خوبصورت ڈیجیٹل جال

April 27, 2024

جب آپ لذیذ خوراک سے بھرپور اور جسمانی مشقت سے محروم جدید طرزِ زندگی دیکھتے ہیں تو دل غم سے بھر جاتا ہے۔ جدید طرزِ زندگی کیا ہے؟ یہ کہ آپ نے وقتی مسرت کا ایک ذرہ بھی نہیں گنوانا، خواہ اس کیلئے ساری عمرباقی رہنے والی تکلیف اٹھانا پڑے۔ آپ نے خود کو ایک لمحہ بھی بور نہیں ہونے دینا، خواہ اس کیلئے آپ سو کی رفتار سے چلتی گاڑی میں لوگوں کے واٹس ایپ اسٹیٹس دیکھتے ہوئے اسے کسی کھمبے میں دے ماریں۔ انسان جب ساری زندگی غور و فکر کرتاہے، مشاہدہ کرتا ہے تو اس عرق ریزی کے بعد اس کے دماغ میں حکمت پیدا ہونا شروع ہوتی ہے۔ اِس وقت مگر ہم ایک ایسی نسل پیدا کر چکے ہیں، جسے واٹس ایپ نوٹیفیکیشن، فیس بک نوٹیفیکیشن، ٹوئٹر اور دوسرے سوشل میڈیا اسٹیٹس سے پیدا ہونے والی لڑائیوں سے ہی فرصت نہیں۔ غور و فکر اس نے کیا کرنا۔ لوگ دیوانہ وار کھارہے ہیں۔ موٹاپے سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے اور جلدی مر رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق اس وقت دنیا میں موٹاپے کے شکار لوگوں کی تعداد پتلے کمزور لوگوں سے زیادہ ہو چکی۔ کورونا موٹاپے کے سامنے کچھ بھی نہیں۔

لذیذ کھانے ایجاد کیے گئے ، جن میں کوئی غذائیت نہیں۔ نامور ماہرِ نفسیات اور معالج پروفیسر ملک حسین مبشر نے ایک بار یہ کہا: جس قدر شوگر اور جتنا نمک انسانی جسم کو درکار تھا، وہ خد انے پہلے ہی مختلف غذائوں میں رکھ دیا تھا۔ چینی اور نمک تو دو زہر ہیں۔

بڑے بڑے سپر سٹورز پر ہر قسم کے چپس، بسکٹ، نوڈلز، میدے کی دیگر مصنوعات اور سافٹ ڈرنکس کے انبار موجود ہیں۔ سب ہپنا ٹائز ہو چکے۔ جسمانی کام سے پیدا ہونے والی مسرت سے ہم اب آشنا ہی نہیں۔ مایونیزسے بھرے ہوئے برگر اور سلاد، تلے ہوئے آلو اور گوشت کے ٹکڑے۔

اب کیا کریں؟ کسی اچھی کمپنی کے جاگرز پہنیں۔ دیر تک پیدل چلنے کے بعد جب پسینہ بہے اور بھاگنے کی خواہش پیدا ہو تو سمجھیے کہ زندگی واپس آرہی ہے۔ آج جو نسل جوان ہو رہی ہے، اس کی ایک بہت بڑی تعداد نے کبھی صحت مند طرزِ زندگی دیکھا ہی نہیں۔

آج اکثر لوگ کامیابی کا معیار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت کماتے رہیں؛ حالانکہ انسان کا رزق صرف وہ ہے جو انسان ذاتی طور پر کھائے یا پہنے۔ ایک کامیاب زندگی میں روزانہ کی بنیاد پر کچھ جسمانی کام، کچھ عبادت اور کچھ علم حاصل کرنے کی کوشش شامل ہونی چاہئے۔ روزگار کمانے کا فرض تو سب پر عائد ہے ہی۔ بڑھنے کی عمر سے گزرنے کے بعد چوبیس گھنٹوں میں ڈیڑھ دو چپاتیوں سے زیادہ نہ کھائیں۔ ابلے ہوئے آلو، چھلی، پھل اور گھر کا بنا سلاد کھائیں۔ چینی، تلی ہوئی چیزیں، مایونیز، برگر، بیکری آئٹمز اور سب سے بڑھ کر سافٹ ڈرنکس بیماری کی علامت ہیں۔ کبھی کبھار استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ایک منصوبے کے تحت ہمیں ناکارہ کر دیا گیا۔ پنجاب اور پختون خوا میں بڑھا ہوا پیٹ طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے؛ حالانکہ دراصل وہ بیماری کی علامت ہے۔ دن رات ہمارے بچے سمارٹ فون میں مگن رہتے ہیں۔ لوگ کام کے دوران دو دو سمارٹ فون استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو وڈیو ہمیں دلچسپ لگتی ہے، وہ ہم ثواب کی نیت سے اپنے پیاروں کو بھیج دیتے ہیں۔ پورا دن پیغامات موصول ہوتے اور بھیجے جاتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ دورانِ ڈرائیونگ یہ سب کچھ ہو رہا۔ ہمارے سر مستقل طور پر سامنے کی طرف نیچے جھکے رہتے ہیں۔ فارورڈ ہیڈ پوسچر کی بیماری عام ہو چکی۔ اکثر لوگوں کے سرکندھوں سے دو تین انچ آگے جا چکے ہیں، جس سے صحت کے مسائل پیدا ہو چکے۔ لیپ ٹاپ پر کام کریں تو فیس بک اوردوسراسوشل میڈیا دماغ سوزی سے فرار کا راستہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ ہم اپنی توجہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ ان حالات میں کون سا سائنسدان ایجاد کرے گا۔ اگر آپ نے فیس بک اور واٹس ایپ مسنجرز بھی انسٹال کر رکھے ہیں تو پھر آپ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ قیمتی وقت ضائع ہو تا جا رہا ہے۔ وہ قیمتی وقت، جو غور و فکر میں صرف ہو سکتا تھا۔ وہ قیمتی وقت جو خام سے کندن بننے میں صرف ہو سکتا تھا۔

آج انسان اپنی مرضی کی زندگی نہیں گزار رہا، ایلون مسک، مارک زکربرگ اور بل گیٹس کی مرضی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اس کا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر لوگوں کے سامنے اپنی ذات کے فضائل ثابت کرتے گزر جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ریاکاری عام ہو چکی ہے۔ کیا انسان اس دنیا میں سوشل میڈیا سے محظوظ ہونے آیا تھا یا اس زندگی کا کوئی اور مقصد بھی تھا۔ کیا سوشل میڈیا کی یہ دنیا کھیل تماشا نہیں؟ کیا میری حالت اس بچّے کی سی نہیں، جسے گھر سے سودا سلف لانے بھیجا گیا تھا۔ وہ رک کر میلہ دیکھنے لگا ، ساری رقم وہاں لٹا دی۔ اب شام کا وقت ہے اور وہ سوچ رہا ہے کہ گھر کیسے جائوں۔ اس سے پہلے کہ ہم مکمل طور پر ناکارہ ہو جائیں، ایک دفعہ اس خوبصورت Digitalجال کو توڑنے کی کوشش کریں۔