موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے خطرات

April 27, 2024

موسمیاتی تبدیلی پاکستان اور خطے پر کس طرح اثر انداز ہو رہی ہے اس کا اندازہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان اور مشرق وسطی میں ہونے والی غیر معمولی بارشوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ رواں سال ان غیر معمولی بارشوں کا آغاز فروری کے آخری ہفتے میں بلوچستان کے ضلع گوادر میں ہونے والی بارش سے ہوا۔ یہ غیر معمولی بارش 29 گھنٹے تک مسلسل جاری رہی جس کی وجہ سے لوگوں کے گھر پانی میں ڈوب گئے جبکہ جیوانی میں حفاظتی بند ٹوٹنے سے سینکڑوں کشتیوں کو نقصان پہنچا اور پانی انہیں کھلے سمندر میں بہا لے گیا۔ اس بارش کی وجہ سے مقامی آبادی کو خوراک اور صاف پانی کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ اس دوران اگرچہ بلوچستان حکومت نے گوادر کو آفت زدہ قرار دے کر امدادی کارروائیاں شروع کر دی تھیں لیکن بارش کے پانی کی نکاسی کو ممکن بنانے میں مقامی انتظامیہ اور حکومتی اداروں کو کئی روز لگ گئے جس کی وجہ سے عملی طور پر گودار میں کئی روز تک معمولات زندگی معطل رہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی یہ شدید بارش صرف گوادر تک ہی محدود نہیں رہی ہے بلکہ گزشتہ چند ہفتوں سے ملک بھر میں وقفے وقفے سے مسلسل اور موسلادھار بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سال موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب شروع ہونے والی غیر معمولی بارشوں سے صرف پاکستان کو ہی نقصان نہیں پہنچا بلکہ ترقی اور جدت کے حوالے سے مثالی ملک متحدہ عرب امارات کے مثالی شہر دبئی میں بھی معمولات زندگی تاریخی بارش کے باعث شدید متاثر ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں سعودی عرب اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک میں بھی ان غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نظام زندگی کو دھچکا لگا ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے یا کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ عالمی اداروں کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان کاربن کے اخراج کی کل مقدار میں ایک فیصد سے بھی کم کا حصہ ڈالتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے لحاظ سے یہ پانچواں سب سے زیادہ خطرناک ملک ہے۔ اس حوالے سے اگرچہ 2020ء کی تباہ کن بارشوں کے بعد صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے خاطر خواہ قانون سازی کی ہے لیکن عملی طور پر صورتحال زیادہ امید افزا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک دو سال پہلے ہونے والی غیر معمولی بارشوں کے سبب آنے والے سیلاب کے متاثرین کی بحالی کا عمل مکمل نہیں کر سکے ہیں۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے متاثرین کی بحالی اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے عالمی فنڈنگ کی کوششوں کو بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ ایسے میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم موجودہ معاشی حالات، حکومت و اپوزیشن کے درمیان جاری سیاسی محاذ آرائی اور مقتدر قوتوں کی اس بڑے خطرے سے متعلق عدم توجہ کی پالیسی ملک کے مستقبل کیلئے خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ اگرچہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان تنہا اپنے وسائل کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے اتنے بڑے چیلنج کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے عالمی اداروں اور بڑے پیمانے پر کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے فنڈز مختص کرنے پر آمادہ کرنے کیلئے جس مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے وہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کی مربوط کوششوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

رواں سال ہونے والی مسلسل بارشوں نے شہری انفراسٹرکچر کو مزید بہتر بنانے اور موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے والی زیادہ پائیدار ترقی کے ماڈل کو اپنانے کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان جیسے ترقی پذیر یا غریب ممالک کیلئے بڑا چیلنج وسائل کی قلت اور متعلقہ شعبوں میں استعداد کار و تکنیکی مہارت کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ غیر معمولی بارشوں کے پانی سے ہونے والی تباہی سے بچنے کیلئے بارشی پانی کی نکاسی کے نظام کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئےہمارے پالیسی ساز اداروں کو بے ہنگم اور غیر مربوط انفراسٹرکچر تعمیر کرکے بارشوں اور آبی گزرگاہوں کے قدرتی راستوں کو تبدیل یا ختم کرنے کی پالیسی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے جو علاقے موسمیاتی تبدیلی کے باعث زیادہ خطرے میں ہیں وہاں مقامی آبادی کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کیلئے آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بطور اسٹیک ہولڈر ان کی مقامی دانش سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی برادری سے مالی مدد کیلئے آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ شہروں کی تعمیر نو کیلئے پلان بی اور سی تیار کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو مستقبل بنیادوں پر قائم کر کے موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے ممکنہ خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جہاں لوگوں میں اپنے تحفظ کے حوالے سے شعور پیدا ہو گا وہیں انہیں قدرتی ماحول کو محفوظ بنانے اور اسے نقصان پہنچانے کی بجائے بہتر بنانے پر راغب کیا جا سکے گا۔