جیت مبارک لیکن

August 26, 2013

ضمنی الیکشن ہو گئے ہیں۔ ان انتخابات میں حکومتوں میں شامل دائیں بازو کی جماعتیں بہت شاندار کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہو سکیں البتہ بائیں بازو کی جماعتوں نے بہت جلد اپنی بری کارکردگی پر قابو پا لیا ہے۔ خاص طور پر پیپلزپارٹی نے ضمنی الیکشن میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے گڑھ پنجاب سے نور ربانی کھر اور خرم جہانگیر وٹو کی صورت میں نقب لگائی ہے۔ سندھ میں شمس النساء میمن اور شازیہ مری نے کامیابی حاصل کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ سندھ آج بھی پیپلز پارٹی کا مضبوط قلعہ ہے۔ ٹھٹھہ میں ایک خاتون امیدوار نے وہاں کے مضبوط شیرازیوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اس کامیابی میں سسی پلیجو کا بھی کردار ہے کیونکہ ٹھٹھہ میں سسی پلیجو نے شمس النساء میمن کی انتخابی مہم بڑے زور شور سے چلائی۔ شازیہ مری نے تو کمال ہی کر دیا۔ شازیہ مری نے سانگھڑ سے وہ نشست جیتی جو روایتی طور پر پیر صاحب پگاڑا کی نشست ہے جبکہ سینیٹر سعید غنی کے مطابق اس سیٹ پر پیپلز پارٹی کبھی کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ جب پیپلز پارٹی کا بڑے سے بڑا سیلاب بھی آیا تو یہ نشست پگارا خاندان کے پاس رہی۔ سندھ میں کامیابیوں کو ”سیاسی اداکار“ ٹپی کی کامیابیاں قرار دیتے ہیں۔ ٹپی (اویس مظفر) تو کامیاب رہے مگر شہباز شریف اور پرویز خٹک ناکام رہے کیونکہ شہباز شریف کی راجن پور سے جیتی ہوئی نشست پر مسلم لیگ (ن) کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اسی طرح سردار ذوالفقار کھوسہ کی جیتی ہوئی نشست سے بھی (ن) لیگ کو ہاتھ دھونا پڑے۔ پرویز خٹک، عمران خان کی جیتی ہوئی نشست نہ بچا سکے۔ پشاور سے حاجی غلام احمد بلور جیت گئے۔ بلور صاحب کی جیت میں تمام پارٹیوں نے حصہ ڈالا۔ پی پی پی، جے یوآئی اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ دیگر جماعتوں نے غلام احمد بلور کو سپورٹ کیا۔ تحریک انصاف کی پشاور سے ہار میں خود پی ٹی آئی کے ایک کارکن صمد مرسلین نے بھرپور حصہ ڈالا۔ اسی طرح میاں والی سے پی ٹی آئی کی شکست میں تمام جماعتوں نے حصہ ڈالا، رہی سہی کسر انعام اللہ نیازی نے پوری کر دی۔ یوں نواب آف کالا باغ ملک وحید خان ہار گئے۔ ان کے اپنے کزن پیپلز پارٹی کے ملک عماد خان نے بھی ان کی مخالفت کی۔ یوں عائلہ ملک کی محنتوں پر ان کے اپنوں ہی نے پانی پھیر دیا۔ ٹی وی پر کچھ مبصرین این اے۔71 میانوالی کو عمران خان کی آبائی سیٹ قرار دیتے رہے حالانکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ عمران خان کے خاندان کا آبائی گھر میانوالی شہر میں این اے۔72 میں ہے۔ عمران خان ڈاکٹر شیر افگن نیازی سے شکست کے خوف کی وجہ سے این اے۔71 سے الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ عمران خان کی آبائی نشست پر ہمیشہ ان کے کزن انعام اللہ نیازی نے الیکشن لڑا لہٰذا یہ بات کسی طور بھی درست نہیں کہ این اے۔71 عمران خان کی آبائی نشست ہے۔جہاں تک این اے۔48 اسلام آباد کا تعلق ہے تو خاکسار نے تین ہفتے قبل جنگ کے صفحات پر لکھ دیا تھا کہ (ن) لیگ نے اس نشست پر ڈیل کر لی ہے۔ اس سیٹ سے جنرل عمر کے فرزند اسد عمر جیت گئے۔ اس مرتبہ پولنگ ڈے پر دھاندلی نہ ہو سکی مگر پری پول دھاندلی ضرور ہوئی۔ کیونکہ الزام ہے کہ سرگودھا کے سرکٹ ہاؤس میں ایک سیاسی شخصیت افسران کی میٹنگز کرتی رہی، سرکاری ملازمین کو راجن پور ٹرانسفر کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ الیکشن ضابطہٴ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک شخصیت نے مبینہ طور پراین اے۔71 میں کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر کا اعلان کیا۔
عام طور پر یہ ہوتا رہا ہے کہ ضمنی الیکشن حکومتی جماعتیں جیتتی رہی ہیں مگر اس مرتبہ لوگوں کا رویّہ اس کے برعکس رہا، اس مرتبہ اپوزیشن کی جماعتوں نے کامیابیاں حاصل کیں، ایم کیو ایم نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس جماعت نے نہ صرف کراچی میں بلکہ میرپورخاص میں بھی میدان مارا۔ ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی نے اپنی اپنی کامیابی پر جشن منا لیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنا جشن روایتی انداز میں منایا ہے۔ (ن) لیگ سوچ میں پڑی ہوئی ہے اور تحریک انصاف نے دھرنوں کا آغاز کر دیا ہے۔ واقفان حال کا خیال ہے کہ لاہور سے ایک صوبائی نشست پر (ن) لیگ کے میاں مرغوب ہار چکے تھے۔ شاید اسی لئے پی ٹی آئی کے کارکن احتجاج کر رہے ہیں۔ اس احتجاج کو روکنے کے لئے پنجاب حکومت نے پولیس کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ ہفتے کے روز لاہور کی مال روڈ کو بارش اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کو پولیس دھوتی رہی۔ آئندہ چند روز میں تحریک انصاف مزید دھرنوں اوراحتجاج کا پروگرام بنا چکی ہے۔
اب کچھ باتیں آپ کی تفنن طبع کے لئے رقم کر رہا ہوں۔ مثلاً پچھلے دنوں تھائی لینڈ کی وزیراعظم پاکستان آئیں تو انہیں ایک خاص شخصیت سیر کے لئے مری لے گئی۔ یہ شخصیت کبھی ہیلی کاپٹر ایک طرف لے جانے کا کہتی تو کبھی دوسری طرف۔ اس شخصیت کے اس رویّے سے تھائی وزیراعظم بڑی نالاں ہوئیں۔ ایک تو ہیلی کاپٹر پرانا تھا پھر اندھیرا ہو رہا تھا۔ اس اندھیرے نے مہمان کی پریشانی میں اضافہ کیا۔ خیر خیریت رہی اور وہ واپس اسلام آباد آ گئیں مگر اتنی تاخیر ہو چکی تھی کہ ڈنر میں جانے سے پہلے مہمان اپنا لباس بھی تبدیل نہ کر سکیں۔ پھر مہمان کو دیر تک بٹھایا گیا کہ کوئی لاہور سے آ رہا ہے اور اسے ضرور ملنا ہے، اس سے پاکستان کی سبکی ہوئی۔ ماضی میں ایسے واقعات انجلینا جولی اور کونڈا لیزا رائس کے ساتھ پیش آ چکے ہیں۔ ایک مرتبہ قطر کے ایک وزیر کو مری کی سیر کے لئے ہیلی کاپٹر میں بیٹھنے کے لئے کہا گیا تو اس نے کہا ”واللہ! اس ہیلی کاپٹر میں ،مجھے اپنی جان عزیز ہے، ویسے بھی میں مری دیکھ چکا ہوں“۔ یہ بات مری کے شوقین لوگوں نے کی تھی۔پاکستانی سیاست میں بیرونی عمل دخل بہت بڑھ چکا ہے۔ تازہ ترین فرمان میں وزیراعظم صاحب نے فرمایا ہے کہ ”عوام نے انہیں بھارت سے دوستی کے لئے مینڈیٹ دیا اسی لئے تو لوگوں نے ووٹ دیئے“۔ بھارت کا تو مجھے پتہ نہیں اتنا ضرور پتہ ہے کہ حالیہ جنرل الیکشن میں ایک جماعت نے مبینہ طور پر ایک بیرونی ملک کے کہنے پر ایک مذہبی متشدد تنظیم سے مراسم کے حامل اراکین کو تقریباً آٹھ ٹکٹ جاری کئے۔ اسی طرح یہ بھی الزام ہے کہ ایک سیاسی جماعت اپنے امیدواروں کی فہرست ایک امریکی سفارت کار کو دیتی تھی پھر ایک خاتون افسر حتمی منظوری کے بعد فہرست واپس بھیج دیتی تھی جیسا کہ پچھلے دور میں ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے کہنے پر ایک دو ٹکٹ جاری ہوئے تھے۔ بقول منصور آفاق
کیسی تنہائی سی آنکھوں میں اتر آئی ہے
میں ہی کیا، کوئی بھی اپنا نہیں لگتا مجھ کو