عوام: امریکی، ایرانی اور پاکستانی پیج پر

April 27, 2024

قارئین کرام!آج کا ’’آئین نو‘‘ بھی ایرانی صدر جناب ابراہیم رئیسی کے حالیہ اہم ترین دورہ پاکستان کے تناظر اور فالو اپ میں ہی ہے۔پاکستان میں مہمان محترم کا قیام بے حد اہمیت کا حامل یوں رہا کہ یہ محتاط و محدود عالمی وعلاقائی مخصوص سیاسی و روایتی نوعیت سے کافی ہٹ کر ہر دو ملکوں کے وسیع تر عوامی مفادات کے حصول و تحفظ کی عملی سفارتی کوششوں کا مظہر تھا ۔ایرانی صدر کے اس دورے میں کھل کھلا کر ہر دو ملکوں کے 33کروڑ (24پاکستانی اور 9کروڑ ایرانی نفوس) کی روز مرہ غذائی ، توانائی ، آمدورفت کی سہولتوں و آسانیوں اور سب سے بڑھ کر سرحدی و داخلی امن کے ضروریات اور تقاضوں کے حوالے اشتراک و باہمی تعاون و تعلقات پر بات چیت ہوئی ۔ہر دو ممالک کے جاری دوطرفہ تعلقات میں اشتراک و تعلق کے تحریری عزائم ہوئے۔واضح ہو کہ یہ سب کچھ پاکستانی اور ایرانی عوام یومیہ نوعیت کی ضروریات کے حوالے سے ناگزیر ہونے کے باوجود سیاسی و سفارتی اعتبار سے کوئی آسان کام نہیں۔ایسے کہ امریکہ نے انسداد ایٹمی پھیلائو کے عالمی اداروں پر اثرانداز ہوتے ہی طویل عرصے سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر اپنے مسلسل شبہات پر سوالات کھڑے کرکے اسے دنیا کے امن کیلئے خطرناک قرار دیا ہوا ہے۔پھر عشروں سے امریکہ ایران کو اپنے خلیجی حلیفوں کیلئے مسلسل سیکورٹی تھریٹ قرار دیتا رہا ہے۔یوں ایک طرف تو پاکستان اور ایران دونوں اپنے دوطرفہ تعلقات کی بنیاد پر تجارتی مواقع بڑھانے اور اس کی زیادہ سے زیادہ سہولتوں کو عام کرنے سے عوامی زندگیوں کو بہت جلد اور زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کا مستقل اہتمام کرنے کی مکمل پوزیشن میں نہیں آ پارہے ۔سوامریکہ اپنے اثر اور دھاک سے عائد کرائی گئی ایران کے خلاف پابندیوں پر گہری نظر رکھتا ہے کہ دو طرفہ تجارت سے دونوں ممالک ایران پر عائد کڑی پابندیوں کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہے۔

بھارت کی ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی پاک ایران مکمل و مطلوب انسان دوست آئیڈیل دوطرفہ تعلقات(تسلیم کئے گئےاور طے شدہ)کی واضح امکانی برکات و ثمرات سے محروم ہیں کہ ہر تین ممالک میں ایران تا بھارت براستہ پاکستان پائپ لائن کی تنصیب اور گیس سپلائی کا یہ تینوں ملکوں کیلئے بیش بہا، ثمرآور اور سدا بہار منصوبہ سفارتی کوششوں کے سات رائونڈ مکمل ہونے کے بعد آئی پپ (ایران پاکستان انڈیا پائپ لائن)کے اس مجوزہ و متفقہ منصوبے کا اعلان 24جولائی 2007ء میں ہونا تھا جو نہیں ہوا۔وجہ ایران پر عائد پابندیوں کی ’’مذہبی درجے کی پابندی‘‘ کا امریکی دبائو تھا جس پر پاکستان سے بہتر تعلقات اور دوطرفہ تجارت کے پرزور حامی اسلام آباد میں لاہور کے جم پل سابق بھارتی ہائی کمشنر جناب مانی شنکر نے احتجاجاً بھارتی منموہن کابینہ سے (شاید) بطور وزیر پٹرولیم استعفیٰ دے دیا تھا۔شنکر صاحب کا جنم لاہور کی مشہور لکشمی بلڈنگ میں ہوا تھا، سو انہوں نے ’’جنے لاہور نئیں تکیا او جمیا ای نئیں‘‘ (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا)کے مصداق ،بہت کچھ بلکہ سب کچھ دیکھا تھا، شنکر صاحب ایک جہاں دیدہ شخصیت ہیں ،ان کی ذہنی وسعت اور برصغیر کے عوام سے یکساں اخلاص کا اندازہ دو مرتبہ ان کے ساتھ پاک بھارت تعلقات کی بحالی و بہتری کیلئے کی گئی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی دوسرگرمیوں میں ہوا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کی سٹاف کالونی اور ہمارے ڈیپارٹمنٹ (انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن) میں بھی تشریف لائے ،سب اساتذہ نے انہیں پاک بھارت مطلوب دوستی کا حقیقی نقیب پایا۔آنے والے سالوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا دور شروع ہونے پر بھاجپا اور عالمی اولیگارکی کے گہرے تعلقات کے باعث مودی حکومت نے ایران پاکستان انڈیا پائپ لائن کو امریکی خوشنودی کیلئے یکسر ہی ترک کر دیا، اگرچہ بھارت میں اس کی حامی ایک تگڑی لابی موجود ہے ۔ خود امریکہ کے پرو پیپلز میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اور انٹرنیشنل ریلیشنز سکالرز سے ہماری درجنوں ملاقاتوں کابڑا حاصل یہ ہی رہا کہ برصغیر (جنوبی ایشیا) کی خوشحالی و استحکام و امن کا بڑا انحصار پاک بھارت باہمی دوطرفہ تعلقات اور آسیان کی طرز پر ایک موثر اور مستحکم ریجنل ارینجمنٹ پر ہے ۔آج فلسطین و کشمیر و یوکرین جیسے جنگ وجدل اور شدید تنازعات میں لپٹے سلگتے بھڑکتے مسائل کے باعث ڈی گلوبلائزیشن ہونے سے انسانیت کی یہ اہم ترین ضرورت (علاقائی تعاون) انٹرریجنل کوآپریشن کی شکل میں تبدیل ہی نہیں ہو گئی یہ وسیع ہو کر پریکٹس میں ہے۔ امریکی انتظامیہ اور ان کے معاون تھنک ٹینکس، جدید دنیا کی اولین ضرورتوں ، عالمی امن و استحکام اور اس کے چارٹر پر عالمی اتفاق کے تحفظ اور اسے روبہ عمل لانے میں اتنی ہی بڑی کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں ، جتنا عالمی سیاست و معیشت اور امن و استحکام میں امریکہ کی اہمیت ہے ۔ انسانی تہذیب نے اپنے عروج پر احترام آدمیت کو انسانی تہذیب کا اولین متفقہ ایجنڈا قرار دے دیا ہے ۔ اسے ریورس کرنا کتنا تباہ کن ہوگا؟اس پر امریکہ کو قائل کرنے، اسے لیکچر دینے اور اس کا کسی کو تجزیہ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔اس کا سب سے بڑا ریڈار امریکی رائے عامہ ہے ۔امریکہ بطور عالمی طاقت، رائے عامہ کی طاقت سے بنا ہے سرد جنگ کے چاروں عشروں میں اس کا عالمی اور سرگرم ترین مبلغ رہا ہے۔ آج امریکی عوام اور رولنگ کلاس جزواً خود اولیگارکی ہی ہے اور اس سے متاثر بھی ، یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی جمہوریت ،قیادت گورننس اور اس کی فلاسفی کے معیار میں بڑی کمی واقع ہو گئی ہے ۔’’عالمی مافیا راج ‘‘ کے بڑے ذرائع امریکی داخلی و عالمی سطح کی دونوں گورننس اپروچ کو متاثر کر رہے ہیں ۔یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ کو ویت نام میں آخری شکست کوئی ویت کانگ گوریلا مزاحمت سے ہی ہوئی یہ تو ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے کیمپسز میں امریکی افواج کے ویت نام سے انخلا کی طلبہ تحریک تھی جس نے ویت نام کو خود مختار وآزاد پرامن و خوشحال اور امریکہ ویت نام تعلقات کو ہر دو جانب ثمرآور بنا دیا۔آج بھی غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی ( جینوسائڈ) پر امریکی یونیورسٹیوں کے کیمپسز رائے عامہ کی نتیجہ خیز تحریک کا بڑا ذریعہ بن گئے ہیں جس پر نیتن یاہو نے اسے خوفناک قرار دے کر تشویشناک قرار دے دیا ۔معاملہ انسداد جنگ اور عالمی امن چارٹر کے تحفظ کا ہی نہیں،روزمرہ بنیادی انسانی ضروریات جس میں خوراک اور امن اولین ہیں۔ دنیا بھر کے عوام اور زیر بحث حکومتی موضوع کے حوالے سے امریکہ، ایران اور پاکستان کے عوام کی اولین ترجیح کا مشترکہ ایجنڈا ہے کتنے ہی اعتبار سے وہ حکومتی فیصلوں سے ماورا ایک پیج پر ہیں۔