ضمنی انتخابات ۔ ایک خوش گوار تجربہ

August 25, 2013

تین دن پہلے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات منعقد ہوئے، جس میں قومی اسمبلی کی 16 اور صوبائی اسمبلی کی 26نشستوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ ان ضمنی انتخابات کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان پرنہ صرف جماعتیں کسی حدتک اطمینان کا اظہار کررہی ہیں بلکہ طویل عرصے بعد لوگوں کو بھی یہ احساس ہوا ہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر کوئی گڑ بڑ نہیں ہوئی ہے۔ ان ضمنی انتخابات کو متنازع قرار دینا آسان نہیں ہوگا۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے اور اس کے پاکستان کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ 11 مئی 2013ء کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد انتخابی عمل اور انتخابات کرانے والے ادارے یعنی الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عوام اور سیاسی جماعتوں کے اعتماد کی بحالی ایک اہم واقعہ ہے۔ 11 مئی کے انتخابات کو الیکشن کمیشن آف پاکستان یا ملکی اور غیر ملکی مبصرین کتنا ہی شفاف کیوں نہ کہیں، پاکستان کے عوام کی اجتماعی دانش ان سے اتفاق نہیں کرتی۔ زمینی اور معروضی حقائق کو پروپیگنڈے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کوئی بڑی ساکھ والا ملکی یا عالمی ادارہ زیادہ دیر تک سچ کی پردہ پوشی کرسکتا ہے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ اپنی ساکھ خراب کرے گا۔ 11 مئی کے عام انتخابات نے انتخابی عمل اور انتخابات کرانے والے اداروں پر عوام کے اعتماد کو سخت مجروح کیا تھا۔ ایسے حالات میں ضمنی انتخابات کا انعقاد جس طرح ہوا ، اسے پاکستان کے سیاسی عمل کے لئے غنیمت قرار دیا جاسکتا ہے۔
ویسے تو پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا جاتا ہے اور بعض انتخابات میں تو بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کے ثبوت بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ 1970ء کے عام انتخابات کے حوالے سے بہت سے حلقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ انتخابات شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تھے۔ ان انتخابات میں پاکستان نے ایک نئی کروٹ لی تھی اور پاکستان کے عوام نے اسٹیبلشمنٹ ، اس کی سوچ اور اس کے سیاسی چہروں کو مسترد کردیاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بعض طاقتور عناصر ان انتخابات کو پاکستان کے لئے خطرناک قرار دیتے ہیں اور یہ موٴقف اختیار کرتے ہیں کہ شفاف انتخابات کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا۔ اگر آئندہ بھی شفاف انتخابات ہوئے تو ان عناصر کے بقول پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں پاکستان میں شفاف انتخابات نہیں ہونے دیئے گئے ۔ پاکستان کو بچانے کے نام پر تقریباً ہر انتخابات میں عوام کا مینڈیٹ چرایاگیا اور سیاسی ارتقاء کو روکنے کی احمقانہ کوشش کرکے پاکستان میں سیاسی افراتفری اور انتشار پیدا کیا گیا۔ غیر سیاسی اور مسلح گروہوں کو سیاست کے نام پر عوام پر مسلط کیا گیا۔ جمہوری قوتوں کے مقابلے میں لوٹ مار اور دہشت گردی کرنے والے مخصوص گروہوں کو مخصوص جگہوں پر بیٹھ کر سیاسی پارٹیوں میں تبدیل کیا گیا اور پاکستان کو ایسی تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل دیا گیا جو شاید اس کے دشمن بھی نہیں کرسکتے تھے۔ 1985ء سے 2013ء تک ہونے والے عام انتخابات میں جوکچھ ہوا ، اس کے بارے میں پاکستان کے ایک عام آدمی کی رائے بھی وہی ہے جو کسی سیاسی دانشور یا تجزیہ کار کی ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ عام انتخابات کا نتیجہ پہلے سے تیار کرلیا جاتا ہے۔ انتخابات صرف فراڈ ہوتے ہیں اور فراڈ سے پہلے کئی ڈرامے کئے جاتے ہیں اور اس حوالے سے پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے تاکہ الیکشن فراڈ کے لئے ماحول بنایا جاسکے۔ پاکستان کا بچہ بچہ اب اس امر کا ادراک کرچکا ہے کہ پاکستان میں انتخابی نتائج ایک ایجنڈے کے مطابق بنائے جاتے ہیں اور یہ ایجنڈا کبھی ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہوتا ہے اور کبھی بین الاقوامی ایجنڈا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات بین الاقوامی ایجنڈا ہی زیادہ حاوی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں ہر عام انتخابات میں نئی سیاسی جماعت کی حکومت ہوتی ہے کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نام نہاد جنگ اسی صوبے میں لڑی جارہی ہے۔ دیگر صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے نتائج بھی بیرونی ایجنڈے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی غیر جمہوری قوتوں کے مفادات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ یہ نتائج انتہائی غیر منطقی ہوتے ہیں۔ 70 ہزار سے زائد ووٹ لینے والا ہار جاتا ہے اور بعض حلقوں میں جیتنے والوں کے ووٹ ایک ایک لاکھ سے زیادہ ہوتے ہیں حالانکہ حقیقی ٹرن آوٴٹ اتنا نہیں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں تو پھر بھی لوگ امیدواروں کے کہنے پر پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ جاتے ہیں لیکن اب یہ رحجان بھی کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ لوگوں کو پتہ ہے کہ ان کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ شہروں میں تو ٹرن آوٴٹ مزید کم ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود امیدوار لاکھوں میں ووٹ لے کر جیت جاتے ہیں۔ نتائج کے غیر منطقی ہونے کا سب سے زیادہ ادراک ہر حلقے کے لوگوں کو ہوتا ہے۔ اس صورتحال نے انتخابی عمل اور انتخابی اداروں پر عوام کا اعتماد ختم کر دیا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک بات ہے کیونکہ انتخابات لوگوں کی طرف سے احتساب کرنے اور تبدیلی لانے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ اگر لوگوں کو یہ پتہ چل جائے کہ ان کا ووٹ نہ تو احتساب کر سکتا ہے اور نہ ہی تبدیلی لاسکتا ہے تو وہ پورے سیاسی عمل سے لاتعلق ہوجاتے ہیں اور سسٹم میں غیرجمہوری قوتوں کی مداخلت بڑھ جاتی ہے۔ ان حالات میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں اور عام لوگوں نے اگر اعتماد کا اظہار کیا ہے تو یہ ایک بڑی تبدیلی ہے ۔ ریاست کے تمام اداروں پر اگر لوگوں کا اعتماد ختم ہوجائے تو زیادہ خطرے والی کوئی بات نہیں ہوتی ہے اور اگر انتخابی عمل اور انتخابی اداروں پر لوگوں کا اعتماد مجروح ہوجائے تو پھر معاملات کوٹھیک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
ضمنی انتخابات میں ہو سکتا ہے کہ بیرونی قوتوں نے زیادہ مداخلت نہ کی ہو اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی معاملات کو اس طرح اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کی ہو، جس طرح عام انتخابات میں کی جاتی ہے کیونکہ ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک ان ضمنی انتخابات سے انکے بنائے گئے سسٹم پر کوئی اثر نہیں ہونیوالا تھا، اسکے باوجود انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں نے اپنے طور پر الیکشن جیتنے کی ہرممکن کوشش کی ہو گی۔ لوگوں کے لئے اطمینان کی بات یہ ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج بہت حد تک منطقی اور معروضی حالات کے مطابق ہیں۔ این اے 1 پشاور کے حلقے میں عمران خان نے عام انتخابات میں ایک لاکھ کے قریب ووٹ لئے تھے لیکن ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف ہار گئی۔ عام انتخابات کانتیجہ شکوک وشبہات سے بالاتر نہیں تھا لیکن ضمنی انتخابات کا نتیجہ سمجھ میں آنے والا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی چھوڑی ہوئی نشستیں بھی مسلم لیگ (ن) ہار گئی ہے، یہ نتیجہ بھی منطقی ہے۔ کراچی میں ووٹرز کا ٹرن آوٴٹ بہت کم رہا ۔ یہ بات بھی منطقی ہے۔ اس طرح ضمنی انتخابات میں بہت ساری چیزیں سمجھ میں آنے والی ہیں۔ دو ماہ میں عوام نے اپنی رائے نہیں بدلی بلکہ ضمنی انتخابات میں بہتر انتظامات کی وجہ سے معروضی نتائج سامنے آئے۔ عمران خان نے 11 مئی کے عام انتخابات کے حوالے سے جو وائٹ پیپر جاری کیا ہے، اسے عوام کی غیر اعلانیہ تائید حاصل ہے۔ 11مئی کے بعد وفاق اور صوبوں میں بننے والا حکومتی سیٹ اپ لوگوں کو سیاسی طور پر مطمئن نہیں کر سکتا لہٰذا سیاسی بحران ختم نہیں ہو گا۔ پاکستان میں سیاسی بحران اس وقت ختم ہو گا جس وقت الیکشن شفاف ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونگے۔ ضمنی انتخابات میں سیاسی جماعتوں اور عوام کا اطمینان اس حقیقت کی تائید کیلئے کافی ہے۔ یہ انتخابات ایک خوشگوار تجربہ ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شفاف انتخابات سے پاکستان نہیں ٹوٹا تھا بلکہ پاکستان 70ء کے انتخابات کے نتائج کو نہ ماننے سے ٹوٹا تھا۔