وزیر داخلہ کا اعتراف

January 02, 2022

پچھلے دنوں وزیر داخلہ شیخ رشید کا یہ بیان اخباروں نے شہ سرخیوں میں شائع کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے سر سے ہاتھ نہیں اٹھااور یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تحریک انصاف کے اچھے تعلقات ہیںجس سے حزبِ اختلاف کا بظاہریہ الزام کہ تحریک انصاف کی حکومت ایک سلیکٹڈ حکومت ہے سچ ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان کی چوہتر سالہ تاریخ اس بات کی غماضی کرتی ہے کہ ملک پر جب بھی سلیکٹڈ حکومت تھونپی جاتی ہے تو اس سے ملک میں بحران پیدا ہوتا ہے۔

ان کا یہ بیان اس پس منظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن، دونوں پارٹیاں یہ تاثر دے رہی تھیں کہ ملک میں بے انتہا مہنگائی اور اقتصادی بدتری کی وجہ سے تحریکِ انصاف کی حکومت کا جلد خاتمہ ہونے والا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت ایک جدید نو آبادیاتی ملک کے معاشی مسائل کو حل کرنے سے قاصر تھی۔ وہ نہ تو بنیادی ترقی لا سکی بلکہ مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔سرکاری مشینری کے تشدد کے ذریعے اپنے اقتدار کو بر قرار رکھنے کی کوشش کی، بنیادی حقوق کی مکمل پامالی کی، الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں کے قوانین میںغیر جمہوری کالے قوانین کا نفاذ کیاجس کے باعث بلوچستا ن میں آج بھی بربریت کا دور دورہ ہے۔غداری کے جھوٹےمقدمات قائم ہوئے اور سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعے حزب اختلاف کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈہ اور دن رات عمران خان کی بھونڈی تعریف تحریکِ انصاف کے طرزِ سیاست کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ عوام نے اس رویے کے خلاف ضمنی انتخابات اور کے پی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں کھل کر اظہار کیااور پنجاب میں بھی اگراگلے کچھ مہینوں میں بلدیاتی الیکشن ہوں گے تو تحریک انصاف کا پول کھل جائے گااور اندیشہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف حزب اختلاف میں بھی نہ بیٹھ سکے گی۔ یہ ’’سر پر ہاتھ رکھنے والوں‘‘ کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ انہوں نے 22کروڑ کی اس آبادی کوتیسری دنیا کے ممالک میں سب سے آخری صفوں میں لا کھڑا کیا ہے۔

آج سیاستدانوں، محققین اور دانشوروںکیلئے یہ لمحہ فکر ہے کہ وہ ان معروضی حالات میں عوام کی راہنمائی کریں تاکہ عوام کی جمہوری اور انصاف پسند امنگوں کا مداوا ہو سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومیں ورثے میں ملے ہوئے حالات سے ہی چاہے وہ کتنے بھی بگڑے ہوئے کیوں نہ ہوں، آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ آج کی اس سیاسی اور اقتصادی ابتری کے ماحول میں سب سے بڑی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پرعائد ہوتی ہے کہ وہ کس طرح آئین اور سویلین سپر میسی کے تصور کو ابھار سکتی ہیں لیکن اس کیلئے سب سے پہلے’’ سر پر ہاتھ رکھنے والی قوتوں‘‘ کو ان کے مدار میںواپس بھیجنا ہوگا اور ایسا کیے بغیر سیاسی ارتقا تقریبا ناممکن ہے کیونکہ دنیا بھر میں سیاست، سیاست دانوںکا ہی کام ہے اور وہ کتنے ہی نا تجربہ کار کیوں نہ ہوں، آخری فیصلے انہی کے ہوتے ہیںاوریوں وہ اس تسلسل میں میچور ہوجاتے ہیں۔نواز شریف کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہ انہی’’ سر پر ہاتھ رکھنے والوں‘‘ کے توسط سے سیاست کے میدان میں آئے اور اُن کا کچھ یوں ذہنی ارتقا ہوا کہ آج وہ آئین وسویلین سپرمیسی کیلئے سب کچھ دائو پر لگا کر کھڑے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کنونشن مسلم لیگ، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی جیسی جماعتیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی سر پرستی حاصل تھی اور ہے، نے جمہوری قدروں کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ پرویز الٰہی کا بیان ہے کہ کس طرح ’’سر پر ہاتھ رکھنے والی قوتوں‘‘ نے دن دہاڑے ان کی پارٹی کے امیدواروں کو تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا۔ اسی طرح سینیٹ چیئر مین کے الیکشن میں جبکہ مرحوم حاصل خان بزنجو کے پاس 64ووٹ تھے لیکن انہیںحکومت کے 37ووٹوں کے ہاتھوں شکست دلوائی گئی۔ اسی طرح مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد نیب کا ادارہ قائم کیا اور پھر نیب زدہ سیاست دانوں کو مسلم لیگ ق میں یکجا کر کے اپنے اقتدار کو طول دیا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ ان منحرفین کو قریب نہ آنے دیں تاکہ انکی اتنی جگ ہنسائی ہو کہ آئندہ کوئی منحرف ریاستی پارٹی بننے کیلئے تیار ہی نہ ہو۔لیکن پچھلے دنوں ہم نے دیکھا کہ بلوچستان میںاسٹیبلشمنٹ کے وزیر اعلیٰ کو حزب اختلاف کی پارٹیوں کی مدد سے الگ کر کے ایک اور وزیر اعلیٰ اسی پارٹی سے بنا لیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اوروہ سیاسی طور پر اس قدر مفلوج ہوگئی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اصل لڑائی اس بات پر ہے کہ ہمارے سر پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہونا چاہیے۔ اس پس منظر میں ملک میں سیاسی طاقت کبھی عوام کے ہاتھوں میں نہیں آئے گی اور حکمران طبقہ اپنے سر پر ہاتھ رکھنے والوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہے گااور بوگس انتخابات کے ذریعے ملک کا سربراہ چناجاتا رہے گا۔

اگلے منصفانہ انتخابات میں جیتنے والی سیاسی پارٹی کیلئے ضروری ہے کہ وہ نیلسن منڈیلا کی زندگی سے سبق حاصل کرے۔ نیلسن منڈیلا کی روش ہماری آنے والے سیاسی رہنمائوں کو بھی اپنانا پڑے گی۔ اپنی کمزوریوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ سر پر ہاتھ رکھنے والوں، ججوں، صحافیوں اور اینکر پرسنوں سب کو ٹرتھ کمیشن کے سامنے پیش کرنا ہوگا تاکہ پاکستان اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں کے مطابق ایک ترقی پسند قوم بن سکے جہاں تمام مکاتبِ فکر مذہبی آزادی، امن اور خوشحالی کے ساتھ اس قوم کو آگے بڑھا سکیں۔