا ہے اور مستقبل میں یہ کار آمدثابت ہوگا ۔

جسمانی حرارت کو بجلی میں بدلنے والی کلائی پٹی

چین میں واقع ہاربن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر چیان زینگ اور ان کے ساتھیوں نے اس سال کلائی پر باندھنے والی پٹی ایجاد کی ہے جو جسمانی حرارت سے ایک ایل ای ڈی روشن کرسکتی ہے ۔یہ کلائی پٹی تھرمو الیکٹرک جنریٹر(ٹی ای جی) اصول کے تحت کام کرتے ہوئے بجلی بناتی ہے۔ مستقبل میں یہی ٹیکنالوجی اسمارٹ واچ اور پہنے جانے والے ہلکے پھلکے آلات کو بجلی فراہم کرے گی اوراس طرح بیٹریوں کی ضرورت ختم ہوسکتی ہے۔

ماہرین نے میگنیشیئم اور بسمتھ سے تیار اس پٹی کو پولی یوریتھین سے بنایا ہے اور تمام الیکٹروڈ لچک دار بنائے ہیں۔ اس طرح یہ پوری پٹی نرم اور لچک دار ہے اور انسانی کلائی پر گھما کر پہنی جاسکتی ہے۔ٹی ای جی کا اصول بہت سادہ ہے یعنی ایسے آلات دو مقامات پر درجۂ حرارت میں تبدیلی سے برقی رو پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ پٹی جسمانی درجہ ٔحرارت اور کمرے کی گرمی کے فرق سے بجلی بناتی ہے۔ یہ پٹی بہترین حالت میں بجلی فی مربع سینٹی میٹر 20 مائیکرو واٹ بجلی تیار کرتی ہے۔ بجلی کی یہ مقدار ایک ایل ای ڈی روشن کرنے کے لیے کافی ہے۔

شکر کے دانے جتنا ’’مائیکروفلائر‘‘ ڈرون

امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے انجینئروں نے2021 ءمیں دنیا کا سب سے مختصر ڈرون ایجاد کیا ہے جو شکر کے دانے جتنا چھوٹا ہے اور ہوا کے زور سے اُڑایا جا سکتا ہے۔’’مائیکروفلائر‘‘ نامی اس ڈرون کی جسامت ایک ملی میٹر سے بھی کم ہے جب کہ اس کی تین پنکھڑیاں اسے اُڑنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے درمیانی حصے میں مائیکروچپ سمیت وہ تمام آلات ہیں جو اسے توانائی ذخیرہ کرنے، ارد گرد ماحول کے بارے میں جاننے میں مدد دیتے ہیں۔ اس مائیکروفلائر ڈرون کی ننھی منی پنکھڑیاں گھمانے کےلیے کوئی موٹر نصب نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ ہوا کے دوش پر دُور دُور تک بکھر جانے والے بیجوں کی طرح ہوا میں اُڑتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی عام استعمال کے آلات سے لے کر طبّی تشخیص اور ماحول پر نظر رکھنے تک، متعدد مقاصد میں ہمارے کام آسکے گی۔مائیکروفلائرز کی تیاری میں ایسے مادّے استعمال کیے گئے ہیں جو قدرتی ماحول میں کچھ دنوں بعد خود ہی تحلیل ہو کر بے ضرر مادّوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس کو ابھی تجرباتی طور پر بنایا گیا ہے ۔ ماحولیاتی تحقیق کےلیے مائیکروفلائرز کی بڑی تعداد کسی طیارے یا ڈرون میں بھر کر بہت اونچائی پر پہنچائی جائے گی اور وہیں سے ہوا میں چھوڑ ی جائے گی۔ یہ مائیکروفلائرز ہوا کے ساتھ دور دور تک پھیل جائیں گے۔ اسی دوران وہ اعدادوشمار جمع کرکے ڈیٹا کلیکشن یونٹ کو نشر کردے گا ۔

فائیو جی نظام سے بجلی بنانے والے کارڈ

رواںبرس جار جیا ٹک کے ماہرین نے ایک ایسا کارڈ تیار کیا ہے جو فائیو جی کی مدد سے بجلی تیار کر تاہے ۔یہ فائیو جی ٹاور سے خارج ہونے والی شعاع سے براہ راست بجلی بنا سکتا ہے ۔ یہ کارڈ فائیو جی ٹاور سے 180 میٹر یا 600 فٹ کی دوری پر 6 مائیکروواٹ بجلی کھینچ لیتا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا تھری ڈی، کارڈ نما ریکٹیفائنگ اینٹینا ہے جو فائیوجی ٹاور سے بجلی کشید کرسکتا ہے۔ نظری طور پر وائرلیس مواصلاتی نظاموں میں بہت توانائی پیدا ہوتی ہے ۔

لیکن زیادہ توانائی کے لیے بڑی جسامت والے ریکٹیفائنگ اینٹینا درکار ہوتے ہیں، پھر اینٹیاؤں کا رخ بھی اس جانب کرنا ہوتا ہے جہاں سے ریڈی ایشن پھوٹ رہی ہوتی ہیں،تاہم اس ایجاد سے کروڑوں اسمارٹ فون اور چھوٹے آلات میں بیٹریاں نکال کر انہیں اسمارٹ سٹی یا اسمارٹ زراعت میں استعمال کیا جاسکتا ہے، تاہم بہت سے مسائل کو حل کرنے کے لیے کارڈ کے عین درمیان ایک قسم کا پرزہ لگایا گیا ہے جسے’’ روٹمین لینس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

روٹمین لینس کے ساتھ ساتھ کارڈ کو اتنا لچکدار بنایا گیا ہے کہ اسے موڑا جاسکتا ہے اور پرنٹر سے پورا سرکٹ بھی چھاپہ جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ کارڈ بجلی کی معمولی مقدار ہی بناتا ہے لیکن چھوٹے سینسر، اشیا کے انٹرنیٹ (آئی او ٹی) اور دیگر چھوٹے آلات اس سے چلائے جاسکتے ہیں۔ ماہرین پر اُمید ہیں کہ ان کی یہ ایجاد وائرلیس ٹیکنالوجی اور انرجی میں انقلابی تبدیلی کی وجہ بن سکے گی۔

پانی پر اُڑنے والی کشتی

تین ممالک کے ماہرین نے اس سال مشتر کہ طور پر ایک ایسی جدید بادبانی کشتی ڈیزائن کی ہے جو پانی پر تقریباً اُڑتے ہوئے ،تیز رفتاری سے آگے بڑھ سکتی ہے ۔اس کشتی کو ’’پرسیکو ایف 70 ہائپربوٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، پرسیکو میرین، کارکیک ڈیزائن پارٹنرز اور پینن فارینا ناٹیکا کے اشتراک سے ڈیزائن کی گئی ہے ،جس کی لمبائی 70 فٹ ہے۔یہ تفریحی مقاصد کے علاوہ بادبانی کشتیوں کی ریس میں بھی استعمال ہوسکے گی۔ اس پر لمبے بادبان نصب ہیں جنہیں ضرورت پڑنے پر کھولا اور بند کیا جاسکتا ہے۔

کشتی کو ہر ممکن حد تک کم وزن اور مضبوط بنانے کے لیے اس میں کاربن کمپوزٹ کہلانے والے مادّے کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔ بادبان (فوائلز) کھولے جانے پر یہ صرف 10 ناٹ (18.5 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے چلنے والی ہوا پر ’’فل فلائٹ موڈ‘‘ میں آجائے گی۔فل فلائٹ موڈ میں اس ’’ہائپربوٹ‘‘ کا بہت معمولی حصہ پانی کو چھو رہا ہوگا، یعنی یہ پانی پر اُڑتی ہوئی محسوس ہوگی۔

لمبائی کے مقابلے میں اس کی چوڑائی خاصی کم ہے لیکن پھر بھی اس کا اندرونی حصہ بہت کشادہ اور آرام دہ ہے۔ پرسیکو ایف 70 ہائپربوٹ میں بجلی سے چلنے والا انجن بھی نصب ہوگا لیکن وہ صرف شدید ضرورت پڑنے پر ہی استعمال کیا جائے گا۔ اس بادبانی کشتی میں ڈیزائن کی خوبصورتی، ساخت کی پائیداری اور آب حرکیات (ہائیڈرو ڈائنامکس) کے قوانین بیک وقت سمو دیئے گئے ہیں۔

بجلی بنانے والا سب سے چھوٹا ٹربائن

2021ء میں سائنس دانوں نے بجلی کے بحران کو کم کرنے کے لیے دنیا کا سب سے چھوٹا ہوائی ٹربائن تیار کیا ہے ،جس کا وزن صرف تین پونڈ ہے اور وہ 8 سے 28 میل فی گھنٹے ہوا سے گھوم کر بجلی تیار کرسکتا ہے۔اسے بیگ میں رکھنے اور کھول کر تیار کرنے میں دو سے تین منٹ لگتے ہیں۔ اس ونڈ ٹربائن کو’’شائن‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اسے ماحول دوست اور مؤثر ہوائی چارجر بھی کہا جاسکتا ہے۔

اگر آپ پہاڑوں پر جارہے ہیں، سمندر کنارے ہیں یا کسی میدان میں ہیں، شائن معمولی تیز ہوا سے بھی بجلی بناسکتا ہے جو آپ کی ضروریات کے لیے کافی ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ 40 واٹ کا ٹربائن ہے اور اس میں 12000 ایم اے ایچ کی مضبوط بیٹری نصب ہے جو اسمارٹ فون، کیمروں، روشنیوں اور دیگر چھوٹے آلات کو چلاسکتی ہے۔ اس لیے یہ ٹربائن آؤٹ ڈور سفر کرنے والے سیاحوں، مددگار عملے یا فوٹو گرافر کے لیے بہت مفید ہے۔

اس کی خا ص بات یہ ہےکہ اس سے کوئی شور نہیں ہوتا اور صرف 50 ڈیسی بیل آواز پیدا ہوتی ہے۔اس کا خصوصی ڈیزائن ہر طرح کے موسمیاتی اثرات کو برداشت کرسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے شائن کو برسہا برس چلایا جاسکتا ہے۔ اگر کسی جگہ درجہ ٔحرارت 40 درجے سینٹی گریڈ ہو تب بھی اس کا برقی نظام اور ڈیزائن قائم رہتا ہے۔اپنے چھوٹے ڈیزائن کے باوجود یہ مؤثر انداز میں بجلی بناتا ہے اور یو ایس بی سے اشیا کو چارج کیا جاسکتا ہے۔

2021: ایجادات کی دنیا میں چھانے والے روبوٹس

80 منٹ میں کورونا ٹیسٹ کرنے والاروبوٹ

رواں بر س جاپانی کمپنی کاواسا نے کورونا کا ٹیسٹ کرنے والا روبوٹ تیار کیا ہے جو مریض کی ناک اور حلق سے نمونے لیتا ہےاور 80منٹ میں نتیجہ بتا دیتا ہے۔ یہ سسٹم 16 گھنٹوں میں 2 ہزار نمونوں کی پراسیسنگ کر سکتا ہے۔ یہ سسٹم دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک مصنوعی بازو ہے جو ٹیسٹ کے لیے نمونے لیتا ہے اور دوسری لیب تیکنیک مشین ہے، جس میں ٹیسٹ انجام دیا جائے گا۔ان روبوٹس کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں ٹرکوں پر لاد کر کھیل کے میدانوں، تھیم پارکوں اور دوسرے عوامی مقامات پر پہنچایا جا سکتا ہے جہاں کم وقت میں بڑی تعداد میں کورونا ٹیسٹ کرنا ممکن ہوگا۔

کھیت سے فالتو پودے تلف کرنے والا روبوٹ

2021 ء میں کاربن روبوٹکس نامی کمپنی نے ایک ایسا روبوٹ تیار کیا ہے جو قیمتی فصلوں پر اُگنے والی خود روجھاڑیاں کو ایک گھنٹے میں اکھا ڑ پھینکتا ہے۔ یہ جھاڑیاں فصلوں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں ۔یہ روبوٹ بلند معیاری کمپیوٹر وژن اور طاقتور لیزر کی مدد سے فصلوں کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ایک گھنٹے میں ہزاروں سے ایک لاکھ تک جھاڑیاں صاف کرسکتا ہے جو ایک مؤثر ویڈ کنٹرول فراہم کرتا ہے۔

چار پہیوں والا یہ روبوٹس جی پی ایس، کمپیوٹر وژن اور لیزر کی مدد سے کام کرتا ہے۔ اس میں اعلیٰ معیار کے کیمرے لگے ہیں اور کلاؤڈ سپر کمپیوٹر کی مدد سے تصاویر میں سے مضر بوٹیوں کو پہچانا جاتا ہے۔ اس کے بعد روبوٹ پر 150 واٹ فی کس کی آٹھ مشینیں لگی ہیں جو ایک گھنٹے میں ایک لاکھ جڑی بوٹیوں کو بھسم کردیتی ہیں۔

یہ روبوٹ 24 گھنٹے ڈیزل پر کام کرسکتا ہے اور ایک دن میں 15 سے 20 ایکڑ زمین صاف کرسکتا ہے۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنی ٹیکنالوجی کی بدولت اطراف کی قیمتی مٹی خراب نہیں کرتا اور اس کی خرد حیاتیات کا بھی خیال رکھتے ہوئے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرتا ہے۔

ریتیلی مٹی کے نیچے سفر کرنے والا روبوٹ

اس سال یونیو رسٹی آف کیلی فورنیا اور جارجیا ٹیک نے مشتر کہ طور پر ایک روبوٹ تیار کیا جو خشکی ،سمندر اور ہوا میں غیر معمولی خدمات انجام دیتا ہے ۔اس کے اگلے سرے سے اسےآگے بڑھانے والا مٹیریل باہر نکلتا رہتا ہے۔ اس کے بعد مٹی میں غوطہ لگانے کے لیے وہ اپنے منہ سے ہوا کی بوچھاڑ خارج کرکے مٹی کو ہٹاتا ہے اور اپنا راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے، یہ نیا روبوٹ مٹی میں گھسنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔

روبوٹ کو مٹی میں سفرکرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ریت اور مٹی ہے۔ یہ ایک طرح کا لچکدار نرم روبوٹ ہے جو اپنے پورے وجود کو کھینچنے کی بجائے خود کو اپنے اگلے کنارے سے بڑھاتارہتا ہے۔ چوں کہ روبوٹ کا اگلا حصہ ہی حرکت کرتا ہے تو اس طرح وہ تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔ اس کی نوک پر ایک نوزل ہے ،جس سے زوردار ہوا خارج ہوتی رہتی ہے اور مٹی کے ہٹاؤ سے راستہ بنتا رہتا ہے۔

یہ روبوٹ بالکل عمودی انداز میں کسی ڈرل مشین کی طرح ریت میں داخل ہوسکتا ہے۔ لیکن ریت کے اندر مکمل چھپ جانے کے بعد بھی وہ ہوا پھینکتا رہتا ہے ،جس سے ریت کی رگڑ کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ روبوٹ پائپ لائنوں کا جائزہ لینے، مٹی کے نمونے جمع کرنے اور زمین کے اندر سینسر بچھانے جیسے اہم کام انجام دے سکتا ہے۔

(لےآؤٹ آرٹسٹ : نوید رشید)